پاکستان

بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزی کا الزام: سینیٹر اعظم سواتی کا فارم ہاؤس سیل

Share

کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزی پر پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے گرفتار سینیٹر اعظم سواتی کا اسلام آباد کے مری روڈ پر واقع فارم ہاؤس سیل کر دیا۔

اعظم سواتی کو گزشتہ ماہ اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اعظم سواتی 27 نومبر سے ریاستی اداروں کے خلاف دھمکی آمیز ٹوئٹس کی توہین آمیز مہم چلانے کے الزامات کے تحت زیر حراست ہیں۔

گزشتہ ہفتے پولیس انہیں اسلام آباد سے کوئٹہ لے گئی جہاں گزشتہ روز بلوچستان ہائی کورٹ نے ان کے خلاف 5 مقدمات کو خارج کر دیا تھا جس کے چند گھنٹوں بعد ہی انہیں وہاں سے سندھ پولیس نے صوبے میں درج مقدمات کے تحت اپنی تحویل میں لے لیا۔

سی ڈی اے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق فارم ہاؤس 25 مارچ 2014 کو مسز طاہرہ سواتی جو کہ گرفتار پی ٹی آئی رہنما کی اہلیہ ہیں کو منتقل کیا گیا اور اس کا بلڈنگ پلان 7 مئی 2015 کو منظور کیا گیا تھا۔

سی ڈی اے نے کہا کہ عمارت کے منصوبے میں تہہ خانے کی منظوری شامل نہیں تھی، اس حوالے سے انہیں پہلا نوٹس 2016 میں جاری کیا گیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں فارم ہاؤس کے سروے کے بعد پی ٹی آئی سینیٹر کو ریمائنڈر نوٹس بھی جاری کیا گیا۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ منظور شدہ بلڈنگ پلان سے انحراف کیا گیا جب کہ سرونٹ کوارٹر/کچن، آفس بلاک اور ٹریکٹر ٹرالی شیڈ تعمیر نہیں کیے گئے، خلاف ورزیوں کے حوالے سے ریمارکس 29 نومبر 2018 کو الگ سے بتائے گئے۔

سی ڈی اے کا کہنا ہے کہ اعظم سواتی کو 4 نومبر 2022 کو آئی سی ٹی بلڈنگ کنٹرول ریگولیشنز 2020 کے مطابق شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جس میں سات روز کے اندر مناسب وجہ ظاہر کرنے کی ہدایت کی گئی کہ وضاحت کی جائے کہ تعمیرات سے متعلق خلاف ورزیوں کو کیوں دور نہیں کیا گیا اور جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ قوانین کی خلاف ورزی پر عمارت کو سیل کیوں نہ کیا جائے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی سینیٹر کو معاملے سے متعلق حتمی نوٹس 16 نومبر کو جاری کیا گیا جس میں سی ڈی اے نے خبردار کیا کہ اگر سات روز کے اندر خلاف ورزیاں ختم نہ کی گئیں تو وہ فارم ہاؤس کو سیل کردیا جائے گا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے فارم ہاؤس کے معاملے پر عدالت سے 30 نومبر تک حکم امتناعی کے لیے رجوع کیا تھا، اس کے بعد 6 دسمبر، 8 دسمبر اور 9 دسمبر کو سماعت ہوئی اور سول جج ثاقب جواد کی عدالت نے عارضی حکم امتناعی کی درخواست مسترد کردی۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے کہا گیاہے کہ عارضی حکم امتناعی مسترد کر دیا گیا ہے، اس لیے اتھارٹی کی جانب سے خلاف ورزیوں کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور آئی سی ٹی انتظامیہ کی مدد سے ہٹانے کے علاوہ عمارت کو سیل کیا جا سکتا ہے جب تک کہ مالک خود اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری بلڈنگ کنٹرول ریگولیشنز 2020 کی تعمیل کرنے پر آمادہ نہ ہو۔

اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری

خیال رہے کہ 27 نومبر کو اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے۔

سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘

ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔

ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔