پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز لگ بھگ چار برس بعد پاکستان واپس لوٹ رہے ہیں جہاں ان کے خلاف عدالتوں میں مبینہ منی لانڈرنگ کے مقدمات زیر التوا ہیں۔
ان مقدمات میں عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے ماضی میں انھیں ’اشتہاری‘ اور ’مفرور‘ قرار دیا جا چکا ہے۔
سلیمان شہباز نے پاکستان پہنچنے پر اپنے خلاف قائم مقدمات میں ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی یعنی ایف آئی اے کو ہدایت کی تھی انھیں پاکستان آمد پر گرفتار نہ کیا جائے۔ عدالت نے سلیمان شہباز کو عدالت کے سامنے 13 دسمبر تک سرینڈر کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
سلیمان شہباز کی قانونی ٹیم کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر اتوار (11 دسمبر) کے روز سعودی عرب سے اسلام آباد پہنچیں گے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ملزم پہلے عدالت کے سامنے پیش ہو، اس کی غیر موجودگی میں عدالت حفاظتی ضمانت کی تصدیق نہیں کرتی۔
قانونی ماہرین کے مطابق ہائیکورٹ میں اپنی پہلی پیشی پر سلیمان شہباز عدالت کے سامنے سرنڈر کریں گے اور عدالت ان کی درخواست پر ان کو حفاظتی ضمانت دینے کے متعلق فیصلہ کرے گی۔
تاہم ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے بعد سلیمان شہباز کو اپنے خلاف درج مبینہ منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے ٹرائل کورٹس کے سامنے پیش ہونا ہو گا جہاں انھیں مفرور قرار دیا گیا ہے۔
لندن میں ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے سلیمان شہباز نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ ’ان کی غیر موجودگی میں درج کیا گیا اور یہ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں جو سابقہ وفاقی حکومت یعنی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے ایما پر ان کے خلاف بنائے گئے۔‘
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ٹرائل کورٹ میں اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرتے ہوئے وہ یہی موقف اپنائیں گے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا انھیں عدالت سے ریلیف مل سکتا ہے یا پھر انھیں عدالت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ منی لانڈرنگ کے اسی مقدمے میں سلیمان شہباز کے والد وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بھائی حمزہ شہباز کو عدالت پہلے ہی رواں برس اکتوبر کے مہینے میں تمام الزامات سے بری کر چکی ہے۔
سلیمان شہباز کے خلاف الزامات کیا ہیں؟
ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف کرپشن کی روک تھام کے قانون اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
اس مقدمے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ شریف فیملی کے ان افراد نے بے نامی بینک اکاؤنٹس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی تھی۔ اگلے برس دسمبر میں ایف آئی اے نے ملزمان کے خلاف عدالت میں چالان جمع کروائے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق تحقیق کاروں نے 17 ہزار سے زائد کریڈٹ ٹرانزیکشنز یعنی پیسوں کی منتقلی کی منی ٹریل کا جائزہ لیا۔ اس دوران تحقیقاتی ٹیم نے شریف خاندان کے 28 بے نامی اکاونٹس کا پتہ چلایا جن کے ذریعے ایف آئی اے کے مطابق مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کی گئی۔
رپورٹ میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ مبینہ رقم خفیہ اکاونٹس میں رکھی گئی تھی جسے بعد میں ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو دیا گیا۔
انھیں اشتہاری کیوں قرار دیا گیا؟
ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں یہ الزام عائد کیا کہ ’شریف خاندان کے کم تنخواہ دار ملازمین کے اکاؤنٹس سے شہباز شریف کو منتقل کی جانے والی رقم کو ہنڈی کے غیر قانونی کاروبار کے ذریعے ملک سے باہر بھجوایا گیا۔‘
سلیمان شہباز پر الزام تھا کہ شریف خاندان کے باقی افراد کی طرح انھوں نے بھی مبینہ طور پر بے نامی اکاؤنٹس اور خاندان کے کم آمدن ملازمین کے اکاؤنٹس سے رقوم وصول کیں۔
نیب کی ایک احتساب عدالت نے بھی آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے ایک مقدمے میں سلیمان شہباز کو سنہ 2019 میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیا اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
ان کے خلاف الزام تھا کہ وہ مقدمے میں ایک شریک ملزم کے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے جعلی ترسیلِ زر کی مد میں رقوم وصول کرتے رہے تھے۔ ایف آئی اے کے مقدمے میں بھی ایک خصوصی عدالت نے انھیں رواں برس جولائی میں پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیا۔
اب عدالت میں پیش ہونے پر کیا ہو گا؟
وکیل اور قانونی ماہر میاں علی اشفاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسی نوعیت کے مقدمات میں جب ملزم عدالت کے سامنے پیش ہو جاتا ہے تو اس کا اشتہاری یا مفرور ہونے کا درجہ ختم ہو جاتا ہے۔
’جوں ہی ملزم عدالت کے سامنے خود کو سرینڈر کرتا ہے تو اسی وقت اس کا اشتہاری والا درجہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ عدالتی کارروائی کا حصہ بنتا ہے اور زیادہ تر ضمانت کی درخواست کرتا ہے۔‘
قانونی ماہر میاں علی اشفاق کے خیال میں امکان یہی ہے کہ ایف آئی اے کے مقدمے میں خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہونے پر سلیمان شہباز کو عدالت سے ریلیف ملنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
’اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس مقدمے میں مرکزی اور دو شریک ملزمان کو عدالت پہلے ہی بری کر چکی ہے۔ اسی بنا پر سلیمان شہباز بھی عدالت سے ریلیف مانگ سکتے ہیں جو زیادہ تر ایسے مقدمات میں مل جاتا ہے۔‘
خیال رہے کہ رواں برس اکتوبر میں وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کے خلاف ایف آئی اے نے تاحال کوئی اپیل دائر نہیں کی۔
’سیاسی انتقام‘ کا دفاع کتنا مؤثر ہو سکتا ہے؟
ماضی میں دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن اور بدعنوانی وغیرہ کے مقدمات درج کرتی رہی ہیں۔
اس پر ان جماعتوں کی طرف سے اپنے دفاع میں زیادہ تر یہی موقف سامنے آتا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں یا انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ شریف خاندان کے افراد نے بھی اس مقدمے میں یہ موقف اپنایا ہے۔
وکیل اور قانونی ماہر میاں علی اشفاق کہتے ہیں کہ ایسی نوعیت کے مقدمات ہر مرتبہ سیاسی انتقام کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ ’ایسا ہوتا ضرور ہے کہ پولیٹیکلی موٹیویٹڈ (سیاسی بنیادوں پر) کیسز بنائے جاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر ایسا مقدمہ ہی ایسا ہو۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عدالتیں ماضی میں ایسے مقدمات میں ’سیاسی انتقام‘ کا دفاع لینے پر ریلیف دیتی آئی ہیں اس لیے دفاع کے زیادہ تر وکیل ایسی صورتحال میں اس ہی کو دفاع کا مرکزی نقطہ بناتے ہیں۔
میاں علی اشفاق کے خیال میں ایف آئی اے کے مقدمے میں بنیادی طور پر استغاثہ کی طرف سے ناقص اور کمزور بنیادوں پر پیروی مقدمے میں مرکزی ملزمان کی بریت کا سبب بنی۔ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات کو ثابت نہیں کر پائی۔
’اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ بھی استغاثہ کی مشکلات کا سبب بنا‘
قانونی ماہر میاں علی اشفاق سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر ماتحت عدالتیں آسانی سے ملزمان کو ریلیف نہیں دیتیں۔ ’تاہم اس مقدمے میں استغاثہ صحیح طریقے سے پیروی نہیں کر پایا۔‘
یاد رہے کہ مقدمے کی عدالتی کارروائی کےدوران ہی مرکز میں حکومت بدل گئی اور پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی جگہ اتحادی جماعتوں کی حکومت آئی جس میں پاکستان مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت تھی۔
اس مقدمے میں مرکزی ملزم شہباز شریف وزیراعظم بھی بن گئے۔ ایف آئی اے بنیادی طور پر وفاقی حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔
میاں علی اشفاق کے مطابق ’پیروی میں استغاثہ کی مشکلات کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس قانون کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا وہ خود ایک ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے۔‘
’مثال کے طور پر اس قانون کے تحت یہ ثابت کرنے کے لیے کہ منی لانڈرنگ کی گئی ہے پہلے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جس پیسے کو لانڈر کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ ’ڈرٹی منی‘ ہے یعنی غیر قانونی ذرائع سے حاصل کیا گیا۔ ‘
’اگر یہ ثابت نہیں کیا جاتا تو پھر اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اٹریکٹ نہیں ہوتا اور اس طرح استغاثہ کا پورا مقدمہ ہی کمزور پڑ جاتا ہے۔ ‘
کیا سلیمان شہباز مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں؟
ایف آئی اے کے مبینہ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں مرکزی ملزمان تو بری ہو گئے تاہم شریک ملزمان کو تاحال عدالت کے سامنے اپنا دفاع کرنا ہے۔
تاہم قانونی ماہر میاں علی اشفاق سمجھتے ہیں کہ اس مقدمے میں اب شریک ملزمان کے لیے بھی بری ہونا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔
’زیادہ امکان یہی ہے کہ سلیمان شہباز عدالت کے سامنے پیش ہو کر پہلے ضمانت کی درخواست دیں گے اور ساتھ ہی کیس میں بریت کی درخواست بھی دے دیں گے۔ اور اسی بنیاد پر ان کو بھی بریت مل جائے گی کہ مرکزی ملزمان پہلے ہی بری ہو چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی طرف سے مرکزی ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل بھی دائر نہیں کی گئی اور اس میں اچھا خاصا وقت گزر چکا ہے۔ ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایف آئی اے اس مقدمے کی مزید پیروی میں دلچسپی نہیں رکھتی اور اس کا بھی سلیمان شہباز کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘
میاں علی اشفاق کہتے ہیں ان کے خیال میں اس مقدمے میں اتنے شواہد موجود تھے کہ ٹرائل کم از کم مکمل ہو سکتا تھا ’اور پتہ چلتا کہ کیس بنتا ہے یا نہیں بنتا۔‘ تاہم کمزور بنیادوں پر پیروی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پایا۔
بی بی سی نے اس مقدمے میں شریف خاندان اور سلیمان شہباز کی نمائندگی کرنے والے وکیل امجد پرویز سے ان کی رائے لینے کیے لیے رابطہ کیا۔ انھوں نے مصروفیت کی وجہ سے واپس کال کرنے کا کہا تاہم دوبارہ یاد دہانی پر بھی انھوں نے رابطہ نہیں کیا۔