جون 1959 کا بھوبل مہینہ تھا۔ یوں تو بکرمی مہینہ اساڑھ آسمان سے برستی آگ، لو کے تند خو تھپیڑوں اور بگولوں کا استعارہ ہوتا ہے مگر چھ دہائیاں پہلے یہ مہینہ منقسم پنجاب کی سرحد کی دونوں طرف آباد زخم زخم روحوں کے لئے ٹھنڈک کا پیغام لایا تھا۔ تقسیم کو بارہ برس گزر چکے تھے، لکیر کے دونوں طرف ابھی لہو رنگ یادوں سے دکھ رَس رہا تھا۔ ایسے میں امرتسر سے لاہور آنے والے کہانی کار اور ہدایت کار سیف الدین سیف کی فلم ’کرتار سنگھ‘ ریلیز ہوئی تھی۔ وارث لدھیانوی اور امرتا پریتم کی شاعری کے پس منظر میں علا ئوالدین کی بے ساختہ ادائیگی اور مسرت نذیر کی لچکدار شاخ ایسی اداکاری میں ایسا جادو تھا جس نے نفرت کے سلگتے انگاروں پر ویسا ہی اثر کیا جیسا ٹھیک چار برس بعد فرانسیسی گلوکارہ Monique Andrée Serf AKA Barbara نے اپنے معروف عالم گیت Göttingen کے ذریعے فرانس اور جرمنی میں معاہدہ دوستی کو انسانی جذبوں کا رنگ دیا تھا۔ دسمبر 2011میں دوستی کے اس معاہدے کی چالیسویں سالگرہ پر جرمن چانسلر گرہارڈ شروڈر (Gerhard Schroder) نے اس گیت کو کسی بھی سیاسی تقریر سے زیادہ پراثر قرار دیا تھا۔
’کرتار سنگھ‘ کی فنی خوبیوں سے قطع نظر اس فلم کی بنیادی خوبی اس تمثیل کی تھیم تھی یعنی رواداری، انسانی محبت اور تفرقے کی دیواروں سے اوپر اٹھتی ہوئی رشتوں کی سرسبز بیلیں۔ ہم نے ابھی ایک لفظ استعمال کیا ’تھیم‘۔ تھیم ایسا بنیادی خیال ہوتا ہے جو کسی فن پارے کو کائناتی انسانی تجربے سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ سیاست ہو، فن ہو یا سادھارن انسانوں کی روزمرہ زندگی، انسانی سعی کی ایک تھیم ضرور ہوتی ہے۔ یہ تھیم وجود کو معنی بخشتی ہے اور اس بنیادی خیال سے محرومی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو رائیگانی میں بدل دیتی ہے۔ اب دو نکات دیکھئے۔ جون 1959 سے ٹھیک پانچ برس پہلے جولائی میں پاکستان کی فلمی صنعت نے بھارتی فلم ’جال‘ کی پاکستان میں درآمد پر پابندی کے لئے ایک تحریک چلائی تھی۔ حب الوطنی کی اس مہین چادر میں دراصل کاروباری مفادات چھپے تھے۔ چھ برس بعد ستمبر 65 ء کی جنگ نے دونوں ملکوں میں فلمی تبادلے کا راستہ ہی روک دیا۔ تب بھارت کے سماجی اور معاشی حالات مختلف تھے۔ وہاں فلمی صنعت پھلتی پھولتی رہی۔ بڑی منڈی سے محروم ہو جانے والی پاکستانی فلم کاروباری حجم ہی میں کمزور نہیں ہوئی، بامعنی تھیم سے بھی بے نیاز ہو گئی۔
جولائی 77 ء کی رات اتری تو ہماری فلم محبت، رقص، سیاسی نصب العین، تاریخی شعور اور سماجی تنقید جیسے بنیادی اجزا سے محروم ہو گئی۔ کرتار سنگھ کا بنیادی خیال اگرمحبت تھا تو 1979 میں بننے والی فلم مولاجٹ کا بنیادی خیال تشدد تھا۔ تشدد دفاع کا چولا پہن لے یا غیرت کا عنوان اپنا لے، تشدد کی نفسیات دلیل کی نفی ہے۔ 1979 میں بننے والی فلم مولاجٹ بے حد کامیاب ہوئی کیونکہ ملک پر تشدد کا بیانیہ مسلط کر دیا گیا تھا۔ آگ اور خون کے کھیل کو غیرت کا نام دیا جا چکا تھا۔ آج 2022 ء میں’ لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنی ہے جسے اطلاعات کے مطابق بے حد پذیرائی ملی ہے۔ کیوں نہ ہو، ہم نے چالیس برس تک اس ملک میں تشدد، تفرقے اور نفرت کی آبیاری کی ہے۔ محبت کا بنیادی خیال راندۂ درگاہ قرار پایا ہے۔ معاشرے سے محبت کے تار و پود خارج کر دیے جائیں تو تخریب اور رائیگانی بنیادی جذبات قرار پاتے ہیں۔ مجھے پاکستانی یا ہندی فلموں میں چنداں دلچسپی نہیں مگر یہ جانتا ہوں کہ پچھلی چار دہائیوں میں ہم نے مغربی سرحد پر آگ اور لہو کا کھیل کھیلا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کو لسانی بنیاد پر مقتل گاہ بنا ڈالا۔ وفاق کی ایک اکائی کو گویا دشمن قرار دے ڈالا۔ فرقوں کے نام پر جنون کو ہوا دی۔ نصاب تعلیم سے رواداری کو خارج کر کے اختلاف کے بیج بوئے۔ پھر اس میں کیا تعجب کہ نفرت اور رائیگانی کی بے معنی چنگھاڑوں کے پس منظر میں قتل و غارت اور کٹے پھٹے انسانی بدن ہمارے لئے پرکشش بن چکے ہیں۔
ایک صاحبِ خبر صحافی نے خبر دی ہے کہ حال ہی میں رُخصت ہونے والے ایک صاحبِ اختیار کو چھ ہزار پاکستانی جانوں کے اتلاف میں قوم کی نجات کا نسخہ دکھائی دیتا تھا۔ ہم ایسے بے خبروں کو تو یہ اطلاع فروری 2018 میں مل گئی تھی۔ فہم سے خالی اختیار کے ایک نیم جرائم پیشہ بغل بچے نے تو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر پانچ ہزار پھانسیوں کی نوید دی تھی۔ اس ٹولے کی ایک دستی کٹھ پتلی شمال کے ہمسایہ ملک سے چار سو افراد کے خون ناحق کی خوش خبری لایا کرتی تھی۔ خلیج عرب کے ایک ملک میں صحافیوں کے بے روک ٹوک قتل کی تعریف کیا کرتی تھی۔ کندھوں پر جڑواں پتیل کے نشانات اور کلائیوں پر سرکاری توشہ خانے سے ملنے والے گھڑیوں سے مزین اس ٹولے نے شاید ونسٹن چرچل کا یہ قول نہیں پڑھا تھا، The grass soon grows over a battlefield but never over a scaffold ۔ اب خبریں نکل رہی ہیں کہ اقتدار کی سنگین دیواروں کے پیچھے بار بار ’مارشل لا‘ کا امکان سر اٹھاتا تھا۔ 1977 اور 1980 میں مارشل لاکی دو ناکام کوششیں کرنے والے میجر جنرل تجمل حسین ملک نے اپنی کتاب The story of my Struggle میں کھلے عالم مارشل لاکی وکالت کی ہے۔ اب صحافی حامد میر بھی حالیہ نومبر کے حوالے سے ایسی ہی خبریں افشا کر رہے ہیں۔ مارشل لا سے بڑی رائیگانی کیا ہو سکتی ہے؟ ہم نے ایک تہائی صدی اس لاقانونیت کے ابر سیاہ میں بسر کر رکھی ہے۔ اب خبر ہے کہ کچھ صاحبان فکر نے باہم مشاورت سے آئین کی بالادستی اور سیاست سے لاتعلقی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ خبر اچھی ہے مگر ہم افتادگان خاک کے لئے اس وقائع نگاری پر یقین کرنے یا زلزلہ بتانے والی سوئی کی طرح لرزتے رہنے کے سوا چارہ نہیں۔ ہمارے شاعر ضیا جالندھری نے کہا تھا،
وہی لب تشنگی اپنی، وہی ترغیب سراب
دشت معلوم کی ہم آخری حد چھو آئے