کیا نیب نے واقعی 153 ارب کی ریکوری کی ہے؟
پاکستان میں انسدادِ بدعنوانی کا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) گذشتہ چند روز سے خبروں میں ہے اور اس کی وجہ حال ہی میں جاری کیا جانے والا صدارتی آرڈیننس ہے جس کے ذریعے نیب قوانین میں چند ترامیم کی گئی ہیں۔
نیب کا بنیادی کام احتساب اور بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی ملکی دولت کو ریکور کرنا ہے۔
حال ہی میں نیب کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں نیب نے گذشتہ 27 ماہ کے دوران بلاواسطہ یا بلواسطہ 153 ارب روپے کی ریکوری کی ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس اکتوبر کے آغاز میں نیب نے دعویٰ کیا تھا کہ ریکور کی جانے والی رقم 71 ارب روپے ہے تاہم گذشتہ دو، تین ماہ کے دوران ریکوری کا دعویٰ 71 ارب سے بڑھ کر 153 ارب تک پہنچ چکا ہے اگرچہ نیب کے اپنے مرتب کردہ ریکارڈ سے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہوتی۔
دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف فارنزک آڈٹ سے ہی یہ حقیقت سامنے لائی جا سکتی ہے کہ دراصل نیب نے کتنی ریکوری کی ہے اور اس عرصے میں نیب نے سرکار کا کتنا پیسا خرچ کیا ہے۔
نیب کی ریکوری کی حقیقت کیا ہے؟
نیب کی درجہ بندی کے مطابق ریکوری آٹھ مد میں ہوتی ہے:
- والنٹری ریٹرن
- پلی بارگین
- بینکوں کے قرضوں کا معاملہ جو نیب دیکھ رہا ہے
- وہ قرضے جو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے رپورٹ کیے
- قرضوں کی ری سٹرکچرنگ یا ری شیڈولنگ
- پنجاب کوآپریٹو بورڈ لمیٹڈ (پی سی بی ایل) کے مقدمے میں ریکوری
- عدالت کی طرف سے عائد جرمانے
- ’ان ڈائریکٹ‘ طریقے سے ریکوری
نیب کی اپنی رپورٹ کے مطابق ادارے نے 2017 اور 2018 میں والنٹری ریٹرن اور پلی بارگین سے کل 5 ارب روپے کی ریکوری کی ہے۔ اگر اس رقم میں عدالتی جرمانوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ آٹھ ارب روپے بن جاتے ہیں یعنی کل 13 ارب کی ریکوری ممکن ہو سکی ہے۔
نیب نے دیگر اداروں کی طرف سے بھی ہونے والی ریکوریوں کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنا لیا ہے اور ادارے کی کارکردگی رپورٹ میں ان کو بالواسطہ ریکوری کی مد میں ظاہر کیا گیا ہے۔ ان تمام رقوم کو بھی شامل کیا جائے تو کل حساب 38 ارب تک پہنچ کر رک جاتا ہے۔
نیب کا موقف میڈیا پر خوب چلا تو چند ہفتوں میں ہی جسٹس جاوید اقبال کے ادارے نے ریکوری کا دعوی بڑھا کر 153 ارب کر دیا۔ یعنی ایک سے دو ماہ کے اندر نیب نے 82 بلین مزید ریکور کر لیے۔
اس ریکوری کے حوالے سے نیب کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جلد تفصیلات بھی منظر عام پر لے آئیں گے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس میں بلاواسطہ اور بالواسطہ رقوم بھی شامل ہیں۔
نیب کی درجہ بندی کے مطابق زیادہ تر ریکوری سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے بینک قرض ڈیفالٹرز کی صورت اور بلواسطہ طریقوں سے ہوئی ہے یعنی جس میں نیب کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہوتا۔
’اِن ڈائریکٹ‘ یعنی بلواسطہ ریکوری وہ ہوتی ہے جیسے عدالت کسی مقدمے میں کسی ملزم کو کہتی ہے کہ وہ اتنے پیسے قومی خزانے میں جمع کرا دے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک ملک ریاض کو 460 بلین قومی خزانے میں جمع کرانے حکم دیا ہے۔
ملک ریاض جیسے جیسے رقم سپریم کورٹ میں جمع کرا رہے ہیں نیب بھی اس جمع شدہ رقم کو اپنی دستاویزات میں اِن ڈائریکٹ ریکوری میں ظاہر کر رہا ہے۔ نیب ترجمان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر نیب کا ہی ریفرنس تھا جس کی بنیاد پر پیسے قومی خزانے میں جمع کرائے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے بحریہ ٹاؤن سے متعلق بینچ میں شامل ججز نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران ہی نیب پر یہ واضح کردیا تھا کہ سپریم کورٹ کی کارکردگی کو وہ اپنے کھاتے میں مت ڈالیں۔
تاہم نیب ترجمان کے مطابق جو پیسہ قومی خزانے میں چلا جاتا ہے تو ریکوری کی تمام اقسام میں نیب کا کردار ضرور شامل ہوتا ہے۔
اگر چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے دور پر نظر دوڑائی جائے تو نیب نے ان کے دور میں ریکور ہونے والے پیسے کی زیادہ تفصیلات شئیر نہیں کی ہیں۔ اس وقت ریکور کی جانے والی رقم کا بڑا حصہ سابق چیئرمین نیب میجر ریٹائرڈ قمر زمان سے متعلق ہے۔
تو 153 ارب میں سے 116 ارب کہاں چلے گئے ہیں؟
نیب ترجمان کے مطابق ادارے نے سندھ میں کچھ زمین، جعلی بینک اکاؤنٹ کیس سے کچھ ریکوری، آصف زرادی کے قریبی سمجھے جانے والے ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین اور بلوچستان سے مشتاق رئیسانی کے خلاف مقدمات میں ریکوریاں کی ہیں۔
نیب کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق اس عرصے میں کُل ریکوری صرف 38 ارب تک کی ہی بنتی ہے۔
نیب نے کس قسم کے ملزمان سے ریکوری کی ہیں؟
نیب کے قوانین پر گہری نظر رکھنے والے وکیل امجد پرویز نے بی بی سی کو بتایا کہ نیب زیادہ تر ریکوریاں عدالت سے باہر ہی ملزمان سے بارگینگ کے ذریعے کرتا ہے۔ اس عمل میں زیادہ تر سرکاری ملازمین اور بزنس مین شامل ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر کسی نے نیب کو پیسے دیے ہوں تو وہ قصوروار بھی ہو۔ زیادہ تر لوگ طویل قانونی جنگ میں الجھنے کے بجائے کچھ رقم دے کر جان چھڑا لیتے ہیں۔
نیب کا ریکارڈ بھی اس پہلو کی تصدیق کرتا ہے کہ زیادہ ریکوریاں سرکاری ملازمین اور بزنس کیمونٹی سے ہی کی گئی ہیں جبکہ فوج اور عدلیہ کا احتساب سرے سے نیب کے دائرہ اختیار میں ہی شامل نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حال ہی میں آرمی چیف سے ملاقات میں بزنس کیمونٹی نے بھی نیب کے رویے کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس ملاقات کے دو دن بعد چیئرمین نیب نے طویل پریس کانفرنس سے خطاب میں بزنس کمیونٹی کے لیے رعائیتوں کا اعلان بھی کیا ہے۔
اگر بزنس مین بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہو گئے تو پھر صرف سیاستدان اور بیوروکریسی یعنی سرکاری ملازمین ہی نیب کی زد میں رہیں گے۔
اب اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس میں کچھ ایسے سیاست دان بھی شامل ہیں جو اقتدار کے منصب کے مزے لوٹ چکے ہیں تو پھر آپ کو نیب کی طرف سے جاری کردہ ’دیگر‘ کی فہرست میں ایسے نام تلاش کرنا ہونگے۔
تاہم جب بی بی سی نے اپنے طور پر اس فہرست کو کھنگالا تو اس میں کسی ایسے بڑے سیاستدان کا نام سامنے نہیں آیا جس سے نیب نے کبھی قابل ذکر ریکوری کی ہو۔
امجد پرویر کے مطابق سیاستدان نیب کے ساتھ ڈیل کرنے کو ترجیح نہیں دیتے کیونکہ ایک بزنس مین دوبارہ کاروبار جبکہ ایک سرکاری ملازم دوبارہ نوکری کرسکتا ہے لیکن ایک سیاستدان اگر ہار مان لے تو پھر اس پر سیاسی میدان تنگ پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس طویل قانونی جنگ میں ایک سیاستدان اپنی ساکھ بچانے کی خاطر جیل کو ترجیح دیتا ہے۔
’شاید یہی وجہ ہے کہ نیب سیاستدانوں سے پیسہ ریکور کرانے میں ناکام ہے۔‘
’والنٹری ریٹرن یا پلی بارگین‘
میگا کرپشن کیسز (بد عنوانی کے بڑے مقدمات) میں نیب کو ملزمان کے ساتھ بارگین یعنی ڈیل کرنے جیسے اختیارات بھی حاصل ہیں، جن پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جاتی ہے۔
والنٹری ریٹرن یعنی ملزمان کا عدالتی کارروائی سے قبل مبینہ طور پر لوٹی گئی دولت کا کچھ حصہ اپنی مرضی سے واپس دینے پر رضامند ہو جانا۔
قانونی ماہرین کے خیال میں اس عمل میں پراسکیوشن کا کوئی کمال نہیں ہوتا بلکہ نیب قوانین کے تحت عدالتی جنگ سے پہلے ہی وقت اور وسائل بچانے کے غرض سے ایسی ڈیل کی جاتی ہے جس کے تحت ملزم مبینہ طور پر لوٹی گئی دولت کے کچھ فیصدی حصے کو واپس کرنے پر رضامند ہوجاتا ہے۔
اس عمل میں عدالتی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔
البتہ پلی بارگین انوسٹیگیشن اور ٹرائل کے دوران بھی کی جا سکتی ہے۔ اس عمل میں صرف ٹرائل کورٹ سے توثیق حاصل کی جاتی ہے۔
اگر ریکوری کی تفصیلات پر نظر ڈالی جائے تو نیب نے خود والنٹری ریٹرن اور پلی بارگین سے بھی ملزمان سے پیسہ حاصل کیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس طرح کی ریکوری کو سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیب نے ملزم سے ڈیل کر لی ہے۔
سال 2017 میں نیب کو پلی بارگین اور والنٹری ریٹرن سے 2 بلین تک ہی رقم مل سکی۔
اسی طرح 2018 میں سرکاری دستاویزات کے مطابق نیب نے اپنے زیر حراست ملزمان سے والنٹری ریٹرن اور پلی بارگین کے عمل سے تقریباً چار بلین روپے کی ریکوری کی ہے۔
نیب کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق نیب نے 31 مارچ 2019 تک پلی بارگین کے زریعے 2 ارب 28 کروڑ، 88 لاکھ اور 99 ہزار روپے ریکور کیے ہیں۔
امجد پرویز کے مطابق ملزم کو تین اقساط میں پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔
یہ اقساط بالکل اس طرح ہی ادا کی جاتی ہیں جیسے آپ نے کینٹین سٹور ڈیپارٹمنٹ (سی ایس ڈی) سے واشنگ مشین یا کسی بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدی ہوتی ہے۔
اس صورتحال میں عدالت بھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ نیب کے ان اختیارات پر یہ محاورہ درست ثابت ہوتا ہے کہ ’اگر ’فریقین‘ راضی تے کی کرے گا گا قاضی۔‘
ایسی ڈیل جس پر قاضی بھی چپ نہ رہ سکا
سپریم کورٹ کے ججز نے نیب کے کسی ملزمان سے ڈیل کرنے جیسے اختیارات پر تحفظات کا اظہار کیا جس کے بعد نیب نے سرے سے اس عمل کو روک دیا ہے۔
نیب کے ترجمان نوازش علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے کچھ عرصہ قبل سٹے آرڈر کے بعد جن ملزمان سے قسطوں میں پیسے وصول کیے جارہے تھے، اب ریکوری کا وہ عمل روک دیا گیا ہے۔
امجد پرویز اس سٹے آرڈر کے حق میں ہیں۔
ان کے خیال میں جب کوئی پکڑا جاتا ہے تو پھر قانون کو حرکت میں آنا چاہیے اور دوبارہ کسی سرکاری ملازم کو اداروں میں واپس نہیں بھیجنا چاہیے جب تک کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کرسکیں۔
نیب دستاویزات کے مطابق نیب نے صرف یکم جولائی 2016 سے 31 مارچ 2019 تک 630 بلی بارگین کی ہیں جبکہ اسی عرصے میں نیب نے 153 مقدمات میں ’والنٹری ریٹرن‘ کے زریعے ملزمان سے پیسے وصول کیے ہیں۔
نیب ترجمان کے مطابق اس وقت نیب کے سامنے زیر التوا مقدمات کی تعداد 1261 ہے جبکہ ان سے نیب کو 943 ارب روپے کی ریکوری کی امید ہے۔
نیب دستاویزات کے مطابق کل زیر سماعت مقدمات کی تعداد 1001 ہے جبکہ کل 1261 زیر التو مقدمات میں 249 مقدمات ’ڈورمنٹ‘ یعنی ایسے مقدمات جن پر سرے سے کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔
نیب کی ریکوری کا عمل کتنا حوصلہ افزا ہے؟
نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ نیب نے جو خود قومی خزانے میں پیسے جمع کرائے ہیں وہ بہت معمولی رقم بنتی ہے۔ اب اگر صحیح طور پر یہ دیکھنا ہو کہ کتنا پیسہ ریکور ہو کر قومی خزانے میں پہنچا ہے تو اس کے لیے ایک فارنزک آڈٹ کی ضرورت ہے۔
ان کے خیال میں مالیاتی امور کے ماہرین ہی اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ نیب نے اپنے قیام سے اب تک اور خاص طور پر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے دور میں کتنے پیسے ریکور کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔
ایڈووکیٹ شائستہ تبسم سلطان اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک یعنی سٹیٹ بینک آف پاکستان بھی نیب کے دعوے سے متعلق اس طرح کے حقائق کی چھان بین کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم وکلا بار میں بھی ریکوری دعوے پر بحث کرتے ہیں اور اکثر وکلا یہی کہتے ہیں کہ لگتا ہے کہ نیب کا حساب کتاب خراب ہو چکا ہے۔‘
عمران شفیق کے مطابق فارنزک آڈٹ میں یہ تفصیلات بھی منظرعام پر آ سکیں گی کہ نیب پر سرکار کا گذشتہ 20 برس میں کتنا خرچ ہوا اور نیب نے اپنی کارکردگی سے کتنی لوٹی ہوئی رقم ریکور کی ہے۔سابق پراسیکیوٹر کے مطابق نیب ایسی رقم کو بھی ریکوری میں ظاہر کرتا ہے جو ابھی ریکور ہونی ہوتی ہے۔
تاہم نیب ترجمان اس بات سے متفق نہیں ہیں۔
نیب کے ترجمان نوازش علی کے مطابق نیب جس رقم کا دعوی کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ قومی خزانے میں جمع کرائی جا چکی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ جتنی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے اس کی انھیں باقاعدہ رسید دی جاتی ہے جس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ نیب کا ریکوری میں کردار تھا۔
شائستہ سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ نیب زیادہ تر ریکوریاں اوسط درجے کے ملزمان سے کرتا ہے اور جو دوسرے اداروں کی کارکردگی ہوتی ہے اسے بھی اپنے کھاتے میں شامل کر لیتا ہے۔
اس سوال پر کہ نیب نے زیادہ رقم کس شعبے کے افراد سے حاصل کی ہے، نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی تفریق نہیں ہوتی کسی ایک مقدمے میں زیادہ شعبوں کے لوگ بھی ملوث ہوسکتے ہیں۔