بے حسی جب سفاکی کی صورت اختیار کرتی نظر آئے تو ہر صاحب دل کو گھبرانا چاہیے۔عمران خان صاحب خوش نصیب ہیں۔تعداد کے اعتبار سے انہیں ہماری پارلیمان میں ملک کی تاریخ کی بھاری بھر کم اپوزیشن کا سامنا ہے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے 140کے قریب اراکین مگر معلوم ونامعلوم خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔سینیٹ میں میسر بے پناہ اکثریت کا بھی یہ اپوزیشن کوئی فائدہ نہیں اُٹھاپائی۔سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو خفیہ ووٹنگ کے ذریعہ ان کے منصب سے ہٹانے کی کوشش کی تو اپنی ہی صفوں میں سے 15اراکین کی حمایت سے محروم نظر آئی۔ کئی ہفتے گزرجانے کے باوجود بھی ’’غداروں‘‘ کی نشاندہی نہ کرسکی۔ ان کا ’’حقہ پانی‘‘ بند کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
میڈیا اپنے وجود کو برقراررکھنے کی کاوشوں میں مبتلاہے۔سوشل میڈیا پر ’’ٹک ٹاک‘‘ والوں نے رونق لگارکھی ہے۔سنجیدہ سوالات اٹھانے کی کسی کو فرصت ہی نہیں۔
بے حسی کے اس موسم میں وزیر اعظم پاکستان کی ان ہی کی خواہش پر منعقد ہوئی کوالالمپور کانفرنس میں آخری لمحات میں عدم شرکت کے فیصلے نے سیاسی حوالوں سے ہرگز کوئی ہلچل نہیں مچائی۔ عوام کی اکثریت نے بھی اسے میاں محمد کے بتائے ’’لسے دا کی زور (غریب کی کیا مجال؟)‘‘کو ذہن میںرکھتے ہوئے برداشت کرلیا۔
جن ’’برادرممالک‘‘ نے ہمارے سٹیٹ بینک میں اربوں ڈالر رقوم جمع کرواتے ہوئے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو ’’مناسب‘‘ دکھایا ان کی خواہش کا احترام ضروری تھا۔ان کی بات ماننا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ہمیں ان کی جانب سے تیل کی ایک کثیر مقدار اُدھار پر فراہم کی جارہی ہے۔بہتر یہی تھا کہ عمران خان صاحب نیویارک میں ترکی اور ملائیشیاء کے حکمرانوں سے ملاقاتوں کے دوران اپنے ملک کی ’’محدودات‘‘ کو ذہن میں رکھتے۔ ’’اسلاموفوبیا‘‘کے مقابلے کے لئے ’’اسلامی ٹیلی وژن‘‘ بنانے کا ان ممالک کی مدد سے اعلان نہ کرتے۔ اس ضمن میںاپنا وعدہ وہ نبھانہیں پائے۔ہمیں اس کی وجہ سے وقتی غصہ آیا۔ تھوڑی خفت محسوس ہوئی۔ بعدازاں مگر اپنی روزمرہّ زندگی کے مسائل سے نبردآزما ہونے میں مصروف ہوگئے۔
خود کو ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘ثابت کرنے کو مگر عمران خان صاحب کے دربار میں’’ماہرین ابلاغ‘‘ کا ایک غول موجود ہے۔ وہ ہمہ وقت حکومت کے بارے میں Feel Goodوالی کہانیاں گھڑنے میں مصروف رہتا ہے۔سعودی عرب کے حال ہی میں تعینات ہوئے نئے وزیر خارجہ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے پاکستان کا انتخاب کیا۔ان کا یہ فیصلہ اپنے تئیں سعودی عرب کے لئے پاکستان کی ’’اہمیت‘‘ کو اجاگر کرنے کے لئے کافی تھا۔ہمیں مگر اب بتایا جارہا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ شاید ہمارے ’’زخموں‘‘ پرمرہم رکھنے آئے تھے۔پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ ’’’کوالالمپور کانفرنس‘‘ کی بدولت مسئلہ کشمیر کے بارے میںعالمی دُنیا کو پیغام دینے کا موقعہ ضائع ہوگیا تو فکر کی کوئی بات نہیں۔OICکے تحت 2020کے اپریل میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ایک ’’ہنگامی‘‘ اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا جاسکتا ہے۔’’مسئلہ کشمیر‘‘ اس کانفرنس کا واحدموضوع ہوگا۔
اپریل 2020میں فقط کشمیر کے موضوع پر غور کے لئے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ’’ہنگامی‘‘ اجلاس کی ’’خبر‘‘ نے مجھے خوش کرنے کے بجائے مزیداداس کردیا ہے۔یاد کرنے کو مجبور ہورہا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں ’’ہنگامی‘‘ صورت حال اگست 2019کی پانچ تاریخ کو پیدا ہوگئی تھی۔اس دن سے آج تک 80لاکھ کشمیریوں کو انٹرنیٹ تک رسائی میسر نہیں۔وہاں کی ’’بھارت نواز‘‘ ٹھہرائی سیاسی قیادت سمیت سیاسی اور سول سوسائٹی کے تناظر میں اہم ترین رہ نما ہی نہیں ہزاروں گمنام کارکن بدستور گھروں میں نظر بند ہیں یا انہیں رات کے اندھیرے میں گھروں سے اٹھا کر دہلی اور راجستھان کی جیلوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ 138دن گزرنے کے باوجود ’’اُمہ‘‘ 80لاکھ کشمیریوں پر نازل ہوئے عذاب سے نجات کی کوئی راہ دریافت نہیں کر پائی ہے۔اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ’’ہنگامی‘‘ اجلاس کے لئے مناسب ترین مہینہ ستمبر2019کا کوئی دن ہوسکتا تھا۔ بہتر ہوتا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے ہمارے وزیر اعظم کے خطاب سے قبل عمران حکومت کسی صورت اس اجلاس کا بندوبست کرتی۔وہاں دکھائے ’’مسلم اتحاد‘‘ کے بعد عمران خان صاحب نیویارک میں واویلا مچاتے تو شاید مقبوضہ کشمیر میں قابض افواج دفاعی انداز اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتیں۔
اپریل 2020تک مقبوضہ کشمیرکے تناظر میں انگریزی محاورے والا بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزرچکا ہوگا۔عالمی میڈیا میں بھارت اس وقت بھی شدومدسے زیر بحث ہے۔اس کی بنیادی وجہ مگر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال نہیں ہے۔بھارتی شہریت کے حوالے سے مودی سرکار نے جو نئے قوانین متعارف کروائے ہیں ان کی مزاحمت میں نوجوانوں کی ایک تحریک اُبھری ہے۔دلی اس کا مرکز ہے۔یوپی میں اس تحریک کو دبانے کے لئے BJPکے ’’یوگی‘‘ وزیر اعلیٰ نے اپنی پولیس کو وحشیانہ انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔پولیس کی وردی پہنے اعلیٰ سطحی افسران کیمروں پر ’’پاکستان یا قبرستان‘‘ کے نعرے لگاتے مسلمانوں کے گھروں پربلوائیوں کی صورت حملہ آورہورہے ہیں۔بھارت کئی برسوں سے عالمی میڈیا کے لئے ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کی عملی مثال رہاہے۔ یوپی پولیس نے اس ’’برانڈ‘‘ (Brand)کی حقیقت بے نقاب کردی ہے۔بھارت کے شیکھرگپتا جیسے صحافی بھی اب 1974کو یاد کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
اس برس پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے ذریعے بنگلہ دیش کے قیام کو یقینی بنانے والی اندراگاندھی ’’درگاماں‘‘ کہلائی جارہی تھی۔بھارتی معیشت کا مگر حال بہت پتلا ہوچکا تھا۔’’غریبی ہٹائو‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے اندراگاندھی نے مختلف النوع کاروبار کو ’’قومیاتے‘‘ ہوئے ملک میں ’’سوشلزم‘‘ کے ذریعے خوش حالی پھیلانے کا ڈرامہ رچایا۔بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا اس کی اولین ترجیح تھی۔پرانی دلی کے مسلمان گھرانے جبری نس بندی کا نشانہ بنے۔ ’’درگاماں‘‘ کے ولی عہد کی صورت ابھرتے سنجے گاندھی نے اس مہم کی قیادت سنبھالی۔ اپوزیشن کی بکھری ہوئی جماعتیں مگراندرا کی مخالف میں یکجاہوگئیں۔ اندراکو بالآخر 1975میں ایمرجنسی لگاکر ہنگاموں پر قابو پانے کی کوشش کرنا پڑی۔ان دنوں بھارت کی سیاست پرگہری نگاہ رکھنے والے شدت سے یہ محسوس کررہے ہیں کہ مودی سرکار کے لئے اندراگاندھی والا 1974ء Repeatہورہا ہے۔
اس رائے سے جبلی طورپر اتفاق کرتے ہوئے بھی لیکن میںیہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ عالمی میڈیا میں بھارت کے حوالے سے Main Storyاس وقت کشمیر نہیں بھارتی شہریت کے حوالے سے بھارت کے تمام بڑے شہروں میں پھوٹے مظاہرے ہیں۔اپریل 2020تک پہنچتے ہوئے ان مظاہروں کے نتیجے میں کیا صورتیں نمودار ہوں گی ان کے بارے میں قیاس آرائی سے گریز ہی فی الوقت بہتر ہے۔یہ بات مگر کافی اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اپریل 2020میں ممکنہ طورپر فقط کشمیر کے موضوع پر منعقد ہوا اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس کسی صورت ’’ہنگامی‘ ‘نظر نہیں آئے گا۔ہمیں اس کے انعقاد کی ’’خبر‘‘ دیکر خوش ہونے کو مجبور نہ کیا جائے۔
دریں اثناء ذہن میں خدارا یہ حقیقت بھی رکھیں کہ بالآخر طالبان افغانستان میں ’’عارضی‘‘فائربندی کو آمادہ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ممکنہ فائربندی ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا واضح ٹائم ٹیبل دینے پررضامند کردیگی۔واشنگٹن کا اگرچہ اب بھی یہ اصرار ہے کہ فائربندی کے ایام کے دوران طالبان افغانستان سے جڑے دیگر فریقوں یعنی غنی حکومت سے کسی نوعیت کا سمجھوتہ کریں۔اشرف غنی کو بطور ’’صدر‘‘ طالبان کے کئی مخالفین بھی اب تسلیم نہیں کررہے۔حالات اس ملک میں تیزی سے 1990کی دہائی کی جانب لوٹتے نظر آرہے ہیں۔امریکہ اس دہائی میں افغانستان سے قطعاََ لاتعلق ہوگیا تھاجس کی بدولت وہاں خانہ جنگی شدید تر صورت اختیار کرنا شروع ہوگئی۔ خدانخواستہ افغانستان میں 1990کی دہائی نے خود کو دہرانا شروع کردیا تو اپریل 2020میں اسلامی وزرائے خارجہ اپنے ’’ہنگامی‘‘اجلاس میں کشمیر کے بجائے افغانستان کو زیر بحث لانے پر مجبور ہوجائیں گے۔80لاکھ کشمیری خودکو بدستور لاوارث ہی محسوس کریں گے۔