اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 78 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کمی کے ساتھ 6 ارب 72 کروڑ ڈالر پر آگئے جوکہ تقریباً 4 سال کی کم ترین سطح ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر آخری بار اس سطح سے نیچے 18 جنوری 2019 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران ریکارڈ کیے گئے تھے جب اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب 64 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے۔
کمرشل بینکوں کے پاس موجود خالص غیر ملکی ذخائر اب 5 ارب 87 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں، اس لحاظ سے ملک کے کُل غیر ملکی ذخائر اب 12 ارب 58 کروڑ ڈالر ہیں۔
اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نئی حکومت کا اولین ایجنڈا زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ رہا، تاہم اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں اس وقت سے اب تک تقریباً 4 ارب ڈالر کی کمی آچکی ہے جوکہ اُس وقت 10 ارب 90 کروڑ ڈالر تھے۔
تحریر جاری ہے
تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ذخائر میں کمی پاکستان کے لیے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی مزید مشکل بنا سکتی ہے، 6 ارب 70 کروڑ ڈالر سے زائد کے موجودہ ذخائر ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا کہ گزشتہ 5 ماہ کے دوران آمدن صرف 4 ارب ڈالر رہی لیکن توقع ہے کہ جون 2023 کو ختم ہونے والے رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں یہ شرح بڑھے گی۔
اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سکوک بانڈز کی مد میں ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کو قرار دیا، تاہم ایک سینئر تجزیہ کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ بانڈز کی ادائیگی کے بعد 6 ارب 70 کروڑ ڈالر کے ذخائر کا حساب نہیں لگایا گیا۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے 2 کمرشل بینکوں کو ایک ارب ڈالر اور پھر مزید ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ادا کیے ہیں جنہوں نے چند روز میں یہ رقم واپس ادا کرنے کی حامی بھری ہے۔
اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) کی جانب سے 50 کروڑ ڈالر کی آمد نے اسٹیٹ بینک کے اخراج کو متوازن کیا۔
تجزیہ کاروں اور محققین کی جانب سے بھاری غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ملک کی صلاحیت پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، مسلسل خدشات نے مارکیٹ میں بھی مایوسی پیدا کی اور جاری مالی سال کے دوران شرح مبادلہ غیر مستحکم رہا۔
پاکستان اب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ایک اور قسط جاری ہونے کی امید کر رہا ہے لیکن مالیاتی خسارے میں اضافے پر آئی ایم ایف کے اعتراض کے سبب بظاہر نویں جائزہ کے لیے مذاکرات تاخیر کا شکار ہیں۔
حکومت زیادہ محصولات کے لیے مزید ٹیکس لگانے کو تیار نہیں ہے جبکہ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ حکومت کو معیشت کو مستحکم کرنا چاہیے۔
آزاد معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی اگلی قسط حاصل کرنے کے لیے تقریباً 8 کھرب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنا ہوگا۔
تاہم تجزیہ کار نے کہا کہ حکومت کو یہ اضافی آمدن حاصل کرنے کا بوجھ عوام کی جیبوں پر ڈالنے کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی جو کہ اس کوشش میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
دریں اثنا انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی طلب زیادہ ہے، گزشتہ روز انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 0.09 فیصد بڑھ کر 224 روپے 37 پیسے پر بند ہوا۔
تاہم کاروباری میدان کے زیادہ تر کھلاڑی اسٹیٹ بینک کی جانب سے دیے گئے نرخوں پر بھروسہ نہیں کرتے جن کا کہنا ہے کہ سودے درحقیقت زیادہ قیمتوں پر کیے جا رہے ہیں۔