پہلی ملاقات میں کسی کے بارے میں تاثر قائم کرتے ہوئے ہم ان کے بولنے کے انداز کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اس بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
ہم اپنے دوستوں کا انتخاب ان کے لہجوں کی بنیاد پر کرتے ہیں، ہم اپنے پارٹنرز کا انتخاب ان کے لہجوں کی بنیاد پر کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ہم سیاست دانوں کا انتخاب بھی ان کے لہجوں اور بولنے کے انداز کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کیونکہ ہماری آواز ہمارے بارے میں ہماری سوچ سے بہت زیادہ معلومات فراہم کرتی ہے۔
یونیورسٹی آف مونٹپیلیئر میں زُبانوں کی محقق میلیسا برکت ڈیفراڈس کہتی ہیں کہ آپ اپنی آواز کے ذریعے الفاظ کی ادائیگی تو کرتے ہیں اور اس سے معلومات بھی شیئر کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ نہ صرف یہ آپ کے بائیولوجیکل سٹیٹس کے بارے میں بتاتی ہے بلکہ آپ کے سماجی رتبے کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔
’اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیا کام کرتے ہیں اور آپ معاشی اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں۔‘
’اس سے آپ کی ذہنی صحت اور مجموعی طور پر صحت کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے یعنی آپ کی آواز کی کوالٹی آپ کے بارے میں یہ تمام معلومات فراہم کرتی ہے۔‘
لوگوں کی آوازوں میں بہت معمولی فرق ہوتا ہے جو آپ کو فوری طور پر ہی، یعنی ایک سیکنڈ کے 10ویں حصے سے بھی کم وقت میں محسوس ہو جاتا ہے اور آپ اس شخص کے بارے میں تاثر قائم کر لیتے ہیں۔
لیکن آواز کی کوالٹی میں وہ کون سی چیز ہوتی ہے جسے ہم خاص طور پر پرکھتے ہیں؟ یا مثال کے طور کسی شخص کی آواز سے ہم اسے اپنا رہنما کیسے منتخب کر لیتے ہیں؟
الیکشنز کے نتائج اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ زیادہ تر ایسے امیدوار فتحیاب ہوتے ہیں جن کی آوازیں گہری ہوتی ہیں۔
جن لوگوں کی آوازیں بھاری ہوتی ہیں انھیں زیادہ اہل، نوکری پر رکھنے کے لیے موزوں اور زیادہ قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری آواز اور لہجے میں تبدیلی ہمارے اردگرد کے ماحول کے باعث بھی تبدیل ہوتی ہے، ہم عام طور پر ایک دوسرے کی نقل بھی کرتے ہیں اور ایسے دوستوں کا انتخاب بھی کرتے ہیں جن کی آوازیں اور لہجے ہم سے ملتے ہیں۔
یونیورسٹی آف لیون میں بائیو اکوسٹیشن کاٹارزینا پساسنکی کہتی ہیں کہ ’عام گفتگو میں یہ معمول کی بات ہے کہ ہم دوسرے شخص کی گفتگو کے مطابق اپنی آواز اور لہجے کو تبدیل کرتے ہیں، اگر کوئی آہستہ بات کر رہا ہے تو ہم بھی آہستہ بولیں گے اگر کوئی تیزی سے بات کر رہا ہے تو ہم بھی ایسے ہی بات کریں گے۔ یہ ہمارے اندر موجود ایک صلاحیت ہوتی ہے جو ہمیں دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے میں مدد کرتی ہے۔‘
اس حوالے سے رومانوی کشش کے بارے میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ لہجے دوسروں سے زیادہ پرکشش ہوتے ہیں؟
کافی عرصے تک یہ سوچا جاتا تھا کہ بھاری آواز جس کے باعث سیاست دان مقبول ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے مرد بھی پرکشش ہو جاتے ہیں۔
میلیسا برکت ڈیفراڈس کہتی ہیں کہ ’مردوں میں موجود ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کا ان کی آواز کی بلندی سے متضاد تعلق ہے، یعنی اگر آپ کی آواز اونچی ہے تو آپ میں ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کم ہے۔‘
’ہمیں یہ معلوم ہے کہ ٹیسٹوسٹیرونز کے باعث مردوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے جہاں تک ان میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کا عمل دخل ہے۔ اگر کسی مرد کی آواز بھاری ہے تو اسے زیادہ جنسی پارٹنر ملیں گے، اور اس کے زیادہ بچے ہو سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اپنی آواز کی بلندی کے ذریعے یعنی لہجے اور آواز کے ذریعے ایک مرد اپنے ساتھی کو اپنی صلاحیتوں کے بارے میں سگنل دے سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا مدافعتی نظام بھی بہترین ہے اور یہ بہت جارحانہ اور غلبہ رکھنے والا ہے اور اس میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں۔‘
آج کل بائیولوجسٹ اسی وجہ سے بھاری یا گہری آوازوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ خواتین کو پرکشش لگتی ہیں۔ کیا اس مفروضے کی بنیاد پر ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو خواتین کی آوازوں کو پرکشش بناتی ہیں۔
جب دنیا بھر میں مختلف آوازوں کا جائزہ لیا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ ایسی خواتین جن کی آواز کی پچ زیادہ ہوتی ہے انھیں جلدی پارٹنر ملتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ نوجوان خواتین کی آوازوں کی پچ زیادہ ہوتی ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ اس سے ان کی عمر کے بارے میں بھی معلوم ہوتا ہے اور یہ کہ وہ جنسی طور پر کتنی پرکشش ہیں۔
اس حوالے سے ہونے والی تحقیق میں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین ڈیٹس پر اپنی آواز کی پچ بڑھاتی تھیں تاہم گذشتہ کچھ سال کے دوران کچھ محققین کا کہنا ہے کہ اس میں تبدیلی آ رہی ہے یعنی خواتین کسی پرکشش شخص کے سامنے اپنی آواز ہلکی کر لیتی ہیں۔
یونیورسٹی آف لیون میں بائیو اکوسٹیشن کاٹارزینا پساسنکی نے ایک ایسی تحقیق کی جس میں خواتین نے کچھ افراد سے چھ منٹ کے لیے بات کی اور ان کے پاس اس شخص کو پسند یا ناپسند کرنے کے حوالے سے ایک ڈیوائس موجود تھی۔ اس کے علاوہ ان کی آوازیں بھی ریکارڈ کی جا رہی تھی۔
کاٹارزینا پساسنکی نے ان کی آوازوں کا موازنہ ان کی اپنی آواز کی بیس لائن سے کیا اور انھیں یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنی پسندیدہ مردوں کے سامنے اپنی آواز ہلکی کر دی تھی جبکہ جو مرد انھیں پسند نہیں آئے ان کے سامنے انھوں نے اپنی آوازوں کی پچ بڑھا لی یا اس میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد بھی ایسی خواتین کو زیادہ پسند کرتے تھے جن کی آوازیں ہلکی ہوتی تھیں۔
ایک اور ایسی ہی تحقیق میں فرانسیسی مردوں اور خواتین کی آوازوں کا جائزہ لیا گیا اور معلوم ہوا کہ جن خواتین کی آواز گہری یا پچ کم ہو فرانسیسی مردوں کو وہ زیادہ پرکشش لگیں۔
میلیسا برکت ڈیفراڈس کہتی ہیں کہ ’ایک عرصے تک ہم اس حوالے سے ہم مغالطے میں رہے اور اب ہمیں اس بارے میں ثقافت کے اعتبار سے تبدیلی بھی دکھائی دی رہی ہے جو بہت دلچسپ ہے کیونکہ جو چیز ہم نے فرانسیسی مردوں میں دیکھی وہ میں نے اس سے پہلے دوسری ثقافتوں میں نہیں دیکھی۔‘