پنجاب کی تحصیل چیچہ وطنی کے چک 12/49-ایل میں 5 ہزار سے زائد کی آبادی زہریلے کیمیائی عنصر ’آرسینک‘ اور ٹی ڈی ایس ملا ہوا زیر زمین پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
رپورٹ کے مطابق پانی کے نمونوں کی جانچ میں گاؤں کے پینے کے پانی میں آرسینک اور ٹی ڈی ایس کی سطح ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) کے معیار سے 700 گنا زیادہ پائی گئی۔
آرسینک کی عام حد 10 مائیکرو گرام فی لیٹر اور ٹی ڈی ایس کی حد 50 سے 150 پی پی ایم (پارٹس فی ملین) کے لگ بھگ ہونی چاہیے لیکن گاؤں کے پینے کے پانی میں آرسینک 50 سے 200 مائیکروگرام فی لیٹر اور ٹی ڈی ایس 699 سے 2 ہزار 230 پی پی ایم پایا گیا ہے۔
پینے کے پانی کے ذریعے یہ ’سلو پوائزننگ‘ انتہائی خطرناک اور غیر محفوظ ہے جو کہ فصلوں اور مویشیوں سمیت انسانی استعمال کے لیے بھی نامناسب ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق آرسینک کے استعمال کے سبب پیدا ہونے والی فوری علامات میں الٹی، پیٹ میں درد اور اسہال شامل ہیں جس کے بعد بےہوشی، جھنجھلاہٹ، پٹھوں میں درد اور شدید صورتوں میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
پینے کے پانی یا کھانے کے ذریعے آرسینک کے زائد استعمال سے ابتائی اثرات جِلد میں دیکھے جاتے ہیں جن میں رنگت کی تبدیلیاں، جلد کے زخم اور ہتھیلیوں اور تلووں پر سخت دھبے شامل ہیں۔
یہ اثرات تقریباً 5 برس تک آرسینک کے استعمال کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور جِلد کے کینسر کا سبب ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ یہ مثانے اور پھیپھڑوں کے کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ کے مطابق آرسینک کے طویل مدتی استعمال سے پیدا ہونے والے دیگر مضر صحت اثرات میں ذیابیطس سمیت پھیپھڑوں اور دل کے امراض بھی شامل ہیں، خاص طور پر آرسینک سے متاثرہ ’مایوکارڈیل انفیکشن‘ اس سے ہونے والی زیادہ تر اموات کی ایک اہم وجہ ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق آرسینک کا تعلق حمل کی پیچیدگیوں اور بچوں کی اموات کے ساتھ بھی ہے جو بچوں کی صحت پر اثرات مرتب کرتا ہے، بچہ دانی اور کم عمری میں اس کے اثرات بالغ عمری میں اموات کی صورت نظر آتے ہیں جس کی وجہ کینسر کی مختلف شکلیں، پھیپھڑوں کی بیماری، دل کا دورہ اور گردے کی خرابی ہوتی ہے۔
محکمہ صحت کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ چک 49/12-ایل میں 250 سے زائد مریض مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ گاؤں کے قریب ایسا کوئی صنعتی فضلہ یا صنعتی مرکز نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ ہو، مثلاً قصور شہر میں چمڑے کی انڈسٹری کے فضلے کی وجہ سے زیر زمین پانی میں آرسینک کی سطح زیادہ ہے۔
یہ معاملہ اتفاقاً اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک مقامی ماہرِ امراض جلد کے پاس جلد کے کینسر کی علامات میں مبتلا مریض آیا، انہوں نے مریض کو ہدایت کی کہ وہ اپنے پینے کے پانی کا ٹیسٹ کرائیں۔
مریض نے پانی کے نمونے مقامی پبلک ہیلتھ انجینئرنگ واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری کو بھیجے اور اس کے نتائج نے مقامی انتظامیہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
جوڈیشل واٹر اینڈ انوائرنمنٹ کمیشن لاہور کے حکام نے صورتحال کا نوٹس لیا اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، ضلع کونسل، زراعت، سوائل اینڈ واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری اور اے ڈی سی (ر) سمیت متعدد محکمے اس صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔
پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ (پی ایچ ای ڈی) نے ہینڈ پمپوں اور ٹیوب ویلوں سے 9 نمونے اکٹھے کیے اور 7 نمونے انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں پائے گئے، حتٰی کہ فلٹریشن پلانٹ کے اردگرد موجود واٹر پمپس کا پانی بھی انسانی استعمال کے لیے نامناسب پایا گیا۔
مذکورہ گاؤں میں ایک نمایاں آر او فلٹریشن پلانٹ موجود ہے لیکن یہ طویل عرصے سے غیر فعال تھا کیونکہ گاؤں والے خراب ذائقے کے سبب اس کا پانی استعمال نہیں کرتے تھے، تاہم معاملہ سامنے آنے کے بعد فلٹریشن پلانٹ کو دوبارہ فعال کردیا گیا۔
کئی گاؤں والوں نے اپنے مویشیوں کی اچانک موت اور فالج کا شکار ہونے کی شکایت کی، بہت سے کسانوں کو خدشہ ہے کہ یہ مسئلہ ٹیوب ویلوں اور واٹر پمپوں سے جانوروں کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی وجہ سے ہوا ہے۔
ڈپٹی کمشنر امتیاز کھچی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے زیر زمین پانی میں آرسینک اور ٹی ڈی ایس کی زیادہ مقدار کو قدرتی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ کسی انسانی مداخلت کی وجہ سے نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گاؤں کی زمین سے 120 سے 200 فٹ نیچے موجود پانی میں آرسینک اور ٹی ڈی ایس کی مقدار زیادہ نہیں ہے، آپ جتنا گہرائی میں جائیں گے آپ کو آرسینک اور ٹی ڈی ایس کی مقدار کم ملے گی۔
ضلع میں موجود ذرائع سے معلوم ہوا کہ انتظامیہ اور صحت کے حکام نے متعدد طریقوں سے کام شروع کر دیا ہے، اس حوالے سے خواتین ہیلتھ ورکرز گاؤں میں آگاہی مہم بھی چلا رہی ہیں۔
گاؤں والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ٹیوب ویل یا ہینڈ پمپ سے پانی نہ پیئیں بلکہ گاؤں میں حال ہی میں نصب کیے گئے آر او فلٹریشن پلانٹ سے پانی پیئیں۔
پلانٹ کو اب بحال کر دیا گیا ہے اور یہ گاؤں کے مکینوں کو 2 ہزار لیٹر پانی فراہم کر رہا ہے۔
سینیٹری انسپکٹر شاہد مسعود گاؤں کی خواتین ہیلتھ ورکرز، لمبرداروں اور دیگر بااثر افراد کے ہمراہ گاؤں والوں کو آر او فلٹریشن پلانٹ کے سوا مقامی ذرائع سے پانی نہ پینےکی ترغیب دے رہے ہیں۔
ڈی ڈی (زرعی ایکسٹینشن) نے بتایا کہ گاؤں میں زراعت کا شعبہ اس مسئلے سے محفوظ ہے کیونکہ فصلوں کو عموماً نہری پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جس میں آرسینک کے اجزا نہیں ہوتے۔
ڈپٹی کمشنر امتیاز کھچی نے کہا کہ طویل مدتی حل کے لیے ضلعی انتظامیہ پانی کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔