یکساں نظام تعلیم
گزشتہ دنوں کے اخبارات نیٹ پر کھول کر پڑھ رہا تھا تو اِن اخبارات میں ایک ہی دن کے اخبار میں دو خبریں تھیں۔ یہ ایک ہی معاملے سے متعلق دو خبریں تھیں اور میں انہیں پڑھ کر باقاعدہ کنفیوژ ہوں۔ دونوں میں سے کون سی خبر درست ہے اور کون سی غلط؟ کون سی سچی اور کون سی جھوٹی؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کس پر اعتبار کروں؟ ایک خبر وزیراعلیٰ پنجاب کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس سے متعلق تھی‘ جس میں سکولوں میں پانچویں کلاس تک کی تعلیم اُردو میں کرنے کی منظوری تھی اور انگریزی کو بطورِ مضمون پڑھانے کی سفارش کا ذکر تھا۔ یہ جناب عثمان بزدار کی کاوش اور محنت کا ثمر ہے کہ اب پنجاب میں سکولوں کا ذریعہ تعلیم اُردو ہوگا اور انگریزی صرف ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جائے گی۔ ویسے تو بطور مضمون بھی اس کی Reputation‘ یعنی شہرت‘ ساکھ یا نیک نامی خاصی داغدار ہے کہ ہمارے انگریزی سے تعلقات ماشاء اللہ خاصے خراب ہیں ‘اسی لیے تو برادرِ محترم انور مسعود صاحب کی غزل کا ایک شعر اسی بارے میں ہے۔ پہلے اس غزل کے دوچار اشعار:؎
مرد ہونی چاہیے‘ خاتون ہونا چاہیے
اب گرائمر کا یہی قانون ہونا چاہیے
رات کو بچے پڑھائی کی اذیت سے بچے
ان کو ٹی وی کا بہت ممنون ہونا چاہیے
نرسری کا داخلہ بھی سرسری مت جانیے
آپ کے بچے کو افلاطون ہونا چاہیے
دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون چاہیے!
دوسری خبر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے حوالے سے تھی کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ ملک میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کر دیا جائے گا۔ یعنی پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک کے بچے اب ایک جیسا نصاب پڑھیں گے۔ میں انہی دونوں خبروں کے باعث کنفیوژ ہوں اور بھلا کیوں نہ ہوں؟پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب عثمان بزدار کا یہ فیصلہ کہ کلاس پنجم تک کا سارا نصاب اُردو میں ہونا چاہیے‘ ان کے ذاتی حوالے سے بہت ہی مناسب فیصلہ ہے۔ بھلا ان سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ انگریزی کیسا واہیات اور فضول مضمون ہے اور انگریز نے اس خطے کے بچوں سے ذاتی دشمنی کی بنیاد پر سکولوں میں مسلط کیا تھا۔ انگریزی کی فیل کرنے کی صلاحیت کا اندازہ ان سے زیادہ اور کون کر سکتا ہے؟ بارتھی کے پرائمری سکول کے بچے اُردو میں پڑھ کر بمشکل پاس ہوتے ہیں اور پھر بقیہ ساری تعلیم میں جہاں جہاں انگریزی کا ٹانکا لگتا ہے رو دھو کر‘ گیٹ تھرو گائیڈز اور درسی ماڈل ٹیسٹ پیپرز ٹائپ امدادی کتب کے طفیل بمشکل پاس ہوتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ بے شمار بجے اسی کمبخت انگریزی کے طفیل فیل ہو کر یا خوفزدہ ہو کر تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ اس میٹنگ سے قبل ایک انگریزی محاورے: Put yourself in someone’s shoes (یعنی خود کو کسی دسرے کی جگہ پر رکھ کر سوچنا) کے مطابق جب عثمان بزدار صاحب نے خود کو پرائمری کے کسی بچے کی جگہ رکھ کر سوچا تو انہیں انگریزی میں سارے نصاب کا سوچ کر ہی پسینہ آ گیا۔ یہ پسینہ آنا بھی صرف محاوراً اور احتراماً لکھا ہے وگرنہ معاملہ اس سے بھی زیادہ خراب تھا۔
سو‘ جناب عثمان بزدار نے پنجاب بھر کے سکولوں میں پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک آئندہ کیلئے ذریعہ تعلیم اور سارا نصاب اردو میں کرنے کی منظوری دے دی ہے (حالانکہ پنجاب کے سرکاری پرائمری سکولوں میں اب بھی ذریعہ تعلیم اور نصاب اُردو میں ہی ہے)۔ اب اگلے سال سے (خبر کے مطابق) پانچویں جماعت تک بچے سوائے انگریزی کے باقی سارے مضامین اُردو میں پڑھیں گے۔ ویسے تو انگریزی مضمون کا بھی کوئی مناسب حل نکالتے ہوئے اسے بھی اُردو میں ٹرانسلیٹ کر لیا جانا چاہیے‘ جیسا کہ ہمارے ایک دوست کے بی خان نے کیا تھا۔ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کرنے کے بعد سرکاری نوکری ملنے سے پہلے موصوف کچھ عرصہ راولپنڈی کے ایک پرائیویٹ گرلز کالج میں انگریزی پڑھاتے رہے‘ اسی دور میں ایک بار میں اور منیر چودھری مری جاتے ہوئے راولپنڈی میں کے بی خان سے ملے تو وہ اپنی انگریزی دانی کی ڈینگیں مارنے لگ گیا۔ اسی دوران وہ کہنے لگا :میں کالج کا سب سے پاپولر انگریزی ٹیچر ہوں‘ میں لڑکیوں کو انگریزی بھی اردو میں پڑھاتا ہوں۔ میرا خیال ہے اس بچ جانے والے واحد انگریزی مضمون میں مزید آسانی پید اکرنے کیلئے کے بی خان کی ماہرانہ اور تجربہ کارانہ مشاورت سے یہ مسئلہ بھی حل کر لیا جائے تو بچوں کو بہت آسانی ہوگی۔دوسری طرف جناب شفقت محمود کا فرمانا ہے کہ پورے ملک میں یکساں نصاب نافذ کر دیاجائے گا۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے‘ نہ کہ وفاقی۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا سارا معاملہ صوبوں کے سپرد ہو چکا ہے اس لیے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وفاقی وزیر کے بیان کی عملی طور پر کیا حیثیت ہے؟ دوسری بات یہ کہ مجھے اس بات پر رتی برابر اعتبار نہیں کہ پاکستان میں پرائمری تک یکساں نصاب نافذ العمل ہو سکتا ہے۔ یہ سارے انگریزی سکول اور ان سکولوں میں بھی دو چار Chains پر مشتمل مافیا کہاں جائے گا؟ یہ مافیا اتنا طاقتور اور خود سر ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے فیسیں کم کرنے کے حکم کو بھی ایک عرصے تک ہوا میں اڑائے رکھا۔ بمشکل اس حکم پر عمل ہوا اور وہ بھی سال بھرکے لیے۔ اگلے سال سکولوں نے دوبارہ اپنی فیس میں اضافہ کر دیا اور اس اضافے میں گزشتہ سال سپریم کورٹ کے حکم پر کم کی جانے والی فیس کو بقایا جات کی مد میں‘وصول کر لیا۔ اب یہ مہنگے سکول جن کی ساری اہمیت ہی اس انگریزی ذریعہ تعلیم کے سرپر ہے ۔یکساں نصاب کا حکم کیسے قبول کریں گے اور اگر ایسا ہو جائے (جو قیامت تک ممکن نہیں‘ تاہم میں صرف فرض کر رہا ہوں) تو انہیں عثمان بزدار صاحب والے اُردو نصاب کے مطابق تعلیم دینے کیلئے کون پاگل پندرہ بیس ہزار روپے ماہانہ فیس دے گا؟
پرائمری تک کے سرکاری سکولوں کی حد تک تو چلیں مان لیتے ہیں کہ وہاں اُردو نصاب لاگو کر دیا جائے گا اور وہاں پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی کتابیں پڑھائی جائیں گی‘ حالانکہ مجھے پنجاب حکومت کی کارکردگی اور صلاحیتوں پر ٹکے کا اعتبار نہیں مگر میں ان کا یہ دعویٰ اس لیے سچ مان رہا ہوں کہ پنجاب کے سرکاری پرائمری سکولوں میں پہلے ہی سارے مضامین اُردو میں پڑھائے جا رہے ہیں‘ اس لیے میں جناب عثمان بزدار کے اس فیصلے پر اعتبار کر رہا ہوں کہ آئندہ سے پنجاب کے سکولوں (سرکاری) میں پانچویں جماعت تک ذریعہ تعلیم اور نصاب اُردو میں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گلی محلے میں کھیلنے والے انگریزی میڈیم سکولوں سے قطع نظر بڑے بڑے نامور انگریزی سکولوں کا کیا بنے گا؟ کیا عثمان بزدار صاحب اپنا اُردو نصاب وہاں لاگو کروا پائیں گے؟ اس کا جواب میرے حساب سے تو صاف صاف ”نہیں‘‘ میں ہے۔ یہ مافیا عثمان بزدار صاحب سے صرف تگڑا نہیں ‘بلکہ بہت زیادہ تگڑا ہے۔ انہوں نے تعلیمی نتائج کے حساب سے سرکاری سکولوں کو بری طرح مات دے دی ہے اور ساری بیورو کریسی اور مقتدر حلقوں کے بچے انہی انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں اوران میں سے کوئی شخص اپنے بچے عثمان بزدار کے اُردو نصاب والے سکولوں میں پڑھانے پر قطعاً تیار نہیں ‘ بلکہ مجھے گمان ہے کہ تونسہ سے لاہور جانے کے بعد خود عثمان بزدار کے بچے اب بارتھی کے پرائمری سکول میں اُردو نصاب والی تعلیم کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے۔
ایک پاکستان کا خواب بڑا خوبصورت ہے‘ لیکن کم از کم عثمان بزدار اور شفقت محمود جیسے لوگ ”ایک پاکستان‘‘ نہیں بنا سکتے کہ خود عثمان بزدار اور شفقت محمود ایک جیسے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کی پیداوار نہیں ہیں۔ اس آدھا تیتر آدھا بٹیر کے چکر میں نہ ہم اپنے ملک میں بہترین تعلیم اور تعلیمی اداروں کا بندوبست کر سکے ہیں اور نہ ہی ہم نے اپنے بچوں کو بیرون ملک اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے کیلئے درکار قابلیت کے معیار کے مطابق رہنے دینا ہے۔ اوپر سے ” ایک پاکستان ‘‘کا کھوکھلا دعویٰ ہماری جان کے در پے ہے۔