کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب اپنے علاج کےلئے ایلوپیتھک ڈاکٹر کے پاس گئے مگر کمپوڈر نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے علاج کیلئے ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کےپاس گئے ہیں اور مریض اس ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس گیا تو پتہ چلا کہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر اپنے طبی معائنے کے لئے ایک حکیم صاحب کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ مریض اس حکیم صاحب کے مطب پہنچا تو معلوم ہوا کہ حکیم صاحب ایک بابے سے دم کرانے گئے ہیں۔ میں گزشتہ روز اپنے معدے کے علاج کے لئے ہمدرد دواخانہ کے برادرم سید علی بخاری کی وساطت سے حکیم طاہر قیوم کے مطب میں پہنچا تو مجھے یہ خدشہ تھا کہ کہیں حکیم صاحب اپنے معائنے کے لئے کسی ڈاکٹر کےپاس نہ پہنچے ہوں، مگر اللّٰہ کا شکر ہے وہ اپنےمطب میں موجود تھے۔
اصل میں ہمارے ایلوپیتھک ڈاکٹر مریضوں کی کثرت کی وجہ سے بہت مصروف ہوگئے ہیں اور ان میں سے کچھ مریضوں کو پورا وقت نہیں دے پاتے۔ یہ 1970ء کی دہائی کا واقعہ ہے میں اپنے سسرال کے گھر بیٹھا ہوا تھا، اچانک مجھے محسوس ہوا کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میں ہوں کہ نہیں ہوں۔ دماغ بالکل خالی، میرا یار غار مسعود علی خان جس نے بطور ایم ڈی ٹورازم سیاحت کے کتنے ہی نئے دروازے کھول دیئے تھے، نفسیات کے مضمون سے بھی گہری دلچسپی رکھتا تھا اور رکھتا ہے، اس نے مجھے بھی اس علم کی طرف راغب کردیا تھا۔ چنانچہ جب مجھ پر یہ عجیب و غریب کیفیت طاری ہوئی تو میں نے اپنا مشہور زمانہ لمریٹا اسکوٹراسٹارٹ کیااور ایک ’’ٹرانس‘‘ کی حالت میں میوہسپتال کے شعبۂ نفسیات میں جا پہنچا، ڈاکٹر صاحب نے میری روئیداد سنی اور نسخہ یہ تجویز کیا کہ آپ پنج وقت نماز ادا کیا کریں، رمضان کے سارے روزے رکھیں۔ میں نے کہا جی انشا اللّٰہ آپ کے نسخے پر حرف بہ حرف عمل کروں گا تاہم اگر مناسب سمجھیں تو میری تسلی کے لئے کوئی دوا بھی تجویز فرما دیں۔ انہوں نے اسی وقت نسخہ لکھ کر میرے حوالے کیا اور فرمایا اصل علاج وہی ہے جو میں نے پہلے تجویز کیا ہے تاہم اپنی تسلی کیلئے یہ دنیاوی ادویات بھی تین ماہ باقاعدگی سے استعمال کریں۔میں نے حکم کی تعمیل میں وہ ادویات استعمال کرنا شروع کر دیں اور میں حیران تھا کہ ان میں سے اکثر بہت میٹھی تھیں مگر ایک ہفتہ استعمال ہی کے بعد میری دنیا بدل گئی، میں ہر وقت بلاوجہ خوش رہنے لگا، میں ٹینڈے کھاتا تھا تو مرغ مسلم کا مزا آتا تھا، عنایت حسین بھٹی کو سنتا تھا تو لگتا تھا کہ محمد رفیع کو سن رہا ہوں۔ آئینے میں اپنی شکل دیکھتا تھا تو اپنا صدقہ لازماً اتارتا تھا، مجھے اپنی بیوی بھی کترینہ کیف لگنے لگی تھی۔ مجھے اپنی گفتار سے عشق ہوگیا تھا، چنانچہ محفل میں کسی دوسرے کو اس وقت تک بولنے نہیں دیتا تھا جب تک مجھے ’’میرِ محفل‘‘ یہ نہیں کہتا تھا کہ جاہلوں کی یہ محفل آپ کے شایان شان نہیں، آپ براہِ کرم باہر تشریف لے جائیں۔ پہلے میرے دوست احباب میرے لباس میں ہزار نقص نکالا کرتے تھےاور الزام لگاتے تھے کہ تم لنڈے کے کپڑے پہنتے ہو، دوا کے استعمال کے بعد مجھ سے ان کی بدتمیزی برداشت نہیں ہوتی تھی، چنانچہ میں ان سے قطع تعلق کرلیتا تھا۔ مگر ڈاکٹر کی مسیحائی کا یہ عالم تھا کہ اب وہی دوست مجھے سوٹ میں ملبوس دیکھتے تھے تو کہتے تھے واہ، ماشا اللّٰہ آپ کو بالکل فٹ آیا ہے۔
خیر یہ سلسلہ جاری رہا مگر میں دوا کی اس درجہ اثر آفرینی سے خوفزدہ ہوگیا اور میں نے ہفتے بعد ہی دوا کا استعمال ترک کردیا جس کا بے پناہ منفی اثر سامنے آیا، میں ہمہ وقت اداس رہنے لگا، دکھی گانے سنتا، جنازوں میں شرکت کرتا، جب سیر کو جی چاہتا میانی صاحب قبرستان میں چلا جاتا،ان دنوں مجھ پر شاعری کا بھی دورہ پڑا۔ میں زندگی کی بے ثباتی پر غزلیں کہتا، دوست احباب اپنے کسی عزیز کی وفات پر مجھ سے مرثیہ لکھوانے لگے اور وہ اتنا پراثر اور درد انگیز ہوتا کہ لگتا یہ مرثیہ میں نے اپنی وفات پر لکھا ہے۔ میں اپنی اس کیفیت سے تنگ آگیا۔ اس صورت حال کا کلائمیکس ایک روز یہ سامنے آیا کہ مجھ پر بیٹھے بیٹھے ہو بہو وہی کیفیت طاری ہوگئی جس کے علاج کے لئے میں میوہسپتال کے ڈاکٹر کے پاس گیا تھا۔ بھری محفل میں، میں خود کو اکیلا محسوس کرتا تھا، اگر کوئی رو رہا ہوتاتو مجھے اس کے دکھ کا احساس تک نہ ہوتا۔ میں بالکل گم سم ہوگیا تھا، مجھ پر وہ شعر پوری طرح صادق آنے لگا تھا؎
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
تب میں گھبرا کر مسعود علی خان کے پاس گیا اور کسی روبوٹ کی طرح اپنی کیفیت بتائی۔ یہ بھی بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے میں اسی نوع کی کیفیت کی وجہ سے ایک ماہر نفسیات کے پاس گیا تھا، چونکہ تم بھی نفسیاتی امراض کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہواس لئے تمہارے پاس آیا ہوں، یہ سن کر اس نے میرے لئے ایک بہت میٹھامشروب منگوایا، ابھی میں نے اس کے تین چار گھونٹ ہی لئے تھے کہ میں بھلا چنگا ہوگیا۔ میں نے کہا یار مسعود تم نے یہ کرامت کیسے دکھائی۔ اس نےمجھے کہا ’’تو طائو کا طائو (وہ مجھے عطا کی بجائے طائو کہتا ہے) ہی رہا، جس کیفیت میں تو ڈاکٹر کے پاس گیا تھا تیری شوگر ’’لو‘‘LOWتھی۔ آج بھی تیری شوگر LOW ہوگئی تھی، شربت سے ٹھیک ہوگئی۔ وڈا آیا ماہر نفسیات‘‘۔