Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستان میں ڈالر کی عدم دستیابی: کیا اسحاق ڈار کا ڈالر ریٹ کو قابو کرنے کا دعویٰ صرف سیاسی نعرہ تھا؟

Share

درآمدی کنسائمنٹ کی کلیئرنس میں مشکلات کے باعث ایک دواساز کمپنی کے مالک قیصر وحید کے گذشتہ چند ہفتے بہت مشکل سے گزرے ہیں۔

وہ اس کنسائنمنٹ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’یہ اینٹی بائیوٹک دوا کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال تھا جو بندرگاہ پر پندرہ سے بیس دن تک پڑا رہا اور اس کی کلیئرنس نہیں ہو رہی تھی۔‘

’اس درآمدی مال کی ایل سی تو کھل چکی تھی تاہم اس ایل سی کی ادائیگی کے لیے بینک کی جانب سے ڈالر فراہم نہیں کیے جا رہے تھے۔ بیرون ملک اس خام مال کا فروخت کنندہ بار بار اپنی رقم مانگ رہا تھا۔ میں نے اس خام مال کی رقم بینک میں جمع کرا دی تھی اور اب بینک کو اس رقم کو ڈالروں کی صورت میں بیرون ملک بھجوانا تھا تاہم بینک کی جانب سے یہ ڈالر نہیں بھیجے جا رہے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی وجہ سے اس خام مال کی کلیئرنس بھی نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے اس سلسلے میں بھاگ دوڑ شروع کر دی تاکہ کسی صورت میں کلیئرنس کروا سکوں۔‘

’ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کو جو زیادہ تر سالٹ کی شکل میں ہوتا ہے، محفوظ رکھنے کے لیے مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے قرنطینہ کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ خراب نہ ہو تاہم پندرہ سے بیس دن کے بعد میں ڈالر بیرون ملک بھجوانے میں کامیاب ہوا اور اس کے بعد میرے مال کی کلیئرنس ہوئی تاہم اس عرصے میں کچھ مال بھی خراب ہوا اور مجھے ڈیمج چارجز بھی دینے پڑے۔‘

قیصر وحید ان مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت ڈالر کا حصول بہت مشکل ہو چکا ہے اور زیادہ تر بینک ڈالر دینے کو تیار ہی نہیں۔‘

یہ صرف فارماسیوٹیکل کے شعبے میں قیصر وحید کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ پیاز، ادرک و لہسن کے چار سے زائد کنٹینرز کافی دن تک کلیئرنس کے منتظر رہے کیونکہ ان کے لیے کھولی گئی ایل سی کی بینکوں کی جانب سے ڈالر کی صورت میں بیرون ملک ادائیگی نہیں ہو رہی تھی۔

فروٹ اور سبزیوں کے تاجروں کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے وزارتِ تجارت کو خط لکھنے کے بعد حکومت کی جانب سے ان کی کلیئرنس ہو سکی۔

خوردنی تیل کے شعبے میں کام کرنے والے شیخ عمر ریحان کے مطابق اگرچہ خوردنی تیل کے درآمدی کارگو کی ایل سی کی ادائیگی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے تاکہ ملک میں اس کی قلت پیدا نہ ہو تاہم اس کے باوجود ان کی کلیئرنس میں تاخیر ہو رہی ہے۔

اسی طرح  خام تیل کے لیے جب ایک مقامی ریفائنری نے بیرون ملک اپنا ٹینکر بھیجا تو بینک کی جانب سے آدھے ٹینکر کی ایل سی کھولی گئی۔ ریفائنری کو ٹینکر کا کرایہ پورا دینا پڑا تاہم خام تیل آدھے ٹینکر کا ملا کیونکہ بینک کی جانب سے پورے ٹینکر کی ایل سی نہیں کھولی گئی تھی۔

پاکستان میں درآمدی کارگو کے لیے ایل سی نہ کھولنے یا ان کی ادائیگی میں تاخیر کے یہ چند واقعات اس طویل سلسلے کی ایک کڑی ہیں جس میں ڈالروں کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں درآمدی کارگوز کی کلیئرنس نہیں ہو رہی۔

پاکستان میں ڈالر، اس کی قیمت اور اس کی دستیابی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ڈالر کی قیمت کو قابو رکھنے کے دعویدار تھے اس صورتحال میں ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ ایک جانب ڈالر کا سرکاری نرخ 224 سے 225 تک پہنچ چکا ہے تو دوسری جانب جب درآمد کنندگان ڈالر کے لیے بینکوں سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں ڈالر فراہم نہیں کیے جاتے جبکہ گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 240 روپے سے اوپر جا چکی ہے۔

پاکستان میں اس وقت ڈالر کی کمی اور درآمدی کارگو کی کلیئرنس کے لیے ڈالر دستیاب نہیں۔ ملک میں ڈالر کی آمد کے ذرائع سکڑتے جا رہے ہیں اور بیرونی قرضے کی ادائیگی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر چار سال کی نچلی سطح پر آ چکے ہیں۔ 

ڈالر ریٹ پر اسحاق ڈار کا کیا دعویٰ تھا؟

موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جب مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنے تو ڈالر کے ریٹ میں اضافہ دیکھا گیا اور 29 جولائی 2022 کو روپے کے مقابلے میں ڈالر انٹر بینک میں 240 تک چلا گیا تھا، جس پر مفتاح اسماعیل تنقید کا نشانہ بنے تو اس کے بعد اسحاق ڈار کی ملک واپسی کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔

ستمبر کے آخر میں وفاقی وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے اسحاق ڈار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنی ترجیحات بیان کی تھیں، جس میں مقامی کرنسی کو مستحکم کرنا بھی شامل تھا۔

پاکستان واپسی اور وزیر خزانہ بننے کے بعد اسحاق ڈار نے اکتوبر کے مہینے میں دعویٰ کیا کہ وہ ڈالر کی قیمت کو 200 روپے سے نیچے لے آئیں گے۔

اسحاق ڈار کی جانب سے کیے جانے والے اس دعوے کے دو مہینے گزرنے کے بعد ڈالر کی قیمت 200 روپے سے نیچے نہیں آ سکی بلکہ اس وقت ڈالر کی قیمت 224 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 230 سے اوپر تک جا چکی ہے۔

تاہم اس سے زیادہ بڑامسئلہ ڈالر کی عدم دستیابی کا ہے جس کی وجہ سے ملک کا درآمدی مال جس میں تیل، خوردنی تیل، ادویات، برآمدی شعبے کا خام مال، مشینری و پلانٹس اور دوسرے شعبوں کے لیے منگوائے جانے والے درآمدی کارگو بینکوں کی جانب سے ایل سی کے لیے ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔

اسحاق ڈار کے گذشتہ دور وزارت میں ڈالر قابو میں کیسے رہا؟

اسحاق ڈار نے اپنے گذشتہ دورِ وزارت میں ڈالر کو ایک مخصوص سطح پر رکھا، جسے ان کے سیاسی مخالفین اور غیر جانبدار ماہرین معیشت کی جانب سے مصنوعی طریقے سے ڈالر ریٹ کنٹرول کرنے کا طریقہ کار قرار دیا گیا۔

معاشی امور کے ماہر صحافی خرم حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ یہ تو نہیں کہیں گے کہ اسحاق ڈار نے ڈالر ریٹ کو ’مینوپلیٹ‘ کیا تاہم انھوں نے اسے گذشتہ دور میں ’مینیج‘ لازمی کیا اور وہ اسے تسلیم کر چکے ہیں۔‘

ماہر معیشت اور سٹی بینک سے منسلک سابق بینکر یوسف نذر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات غلط ہے کہ اسحاق ڈار نے گذشتہ دور وزارت میں ڈالر کو قابو کیا، ان کی خوش قسمتی تھی کہ اس دور میں عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں کریش کر گئیں تھیں اور اس کا فائدہ پاکستان کو تیل کی خریداری پر کم ڈالر خرچ کرنے کی صورت میں ہوا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ اس وقت آئی ایم ایف کا رویہ بھی نرم تھا جس کا فائدہ پاکستان کو ہوا اور ملک میں ڈالر کا ریٹ نہیں بڑھا۔‘

اب ڈالر کا ریٹ نیچے کیوں نہیں آ رہا؟

خرم حسین نے اس سلسلے میں کہا کہ ’ڈالر کے ریٹ کے نہ گرنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ اتنا نہیں کہ وہ ڈالر کے ریٹ کو نیچے لا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر اسحاق ڈار نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں ڈالر کو ’مینج‘ کیا تو اس کی وجہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا ہونا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ڈالر ریٹ کم ہونے کا ایک ہی حل ہے کہ ملک میں ڈالر آئیں جو اس وقت کہیں سے نہیں آ رہے۔‘

’اب سعودی عرب سے یہ ڈالر آتے ہیں یا چین یا آئی ایم ایف سے، اس کا انحصار ان ملکوں اور ادارے کی جانب سے ڈالر کی فراہمی پر ہے۔‘

انھوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے کے قریب ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’بانڈز کی ادائیگی ایک چیز ہے جو پاکستان نے گذشتہ دنوں کی جبکہ فارن ٹریڈ کے لیے ڈالر کی ضرورت ایک الگ چیز ہے اور درآمدی کارگو کے لیے ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ بیلنس آف پیمنٹ کا بحران ہے جو ملک میں ڈالر کی کمی وجہ سے ہے۔‘

واضح رہے کہ اس وقت سٹیٹ بینک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے پاس 6.7 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر ہیں جبکہ ملک میں مجموعی طور پر 12.6 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔

پاکستان کو اس مالی سال میں 30 ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔ دریں اثنا، ملک میں ڈالر لانے والے تین اہم ذریعے برآمدات، ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری گذشتہ چند مہینوں میں منفی گروتھ ریکارڈ کر رہے ہیں۔

ڈالر ریٹ کم کرنے کا دعویٰ کیا سیاسی نعرہ تھا؟

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو نیچے لانے کے دعویٰ کے بارے میں ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ ’یہ ایک سیاسی نعرہ تھا جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ تھا۔‘

یوسف نذر نے اس سلسلے میں کہا کہ ’جب اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ وہ ڈالر ریٹ کو نیچے لے آئیں گے تو اس وقت وہ اپنی پاکستان واپسی چاہتے تھے اور اپنی پرانی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب اسحاق ڈار کو حالات کا ادراک نہیں تھا تو پھر انھوں نے کیوں وزارت خزانہ سنبھالی۔‘

اس بارے میں خرم حسین کہتے ہیں کہ ڈالر ریٹ کم کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کے لیے سب سے پہلے ڈالرز حاصل کرنا ہوں گے اور پاکستان کو آئی ایم ایف کے راستے پر چلنا ہو گا تاکہ پاکستان کے لیے بیرونی فنڈنگ کے دروازے کھل سکیں۔‘

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس صورتحال پر تبصرہ نہیں کریں گے اور اپنا موقف ٹوئٹر پر بیان کرتے رہتے ہیں۔

دوسری جانب اسحاق ڈار سے مؤقف لینے کے لیے ان کے موبائل فون پر رابطہ کیا گیا اور پیغام بھی چھوڑا گیا۔

اس کے ساتھ وزارت خزانہ میں رابطہ کر کے ان کا مؤقف جاننے کی بھی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے بھی کوئی جوابی رابطہ نہیں کیا گیا۔

ڈالر کی عدم دستیابی معیشت کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟

ملک میں ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے درآمدی کارگو کی کلیئرنس رکی ہوئی ہے یا تاخیر کا شکار ہو رہی ہے جس کی وجہ سے صنعتی شعبے کو خام مال کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔

اس بارے میں خرم حسین نے کہا ’یہ صورتحال یقینی طور پر ملک کی جی ڈی پی گروتھ کو منفی طور پر متاثر کرے گی اور اس کا نمبر نیچے آ سکتا ہے۔‘

یوسف نذر نے کہا کہ ’جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس میں ڈالر کا ریٹ 250 سے 300 تک جا سکتا ہے، جو معیشت کے لیے بہت بڑا دھچکہ ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کا سب سے منفی اثر عام آدمی پر پڑے گا جو مزید مہنگائی سہنے پر مجبور ہو گا۔‘

یوسف نذر نے یہ بھی کہا کہ ’ایسی صورتحال میں معیشت کا پہیہ مزید سست ہو گا اور صنعتی شعبے میں سرگرمیوں میں سست روی کی وجہ سے ملازمین کی چھانٹی ہو سکتی ہے جو بیروزگاری کو بڑھائے گی۔‘

’بہت ساری ملٹی نیشنل کمپنیاں تو اس وقت ملازمین کو فارغ کرنے اور کچھ پاکستان سے نکلنے کا بھی سوچ رہی ہیں کیونکہ ایک تو ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں تو ان کے منافع کو ڈالروں کی صورت میں باہر لے جانا بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔‘

Exit mobile version