Site icon DUNYA PAKISTAN

کیا خواتین زیادہ غصیلی ہو رہی ہیں؟

Share

گیلپ کے سالانہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ خواتین اوسطاً دنیا بھر میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ غصیلی ہو رہی ہیں۔ ایسا ہونے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

دو سال قبل طہشا رینی اپنے کچن میں کھڑی تھیں جب ان کے پھیپھڑوں کی گہرائی سے عجیب چیخ نکلی، جس نے انھیں حیرت میں مبتلا کر دیا۔ ان کے مطابق غصہ ان کے لیے ہمیشہ ایک ایسی کیفیت رہا ہے کہ جو ان پر طاری ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی حالت ہوتی ہے، جسے وہ پہلے محسوس نہیں کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’غصہ ہمیشہ سے ایک ایسا جذبہ رہا ہے جس کو حاصل کرنا میرے لیے آسان ہے۔‘

یہ وبائی مرض کے دنوں کی بات ہے جس میں ان کے پاس کرنے کو بہت کچھ تھا۔ انھوں نے گذشتہ 20 منٹ اپنے گھر کے ارد گرد گھومنے پھرنے میں گزارے اور وہ ہر وہ چیز بلند آواز میں سن رہی تھیں جو ان کی ناراضگی کا باعث بن رہی تھی۔

مگر چیخنے کے بعد انھوں نے جسمانی طور پر بہت آرام دہ محسوس کیا۔

طہشا، جو ایک ہپنو تھراپسٹ اور لائف کوچ ہیں، تب سے پوری دنیا سے خواتین کو زوم پر اکٹھا کر رہی ہیں تا کہ وہ ہر اس چیز کے بارے میں بات کر سکیں جس سے انھیں غصہ آتا ہے اور پھر انھیں چیخنا پڑتا ہے۔

گیلپ ورلڈ پول کے 10 سال کے اعداد و شمار کی بنیاد پر بی بی سی کا یہ تجزیہ ہے کہ خواتین زیادہ غصیلی ہو رہی ہیں۔

ہر سال اس سروے میں 150 سے زیادہ ممالک میں 120,000 سے زیادہ افراد سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دوسری چیزوں کے علاوہ وہ پچھلے دن کے بارے میں کیا احساسات رکھتے تھے۔

جب بات خاص طور پر منفی احساسات کی ہو۔۔۔ غصہ، اداسی، تناؤ اور فکر۔۔۔ خواتین مسلسل مردوں کے مقابلے میں زیادہ کثرت سے یہ محسوس کرنے کے بارے میں بتاتی ہیں۔

بی بی سی کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ سنہ 2012 کے بعد سے مردوں کی نسبت زیادہ خواتین نے اداسی اور پریشانی کے احساس کے بارے میں بات کی ہے حالانکہ مردوں اور عورتوں میں ایسے جذبات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

سنہ 2012 میں مردوں اور عورتوں نے یکساں سطح پر غصے اور تناؤ کے بارے میں بتایا۔ نو سال بعد اب اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چھ فیصد پوائنٹس کے فرق کے ساتھ خواتین زیادہ غصیلی اور زیادہ تناؤ کا شکار ہوتی ہیں۔ اور کورونا وائرس کے دنوں میں اس میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔

یہ امریکہ میں مقیم ایک تھیراپسٹ سارہ ہارمون کے لیے کوئی اچنھبے کی بات نہیں ہے۔ سنہ 2021 کے اوائل میں ان کے پاس خواتین کلائنٹس کا ایک گروپ آیا، جسے ایک کھلی جگہ کھڑا کیا گیا تا کہ وہ چیخ سکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں دو چھوٹے بچوں کی ماں ہوں جو گھر سے کام کر رہی تھی اور صرف اتنی شدید، کم درجے کی مایوسی تھی جو غصے کے اظہار کا باعث بن رہی تھی۔‘

ایک سال بعد وہ دوبارہ فیلڈ میں گئیں۔ ان کے مطابق ’ان کی وہ چیخ وائرل ہو گئی تھی۔‘ ایک صحافی نے ماؤں کے ایک واٹس ایپ گروپ سے اس پر خبر کر دی اور پھر اچانک دنیا بھر سے صحافی ان سے رابطہ کرنا شروع ہو گئے۔

سارہ کا خیال ہے کہ انھوں نے ایک ایسی چیز کو ریکارڈ کیا جسے ہر جگہ خواتین محسوس کر رہی تھیں، ایک شدید مایوسی کہ وبائی مرض کا دباؤ غیرمتناسب طور پر ان پر پڑ رہا تھا۔

انسٹی ٹیوٹ فار فسکل سٹڈیز کی طرف سے انگلینڈ میں تقریباً 5,000 والدین پر سنہ 2020 میں کیے جانے والے سروے سے پتا چلا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ماؤں نے باپ کے مقابلے میں زیادہ گھریلو ذمہ داریاں نبھائیں ہیں۔

یہ معاملہ اس وقت بھی تھا، جب وہ خاندان میں زیادہ کمانے والے تھیں۔

کچھ ممالک میں ان خواتین اور مردوں کی تعداد میں فرق عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہے کہ انھیں گذشتہ روز کے مقابلے میں کہیں زیادہ غصہ آیا۔

کمبوڈیا میں سنہ 2021 میں یہ فرق 17 فیصد پوائنٹس تھا جبکہ انڈیا اور پاکستان میں یہ 12 تک تھا۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر لکشمی وجے کمار کا خیال ہے کہ یہ تناؤ کا نتیجہ ہے جو ابھر کر سامنے آیا ہے کیونکہ ان ممالک میں زیادہ خواتین تعلیم یافتہ، ملازمت پیشہ اور معاشی طور پر خود مختار ہو گئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ہی وقت میں، وہ قدیم، پدرانہ نظاموں اور ثقافت سے جڑی ہوئی ہیں۔ گھر میں پدرانہ نظام اور گھر سے باہر ایک آزاد عورت کے درمیان اختلاف بہت زیادہ غصے کا باعث بنتا ہے۔‘

انڈیا میں چنئی میں ہر جمعے کی شام رش کے وقت، وہ اس بات کا عملی مشاہدہ کرتی ہیں۔

ان کے مطابق ’آپ دیکھتے ہیں کہ مرد آرام کرتے ہیں، چائے کی دکان پر جاتے ہیں، سگریٹ پیتے ہیں۔ اور آپ کو خواتین بس یا ٹرین سٹیشن پر جلدی آتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ سوچ رہی ہوتی ہیں کہ کیا پکانا ہے۔ بہت سی خواتین ریل گاڑی سے واپسی پر گھر واپسی پر سبزیاں کاٹنا شروع کر دیتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں خواتین کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ ناراض ہیں، لیکن یہ تصور اب بدل رہا ہے۔ اب اپنے جذبات کے اظہار کی صلاحیت تھوڑی زیادہ ہو گئی ہے، اس لیے غصہ بھی زیادہ نظر آ رہا ہے۔

خواتین کے کام پر وبائی مرض کا اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ یو این ویمن کی ڈیٹا سائنسدان جنیٹ ایزکونا کے مطابق سنہ 2020 سے پہلے افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت پر سست پیش رفت تھی۔ لیکن سنہ 2020 میں یہ سلسلہ رُک گیا۔ اس سال کام کرنے والی خواتین کی تعداد 169 ممالک میں سنہ 2019 کی سطح سے نیچے رہنے کا امکان ہے۔

خواتین نے کتنا ترقی کا سفر طے کیا ہے؟

بی بی سی 100 ویمن کی دسویں سالگرہ کے موقع پر بی بی سی نے 15 ممالک کی خواتین سے کہا کہ وہ دس برس پہلے کے اور موجودہ حالات کا موازنہ کریں۔

ہر ملک سے کم از کم نصف خواتین کا کہنا ہے کہ وہ دس برس پہلے کے مقابلے میں اب اپنے مالی فیصلے خود کرنے کے قابل محسوس کرتی ہیں۔

امریکہ اور پاکستان کے علاوہ ہر ملک میں کم از کم نصف خواتین کے لیے رومانوی ساتھی کے ساتھ رضامندی سے تعلقات قائم کرنے سے متلعق بات کرنے میں آسانی محسوس کرتی ہیں۔

زیادہ تر ممالک میں سروے میں شامل کم از کم دو تہائی خواتین نے کہا کہ سوشل میڈیا نے ان کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالا ہے اگرچہ امریکہ اور برطانیہ میں یہ تعداد 50 فیصد سے کم تھی۔

15 میں سے 12 ممالک میں سروے میں شامل 40 فیصد یا اس سے زیادہ خواتین کا کہنا ہے کہ اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں گذشتہ دس برسوں میں ان کی زندگی میں سب سے زیادہبہتری ہوئی۔

امریکہ میں سروے کرنے والوں میں سے 46 فیصد کا خیال ہے کہ خواتین کے لیے طبی طور پر محفوظ اسقاط حمل تک رسائی دس برس پہلے کی نسبت مشکل ہے۔

امریکہ میں مقیم حقوق نسواں کی مصنفہ سورایا کیمالی کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس ’جینڈر‘ کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ لیبر مارکیٹ ہے۔‘ انھوں نے اپنی سنہ 2019 کی کتاب Rage Becomes Her میں غصے کے بارے میں لکھا ہے۔‘

ان کے خیال میں نگہداشت جیسی صنعت، جس سے خواتین کی اکثریت جڑی ہوئی ہے، میں کورونا وبا کے اثرات غصے کے اظہار کی صورت میں زیادہ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

اس نگہداشت کے کام میں معاوضہ بھی کم ملتا ہے۔ یہ لوگ بہت زیادہ دبے ہوئے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ انتھک محنت کی توقع پر پورا اترنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی قانونی حد کے۔ ’اسی طرح کی کیفیت اکثرت عام روایتی شادیوں میں پائی جاتی ہے۔‘

امریکہ میں خواتین پر وبائی امراض کے بوجھ کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن گیلپ ورلڈ پول کے نتائج سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہاں کی خواتین مردوں سے زیادہ غصے میں ہیں۔

سورایا کیمالی کہتی ہیں کہ ’امریکہ میں خواتین غصے کے بارے میں بہت شرم محسوس کرتی ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے غصے کو تناؤ یا اداسی کے طور پر رپورٹ کریں۔‘

شاید نمایاں طور پر امریکی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ تناؤ اور اداسی پر بات کرتی ہیں۔

یہ دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہی ہے۔ برازیل، یوراگوئے، پیرو، قبرص اور یونان میں زیادہ تعداد میں خواتین نے یہ کہا کہ وہ دباؤ کا شکار ہیں۔ برازیل میں تقریباً دس میں سے چھ خواتین نے کہا کہ انھوں نے گذشتہ دن کے زیادہ تر حصے میں تناؤ محسوس کیا۔

بولیویا، پیرو اور ایکواڈور میں بھی مرد اور عوت کے درمیان اس حوالے سے بڑا فرق دیکھا گیا۔ بولیویا اور ایکواڈور میں تقریباً نصف خواتین نے کہا کہ وہ گذشتہ دن کے زیادہ تر حصے کے لیے اداسی محسوس کرتی ہیں یعنی ان خواتین کی مردوں کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ تعداد ہے۔

مردوں کے مقابلے خواتین میں منفی جذبات کی زیادہ کثرت سے اطلاع دینے کا رجحان سنہ 2012 سے پایا جاتا ہے اور بہت سے ممالک میں یہ بدتر ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن طہشا رینی کے خیال میں امریکہ اور دیگر جگہوں پر بہت سی خواتین اب اس مقام پر پہنچ چکی ہیں جہاں وہ یہ کہنے کے قابل ہیں کہ ’مزید نہیں!‘

’ایک طرح سے جو حقیقت میں تبدیلی کو آسان بنا رہا ہے۔ اور وہ اپنے غصے کو ایسا کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔‘

جینیٹ ایزکونا نے کہا ہے کہ ’آپ کو اشتعال اور غصے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات آپ کو ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ آپ اپنے مشن میں آگے بڑھ سکیں اور لوگ آپ پر توجہ دیں۔

Exit mobile version