یہ سنہ 2017 کے اختتام کی بات ہے جب پنجاب کے ضلع قصور میں پانچ سے آٹھ سال تک کی عمر کی بچیوں کے اغوا کی وارداتیں اچانک تیز ہو گئیں۔ آئے روز ضلع قصور سے کوئی نا کوئی بچی اغوا ہوتی اور پھر دو، تین روز بعد اُس کی لاش کہیں نا کہیں سے مل جاتی۔
ان وارداتوں کے باعث عوامی غم و غصہ ایک طرف تو دوسری طرف پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے الگ سٹپٹا چکے تھے۔ آئے روز عوامی احتجاج ہوتا اور ملزمان کی گرفتاری کے مطالبات کیے جاتے، مگر روایتی طریقہ کار سے تفتیش کرنے کی عادی پولیس اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ملزم کا سراغ لگانے میں ناکام نظر آ رہی تھی۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ڈاکٹر طاہر اشرف کے مطابق ’ہمارے پاس (ضلع قصور سے) پہلے ایک کیس آیا پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ یہ کُل مل کر آٹھ کیس بن گئے جس کی وجہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ یہ کوئی سیریل کلر ہے، کیونکہ پہلا کیس دوسروں سے میچ ہو رہا تھا۔ اب ہمیں اس بندے کو ڈھونڈنا تھا۔‘
ڈاکٹر طاہر اشرف کے بقول مقامی پولیس 90 کے قریب مشکوک لوگ ان کے پاس لے کر آئی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اصل ملزمان یہی ہیں، لیکن لیب میں ہونے والی تفتیش کے بعد وہ تمام لوگ بیگناہ نکلے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پھر وہ ہوم سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کے ساتھ بیٹھے اور ایک حکمت عملی بنائی۔ کیونکہ یہ سارے کیسیز ڈھائی میل کے ریڈیس میں ہوئے تھے، اس لیے قوی امکان تھا کہ ملزم اُسی علاقے میں ہوگا۔
’ہم نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ملزم 25 سے 35 سال کی عمر کے درمیان ہو سکتا ہے اور اس علاقے میں تقریباً 11 ہزار کے قریب لوگ اس عمر کی حد میں آتے تھے جسے ہم نے مارک کیا ہوا تھا۔ پھر ہم نے محکمہ شماریات سے تمام گھروں کا ڈیٹا لیا پھر گھر گھر جا کر پتا کیا کہ اس عمر کے کتنے لوگ ہر گھر میں موجود ہیں۔‘
’ہم نے 1100 کے قریب سیمپل لیے، جس کے بعد ہم ملزم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ صرف زینب قتل کیس کے دوران اتنی بڑی تعداد میں لیب ٹیسٹوں کے لیے دس کروڑ روپے لگے تھے۔ ڈی این اے کی 40 سالہ تاریخ میں دنیا میں چند ہی کیسیز ہوئے ہیں جہاں پر زینب قتل کیس جتنی کوشش کی گئی ملزم کو پکڑنے کے لیے۔‘
یاد رہے کہ بعدازاں گرفتار ملزم نے اعتراف جرم کیا جس کی پاداش میں انھیں پھانسی کی سزا دی گئی۔
جوتے نے کس طرح ملزم کو پکڑنے میں مدد کی؟
قصور میں پیش آنے والے واقعات کے ایک ہی سال بعد پنجاب کی ہی ایک تحصیل چونیاں میں پولیس کو اسی نوعیت کی صورتحال کا سامنا تھا۔ یعنی کم عمر بچے غائب ہو رہے تھے اور پولیس انھیں تلاش کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی تھی۔
اسی دوران پولیس کو چونیاں میں ایک ویران جگہ سے کچھ انسانی ہڈیاں ملیں۔ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے سربراہ ڈاکٹر طاہر اشرف بتاتے ہیں کہ ’ہماری کرائم سین کی ٹیم نے کئی ایکٹر پر پھیلے علاقے میں تلاش کے بعد انھیں کوئی 150 کے قریب ہڈیاں ملیں۔‘
’ہمیں یہ پتا کرنا تھا کہ جو بچے غائب ہوئے ہیں کیا یہ ان کی ہڈیاں ہیں یا کسی اور کی۔ ہم نے تمام جائزوں کے بعد ان ہڈیوں کے چار مختلف ڈھانچے بنا دیے اور بتا دیا کہ کون سی ہڈیاں کس کی ہیں، جن سے گمشدہ بچوں کی شناخت ہوگئی۔‘
’ہماری ٹیم کو کرائم سین سے رکشہ کے ٹائروں کے نشان بھی ملے تھے جس کی بنیاد پر ہم نے پولیس کو بتایا کہ ان کا ملزم یا تو کوئی رکشے والا ہے یا رکشہ میں یہ تمام باڈیز یہاں لائی گئیں ہیں۔ کرائم سین سے ہمیں جوتے کا نشان بھی ملا تھا۔‘
ڈاکٹر اشرف طاہر کے مطابق اس کیس میں بھی اصل ملزم تک پہنچنے کے لیے ہم نے قصور والی حکمت عملی اپنائی اور 2000 کے قریب سیمپل اکھٹے کیے۔ ’اس کیس کا ملزم میرے دفتر میں بیٹھا تھا جسے پولیس شبہے میں گرفتار کر کے لائی تھی۔ جو جوتا اس نے پہن رکھا تھا، میرے کہنے پر اس کا بھی سیمپل لیا گیا، جو میچ کر گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’شو پرنٹ بھی فنگر پرنٹ کی طرح کا ہی ہوتا ہے کیونکہ بے شک کسی بھی ایک کمپنی کا آپ جوتا لے لیں لیکن اسے جب مختلف لوگ پہنیں گے تو جسم کے وزن اور چلنے کے مختلف انداز سے اس جوتے پر نشان مختلف ہوں گے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اسی طرح نور مقدم قتل کیس میں ملزم جعفر کی شرٹ پر مقتول نور کے خون کا نشان تھا۔ ’آلہ قتل پر بھی نور مقدم کا خون تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقتول کے وجائنل سواب سے ملزم جعفر کا سیمن بھی ملا تھا جس کی وجہ سے اس پر نہ صرف قتل کی دفعات لگیں بلکہ ریپ کا بھی الگ کیس بنا۔‘
زینب قتل کیس ہو، موٹروے ریپ کیس، قندیل بلوچ کا غیرت کے نام پر قتل، نور مقدم کیس، اور اس نوعیت کے درجنوں ہائی پروفائل کیسز میں پولیس ناصرف ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب رہی بلکہ عمدہ تفتیش اور ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر مجرموں کو عدالتوں نے سزائیں بھی سُنائیں مگر کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ان تمام کیسز کے پس پردہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لیب کی رپورٹس کا اہم کردار رہا ہے۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران لاتعداد کیسیز کو سلجھانے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مدد فراہم کی ہے۔ اسی ایجنسی کی رپورٹس پر ناصرف اصل ملزمان سلاخوں کے پیچھے پہنچے بلکہ بہت سے ایسے بے گناہ ملزمان کو ریلیف بھی ملا جنھیں پولیس مختلف کیسیز میں مشکوک یا مرکزی کردار مان رہی تھی۔
مگر پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کا قیام کیسے عمل میں آیا اور اس کے سربراہ ڈاکٹر اشرف طاہر کون ہیں؟
امریکہ میں پاکستانی فرانزک سائنسدان کو موصول ہونے والا شہباز شریف کا پیغام
یہ سنہ 2008 کی بات ہے جب پاکستان سے تعلق رکھنے والے فرانزک سائنس کے شعبے سے منسلک ڈاکٹر محمد اشرف طاہر امریکہ میں معمول کے مطابق فرانزک لیب میں اپنے کام میں مصروف تھے جب انھیں صوبہ پنجاب کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے پیغام موصول ہوا۔
شہباز شریف نے ڈاکٹراشرف طاہر کو فرانزک لیب بنانے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کی درخواست کی جو اس وقت امریکہ کی ریاست اوہائیو کی کاؤنٹی کلیو لینڈ میں واقع لیبارٹری میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
جب 2008 میں ڈاکٹر اشرف طاہر پاکستان آئے تو لاہور کے علاقے ٹھوکر نیاز بیگ میں جدید لیب بنانے کے منصوبے کا آغاز ہوا جس کے لیے انھیں بطور کنسلٹنٹ رکھا گیا۔
طاہر اشرف بتاتے ہیں کہ ’جب لیب بن گئی تو وزیر اعلیٰ نے کہا آپ ہی اس کو اب چلائیں۔ میں نے کہا جی میں کیسے چلا سکتا ہوں، میری وہاں نوکری ہے، فیملی ہے، بچے ہیں۔‘ ڈاکٹر طاہر اشرف کے بقول شہباز شریف نے انھیں کئی مرتبہ بلایا اور قائل کرتے رہے، جس کے بعد میں اس لیب کا چلانے پر راضی ہوگیا۔‘
ڈاکٹر اشرف طاہر کے بقول پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کا بطور ڈائریکٹر جنرل چارج لینے کے بعد آج تک وہ اس لیب کو بطور ڈائریکٹر جنرل چلا رہے ہیں۔ڈاکٹر اشرف طاہر کے مطابق پہلا کانٹریکٹ انھیں پانچ سال کا ملا تھا جسے بعد میں آنے والی حکومتیں بڑھاتی چلی آئی ہیں۔
فرانزک لیب کے سربراہ کے بقول پاکستان میں فرانزک لیب کا سیڈ نہیں تھا، اب اس کی ٹرینگ کہاں سے لیں گے، اس کی ٹرینگ تو کسی ورکنگ لیب میں ہونی تھی۔ ’امریکہ اور یورپ پاکستان کے نوجوان لوگوں کو ٹرینگ کے لیے کون وہاں گھنسے دے گا اور میں چونکہ ایف بی آئی کے پینل پہ کام کر چکا ہوں، ایف بی آئی ڈائریکٹرکے ایڈوائزری بورڈ میں کام کر چکا ہوں ان سے اس سلسلے میں مدد کی درخواست کی۔‘
ڈاکٹر اشرف طاہر کے مطابق انھوں نے 32 لوگوں کے ویزے جاری کروائے پھر وہاں سے ان لوگوں کو 18 ماہ کی ٹریننگ دلوائی جس سے یہ لوگ ماسٹر ٹرینر بن گئے اور واپس آ کر انھوں نے باقی لوگوں کوٹرینگ دی۔’اب گذشتہ ایک دہائی سے ہمیں ایسے کورسز کے لیے باہر جانے کی ضرورت نہیں رہی۔‘
’ہم وہی ٹیسٹ کر رہے ہیں جو ایف بی آئی امریکہ میں کرتی ہے‘
ڈاکٹر اشرف طاہر کے مطابق اب پاکستان میں ملزمان تک پہنچنے کے لیے وہی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جو ایف بی آئی امریکہ میں کرتی ہے یا کسی بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتے ہیں اور ہمارا اور ان کے ٹسیٹ کا معیار بھی ایک جیسا ہے ان میں کوئی فرق نہیں۔
ڈاکٹر اشرف طاہر کے بقول ان کے پاس امریکہ سے ایک ٹرپل مرڈر کا کیس آیا کیونکہ وہاں کی دو لیب کے ٹیسٹ آپس میں میچ نہیں کر رہے تھے جس کے بعد پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ اُن کی عدالت میں منظور کی گئی
فرانزک لیب بنانے کے بعد کیا تبدیلی آئی اس کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ فرانزک لیب کے بعد سزاؤں کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہواہے۔ ’لوگوں کو آگاہی مل گئی ہے، عدالتیں فرانزک شہادتوں کی بنیاد پر سزائیں دے رہی ہیں، انصاف کی فراہمی میں تیزی آئی ہے۔‘
’لیب رپورٹس بے گناہ لوگوں کو بچاتی بھی ہیں‘
فرانزک سائنس ایجنسی کے سربراہ کے مطابق یہ لیب صرف لوگوں کو جیل بھیجنے کے لیے نہیں بنی بلکہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بچانے کا بہت بڑا کام بھی یہی لیب کر رہی ہے۔
’پولیس جن ملزمان کو ہمارے پاس لاتی ہے ان میں سے 33 فیصد بری ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے خلاف فرانزک شہادتیں نہیں آتیں اور پولیس کو انھیں چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ لیب صرف لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ لوگوں کو بے گناہ ثابت کرنے میں بھی اس کا بڑا اہم کردار ہے۔‘
ڈاکٹر اشرف طاہر کے مطابق ان کے پاس جتنے بھی کیسیز آتے ہیں ان میں سے ایک تہائی کیسیز وہ ہوتے ہیں جن میں وہ پولیس کو بتا دیتے ہیں کہ یہ آپ کا ملزم نہیں ہے کوئی دوسرا ڈھونڈ کر لائیں کیونکہ اس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔
فرانزک سائنس ایجنسی کے سربراہ کے مطابق 2016 میں گرین ٹاؤن لاہور میں ایک 6 سال کے بچے کے ریپ کے بعد قتل کیس میں پولیس ایک 25سال کے نوجوان کو لے کر آئی کہ یہ ان کا مشکوک بندہ ہے کیونکہ اس کے علاوہ اس جگہ پر جہاں یہ واردات ہوئی ہے کسی اور کی رسائی ہی نہیں تھی۔
’میں نے کہا ٹھیک ہے ٹیسٹ کر کے دیکھ لیتے ہیں۔ میں نے اپنے آفس میں اس سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ جرم کیا ہے، کہتا ہے ہاں یہ میں نے کیا ہے۔جب ہم نے پولی گرافک ٹیسٹ کیا تو اس میں وہ بالکل بے گناہ ثابت ہوا۔صبح ڈی این اے رپورٹ کا رزلٹ بھی آ گیا جس سے پتا چل گیا کہ اس بندے کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اسے چھوڑ دیا گیا۔‘
میں نے پولیس کا کہا کہ دوبارہ تفتیش کو دیکھیں جس کے بعد پولیس 16 مشکوک بندے لائی جن میں سے ہم نے ان کا اصل ملزم ڈھونڈ کر دے دیا۔ان کے بقول اگر لیب نہ ہوتی تو ملزم نے تو پہلے ہی بوجوہ جرم کا اعتراف کر لیا تھا اور ایک غلط بندہ عمر قید یا موت کی سزا بھگتتا۔
ڈی این اے رپورٹ کے متعلق ڈاکٹر اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ ڈی این اے سیمپل سے 24گھنٹے میں رپورٹ آ جاتی ہے۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی پولیس کی مدد کس طرح کرتی ہے؟
پولیس سے کس طرح سے رابطے میں رہتے ہیں اس کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف طاہر نے بتایا کہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی پولیس کے لیے ایک سپورٹ سروس ہے۔
’ہمارا ادارہ پولیس، پراسیکیوشن اور عدلیہ کی مدد اور معاونت کے لیے بنایا گیا ہے جہاں تینوں ادارے ہمارے پاس فرانزک کے لیے شواہد لا سکتے ہیں۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ پولیس کے بلانے پر ہی ان کی ٹیم جائے وقوعہ پر جاتی ہے اور ان کا رسپانس ٹائم زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ ہے کسی بھی جگہ پہنچنے کا۔ ان کے بقول ان کی ٹیم صرف پولیس کے بلانے پر ہی جاتی ہے جبکہ عام شہری نہ انھیں بلا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ جاتے ہیں۔
’ہمارے سائنسدان کرائم سین کو پوری طرح پراسیس کرتے ہیں، لوگوں کا انٹرویو کرتے ہیں، شواہد اکھٹے کرتے ہیں، انھیں سیل کرتے ہیں، چین آف کسٹڈی بناتے ہیں پھر وہ پولیس کو موصول کرواتے ہیں اور پھر پولیس ان تمام شواہد کو ہمارے پاس لیب میں لاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی سیل کے ساتھ اگر کوئی چھیڑ چھاڑ ہو تو انھیں پتا چل جاتا ہے اس لیے ایسا کرنے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اشرف طاہر کے مطابق جو بھی شواہد پولیس فرانزک جائزے کے لیے لے کر آتی ہے اسے وہ لوگ وصول کرتے ہیں جو سائنسدان نہیں ہوتے اور یہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ پولیس اور سائنسدانوں کا براہ راست کسی سطح پر بھی رابطہ نہ ہو تاکہ رپورٹس صرف اور صرف میرٹ پہ بنیں۔
سیمپل جمع کرنے کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ یہ کیس پر منحصر ہے کہ کون سے شواہد اکٹھے کرنے ہوتے ہیں۔ قتل ہے، ریپ ہے یا ڈکیتی وغیرہ۔۔۔ اس حساب سے ہی سیمپل بھی جمع کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کے بقول ہر کیس کا کرائم سین مختلف اور یونیک ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیمپل وصول کرنے کے بعد اسے متعلقہ لیب میں بھجوا دیا جاتا ہے جہاں چودہ مختلف لیبز موجود ہیں اور شواہد متعلقہ لیب میں بھیج دیے جاتے ہیں جہاں ہر سیکشن اپنی اپنی رپورٹس تیار کرتے ہیں۔
’ہمارا ایک میکینزم ہے جہاں ہم ایسے شواہد 35سال تک محفوظ رکھنے کی پالیسی لے کر چل رہے ہیں۔ اگر کوئی ہماری رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوتا تو وہ کسی بھی قابل اعتماد لیب سے اپنا ٹیسٹ کروا سکتا ہے یا ہمیں اگر درخواست دے تو ہم دوبارہ بھی ٹیسٹ کر سکتے ہیں۔‘
’فرانزک لیب کی رپورٹ نارمل پیپر پہ نہیں بلکہ سکیورٹی فیچر پیپر پر ہوتی ہے‘
فرانزک لیب کی رپورٹ میں ممکنہ رد و بدل کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ ان کے سیمپل کی رپورٹ سے چھیڑ چھاڑ کرنا ناممکن ہے۔ ’ہمارا ایک خود کار ایسا سسٹم ہے جہاں ہر سیمپل کا ایک سکیورٹی فیچر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ڈائریکٹر جنرل بھی چاہے تو رپورٹ میں رد و بدل نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے شواہد آ جائیں گے کہ کس بندے نے کب اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے۔‘
فرانزک لیب کے سربراہ کے بقول ان کی رپورٹ نارمل پیپر پر نہیں جاتی بلکہ اس میں سکیورٹی فیچر ہوتے ہیں جسے پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ پریس چھاپتی ہے جہاں کرنسی نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ایک پیپر کی قیمت تقریبا 75 روپے ہے اور وہ لاکھوں کی تعداد میں ان سے خریدتے ہیں اس لئے ہمیں وہ سپیشل بنا کر دیتے ہیں۔
’اب سپریم کورٹ تک فرانزک رپورٹس کی ڈیمانڈ کرتی ہے‘
عدالتی معاونت کے متعلق ڈاکٹر اشرف طاہر کہتے ہیں کہ انھوں نے امریکہ میں 37 سال تک فرانزک ایجنسیوں میں کام کیا ہوا ہے اور ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی گواہوں کی بات کرے بلکہ وہاں فزیکل شواہد کی ہی بات ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں لوگوں کو 40،40 سال بعد ڈی این اے کی رپورٹ پر سزائیں یا رہائی ملی ہے۔
ڈاکٹر اشرف طاہر کے مطابق پاکستان اس معاملے میں بہت پیچھے رہ گیا تھا جہاں گواہوں پر زیادہ انحصار رہا ہے لیکن سب کو پتا ہے کہ گواہان یہاں تیار بھی کر لیے جاتے ہیں جن کا حل صرف فرانز ک شواہد میں ہی ہے۔
’اب یہاں بھی عداالتوں کو پتا چل گیا ہے کہ فزیکل شواہد کیا ہیں، فرانزک شواہد کیا ہیں اور ان کی کیا اہمیت ہے اس لیے اب سپریم کورٹ تک فرانزک رپورٹس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر طاہراشرف کے مطابق فرانزک ایجنسی انصاف کی جلد فراہمی میں معاونت کرتا ہے۔
‘ڈیٹا بیس میں ملزم کے ڈی این اے سٹور ہو نے کی وجہ سے وہ پکڑا گیا‘
موٹر وے ریپ کیس کے متعلق بات کرتے ہوئے فرانزک لیب کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ بھی ایک چیلنج تھا کیونکہ ملزمان کا کچھ پتا نہیں تھا۔حکومت مسلسل کہہ رہی تھی کہ جس طرح زینب قتل کیس اور چونیاں قتل کیس حل ہوئے تھے اسی طرح اسے بھی حل کریں۔
انھوں نے بتایا کہ اس کیس میں قریبی دیہاتوں کے رہائشیوں کے سیمپل اکھٹے کیے گئے لیکن ملزمان کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔
ڈاکٹر اشرف طاہر کے بقول جب دستیاب تمام شواہد کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا تو ملزم عابد ملہی کا پتا چل گیا کیونکہ ان کے ڈیٹا بیس میں اس کا ڈی این اے سٹور ہوا پڑاتھا کسی اور کیس میں۔
عابد ملہی نے 2013 میں ایک ماں اور بیٹی کا ریپ کیا تھااور اس وقت سے اس کا ڈی این اے ہمارے پاس مخفوظ تھا۔
‘اگر ہمارے پاس ڈیٹا نہ ہوتا تو اس کیس میں ملزمان کو پکڑنا نہ صرف مشکل ہوتا بلکہ شاید آج بھی اسے ڈھونڈ رہے ہوتے اور شاید سو سال بعد بھی اسے ڈھونڈ رہے ہوتے۔’
ڈیٹا بیس کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں خوشاب میں ایک چھوٹی بچی ریپ ہوئی جس کا سیمپل ان کے پاس آیا اور کچھ مشکوک لوگ بھی لائے گئے لیکن اصل ملزم کا پولیس کا پتا نہیں چل رہا تھا اور وہ کیس سرد خانے کی نظر ہوگیا لیکن اس کیس کا ملزم کراچی چلا گیا اور چونکہ ایسے ملزمان عادی مجرم ہوتے ہیں اس لیے اس نے2020 میں وہاں بھی ایک چھوٹی بچی کا ریپ کر دیا۔
کراچی پولیس نے ڈی این اے کے لیے کیس ہمارے پاس بھیجا اورجب رپورٹ تیار ہوئی تو اس ملزم کا ڈی این اے نہ صرف کراچی ریپ کیس سے میچ کرگیا بلکہ وہ خوشاب ریپ کیس سے بھی میچ کر گیا جس سے دو مختلف صوبوں میں رپورٹ ہونے والے الگ الگ کیسیز کا ملزم پکڑا گیا۔ اگر ڈیٹا بیس بڑھادیا جائے تو ہزاروں کیسیز حل ہوسکتے ہیں۔
’ڈیٹا کی مدد سے اب تک 7 لاکھ سے زائد پرانے کیسز حل ہوئے ہیں‘
ڈاکٹر اشرف طاہر کے مطابق ایف بی آئی کے لئے ڈیٹا بیس بنانے کا کام انھوں نے 1998 میں شروع کیا تھا اور اب ان کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ڈیٹا بیس موجود ہے جس میں 22 سے 23 ملین لوگوں کے پروفائل کا ڈیٹا موجود ہے۔
اسی طرح ان کے بقول سنہ 98 سے لے کر اب تک امریکہ نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر تقریباً چھ لاکھ نامعلوم کیسیز حل کر لیے ہیں۔ ڈیٹا کی وجہ سے چند منٹ تک آپ ملزم تک پہنچ سکتے ہیں۔
’میری حکومت سے درخواست ہے کہ اس پراجیکٹ پر پیسے خرچ کریں تو وہ ضائع نہیں ہوں گے۔ اس سے پولیس کے اخراجات کم ہوں گے اور تفتیش بھی تیز ہو جائے گی اور انصاف کی جلد فراہمی بھی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ اس سے گواہان کا بوجھ بھی کم ہوگا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی فرانزک لیب دنیا میں کامیاب نہیں کہی جا سکتی جب تک وہاں یہ تین سسٹم موجود نہ ہوں ان میں ڈی این اے ڈیٹا بیس، فائر آرم کا ڈیٹا بیس اور فنگر پرنٹس کا ڈیٹا بیس۔
ان کا کہنا تھا ہم نے تینوں ڈیٹا بیس بنا لیے ہیں جس میں اب تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس فی الحال 50ہزار کے قریب ڈی این اے، سوا لاکھ کے قریب فنگر پرنٹس اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فائر آرم کا ڈیٹا بیس موجود ہے۔ اس ڈیٹا کی مدد سے اب تک سات لاکھ سے زائد پرانے کیسیز حل ہوئے ہیں جن کا دہائیوں سے کچھ پتا نہیں تھا پولیس کو۔‘
’میری آئی جی پنجاب سے بھی بات ہوئی ہے تاکہ پولیس کے پاس موجود ڈیٹا بیس کو حاصل فرانزک لیب کے ساتھ شیئر کیا جائے کیونکہ پولیس کے پاس فنگر پرنٹس کا 30 لاکھ کے قریب ڈیٹا موجود ہے‘۔
’اگر ہمارے پاس ڈیٹا بیس نہ ہوتا تو زینب قتل کیس، چونیاں ریپ کیس اور موٹروے ریپ کیسیزکے ملزمان آج تک نہ پکڑے جاتے’۔
ڈاکٹر اشرف طاہر کون ہیں؟
ڈاکٹر اشرف طاہر پنجاب میں واقع ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں موروثی پور سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے پرائمری سکول سے ہی انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
یونیورسٹی آف اگریکلچر فیصل آباد سے بی ایس سی آنرز اور ایم ایس سی آنرز کی ڈگریاں مکمل کرنے کے بعد وہ سکاٹ لینڈ چلے گے جہاں سے ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی مکمل کی جس کے بعد وہ 1976 میں امریکہ چلے گئے جہاں سے فرانزک کا کام شروع کیا۔
سب سے پہلے انھوں نے امریکی ریاست اوہائیو کے لیےکام کیا۔ وہ ریاست فلوریڈا میں فرانزک بیالیوجی اور ڈی این اے ٹیکنیکل مینیجر تعینات رہے۔ ڈاکٹر اشرف طاہر فرانزک ماہر کے طور پر امریکہ کی فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن کے ڈائریکٹر کے ساتھ بھی کام کرتے رہے اور امریکہ میں انھیں ان کی خدمات کے بدلے میں وہاں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے بھی انھیں ان کی خدمات کے عوض 2017 میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔
ڈاکٹر اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اپنی خدمات ک دوران وہ لگ بھگ 3000 کیسیز میں بطور گواہ پیش ہو چکے ہیں۔ اپنے چند مشہور کیسیز کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ باکسنگ کی دنیا کا کم عمر ترین ہیوی ویٹ باکسنگ چیمئین مائیک ٹائسن کا ریپ کیس بھی انھوں نے پراسیکیوٹ کیا جس میں مشہور باکسر کو ساڑھے بارہ سال قید کی سزا ہوئی۔