کھیل

مراکش کے کوچ کی وہ حکمتِ عملی جو ورلڈ کپ میں سپین کے خلاف اہم کامیابی کا باعث بنی

Share

فٹبال ورلڈ کپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں اہم میچوں کے دوران معاملہ تناؤ سے بھرپور پینلٹی شوٹ آؤٹس تک بھی جا سکتا ہے۔

منگل کو مراکش اور سپین کے درمیان کھیلے جانے والے میچ میں بھی ہی جب ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تو مراکش کو اپنے سٹار مین کی ضرورت تھی کہ وہ سپین کے خلاف انتہائی اہم پینلٹی سکور کر کے مراکش کو ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں پہنچنے والی پہلی عرب ٹیم بنا دیں۔

120 منٹ کے کانٹے دار مقابلے اور دو کامیاب پینلٹیز کے بعد اب دباؤ سے بھرپور اس لمحے کو مسخر کرنے کی ذمہ داری اشرف حکیمی کے کندھوں پر تھی۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ اشرف حکیمی سپین میں پیدا ہوئے تھے اور ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ میں بطور رائٹ بیک کھیل چکے ہیں اور اگر صورتحال تھوڑی سی بھی مختلف ہوتی تو شاید منگل کو وہ مراکش کے بجائے سپین کی طرف سے ہی کھیل رہے ہوتے۔

تاہم 24 سالہ حکیمی نے اپنے آبائی ملک کو چنا اور اب ایک پوری قوم کی ذمہ داری کا بوجھ ان کے نوجوان کندھوں پر تھا کیونکہ ان کے سکور کرنے سے ان کی ٹیم ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں چلی جاتی۔

حکیمی نے انتہائی پرسکون انداز میں یہ پینلٹی لی، جیسے یہ کوئی بڑی بات نہ ہو۔ انھوں نے بال کو چپ کر کے گول کے عین بیچ میں پہنچا دیا ایسے پینلٹی لگانے کے انداز کو ’پنینکا‘ کہتے ہیں، جس کے بعد ہر طرف مراکش کے مداحوں کا جشن شروع ہو گیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس شوٹ آؤٹ میں کامیابی انتہائی جذباتی انداز میں منائی۔

مراکش وہ چوتھی افریقی ٹیم اور پہلا عرب ملک ہے جو فٹبال ورلڈ کپ کے کوارٹرفائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ سنہ 1990 میں کیمرون، سنہ 2002 میں سینیگال اور سنہ 2010 میں گھانا کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ آج تک سیمی فائنل تک کوئی بھی افریقی ٹیم رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

میچ کے بعد مراکش کے مینیجر ولید ریگراگی کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بہترین کامیابی ہے اور ان سب کھلاڑیوں نے مل کر کھیلا اور بھرپور ہمت دکھائی۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہمیں بہت زیادہ حمایت حاصل ہے اور ہم نے وہ توانائی آج اپنی کارکردگی میں دکھانے کی کوشش کی۔‘

یہ کامیابی اتنی بڑی تھی کہ میچ کے بعد ریگراگی کو مراکش کے بادشاہ محمد ششم کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوئی۔

ریگراگی کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کسی مراکش کے رہنے والے کے لیے بہت غیرمعمولی بات ہے۔ بادشاہ ہمیں ہمیشہ حوصلہ دیتے ہیں اور ہمیں مشورہ دیتے ہیں اور ہم سے یہ امید کرتے ہیں کہ ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔‘

’ان کا پیغام ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کے حوالے سے بہت فخر محسوس کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہم مزید محنت کرنا چاہتے ہیں اور اگلی مرتبہ زیادہ بہتر کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

hakimi

’جب کسی کو ہم یقین نہیں تھا تو ہمیں خود پر یقین تھا‘

 مراکش اس میچ میں انڈر ڈاگ تھا اور انھیں اس کا علم تھا۔

 انھوں نے اپنے گیم پلان پر بھروسہ کیے رکھا اور مضبوط ڈیفنس کے ساتھ ثابت قدم رہے جس کے باعث سپین کی صرف ایک شاٹ آن ٹارگٹ رہی حالانکہ ہسپانوی کوچ لوئس اینریکے کی ٹیم نے ایک ہزار سے زیادہ پاس کر کے مخالف ٹیم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔

 ریگراگی نے کہا کہ ’سپین اگر دنیا کی بہترین نہیں تو چند بہترین ٹیموں میں ایک ہے، ہم ان کے خلاف زیادہ جارحانہ انداز سے نہیں کھیل سکتے تھے کیونکہ وہ ہم سے یہی چاہتے تھے۔‘

 ’ہم نے صبر کیا اور ہمیں معلوم تھا کہ اگر بات پینیلٹیز تک پہنچی تو ہمارے پاس اچھا موقع ہو گا کیونکہ ہمارے گول کیپر دنیا کے بہترین گول کیپرز میں سے ایک ہیں۔ اس لیے ہم آخری لمحے تک لڑتے رہے۔‘

سٹیڈیم کے باہر موجود ایک جوشیلے مراکش مداح اعظم جو سٹیڈیم کے باہر جشن منا رہے تھے نے بی بی سی سپورٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پر کسی کو یقین نہیں تھا، لیکن ہمیں خود پر یقین تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم دوبارہ بھی جیت سکتے ہیں۔‘

morroco

ریگراگی کی سب سے بڑی مشکل

ریگراگی کی سب سے بڑی کامیابی ٹیم کے مراکش میں پیدا ہونے والے کھلاڑیوں اور تارکینِ وطن مراکش کھلاڑیوں کے درمیان تناؤ ختم کرنا تھا۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ ’ورلڈکپ سے پہلے ٹیم کے مراکش میں پیدا ہونے والے اور یورپ میں پیدا ہونے والے کھلاڑیوں کے درمیان بہت سے مسائل تھے لیکن آج میرے خیال میں اس سے دنیا کو پیغام ملا ہے کہ ہر مراکشی، مراکشی ہے۔‘

مراکش کی ٹیم میں شامل حکیمی میڈرڈ میں پیدا ہوئے، گول کیپر یاسین بونو مونٹریال کینیڈا میں اور زیئش اور نوسیر مازروئی نیدرلینڈز میں پیدا ہوئے انھیں گذشتہ کوچ کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ان کا نئی ریجیم میں استقبال کیا گیا۔

بجائے اس کے کہ ریگراگی تارکینِ وطن کھلاڑیوں کو ’کم مراکشی‘ تصور کرتے اور چونکہ وہ خود پیرس سے تھوڑا باہر مراکشی والدین کے ہاں پیدا ہوئے تھے انھوں نے ان کھلاڑیوں کا غیر ملکی لیگز میں تجربہ ٹیم کے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

مراکش کے کھلاڑی بڑے چیمپیئنز لیگ مقابلوں میں بھی کھیل چکے ہیں اور انھیں یہ معلوم ہے کہ دباؤ والے میچوں میں کس طرح کھیلنا ہے۔

مراکش کے تارکینِ وطن کی تعداد قطر میں آپ کو فٹبال پچ کے باہر بھی نظر آئے گی، جہاں 1500 مراکشی باشندے رہتے ہیں۔

سپین کے خلاف ایجوکیشن سٹی سٹیڈیم میں 20 ہزار مداح ان کی سپورٹ کے لیے موجود تھے اور سٹیڈیم کے باہر ہزاروں موبائل فونز پر میچ دیکھ رہے تھے۔

morroco

مراکش کے مداح ’ملک سے پیار کرتے ہیں‘

حکیمی کا یہ انتہائی اہم موقع پر ’پنینکا‘ خاصی مقبولیت اختیار کر گیا ہے جس کے بعد ہسپانوی گول کیپر یونائے سیمون ایک گھٹنے پر بیٹھ جانے پر مجبور ہو گئے تھے اور فٹبال ان کے قریب سے سلو موشن میں گزر گئی تھی۔

تاہم فرانسیسی کلب پیرس سینٹ جرمین کے فل بیک کو ہیرو بننے کا موقع نہ ملتا اگر گول کیپر یاسین بونو نے دو پینلٹیز سیو نہ کی ہوتیں، ہسپانوی کھلاڑی پابلو سارابیا اور عبدالحمید سبیری اور حکیم زیئش نے دو پنیلٹیز لگا کے اپنے ملک کو برتری دلوا دی تھی۔

مراکش نے سپین کو پینیلٹیز لگانے کا طریقہ بتایا اور اس کے بعد سے جشن کا آغاز ہو گیا، کھلاڑی پچ پر بھاگتے دکھائی دیے اور چیلسی کے زیئش کو ان کے ٹیم کے کھلاڑیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔

کوچ ریگراگی کو ستمبر میں ہی اس ٹیم کے ساتھ لگایا گیا تھا اور انھیں کھلاڑیوں کی جانب سے ہوا میں پھینکا گیا تھا۔

ریگراگی کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ سب کچھ مداحوں کے بغیر کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ ہوٹل آ رہے ہیں، ان کو ٹکٹوں کی ضرورت ہے، قطر میں متعدد مداح اپنی ٹیم کی حمایت کرنے آئے ہیں، کچھ امریکہ، کچھ یورپ اور کچھ مراکش سے۔‘

’وہ اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور اور میرے نزدیک ہم نے ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔ مجھے کوارٹرفائنل میں بھی ان کی ضرورت ہو گی لیکن مجھے اپنے مداحوں اور اپنے لوگوں پر فخر ہے۔‘