موبائل فون بنانے والی کمپنی موٹورولا نے اپنے نئے ’ریزر‘ موبائل فون کے اجرا میں تاخیر کا اعلان کیا ہے۔ ریزر سنہ 2005 میں متعارف کروائے جانے والے فلپ فون کا جدید ورژن ہے جس کی سکرین فولڈ ہو سکتی ہے۔
ابتدائی پلان کے تحت یہ فولڈنگ فون امریکہ میں 26 دسمبر سے فروخت کے لیے دستیاب ہونا تھا اور اس کی قیمت 1500 امریکی ڈالرز کے لگ بھگ تھی، مگر اب یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔
لینوو نامی کمپنی کا کہنا ہے تاخیر کی بڑی وجہ ریزر کی مقبولیت ہے اور مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی نئے موبائل کی طلب اس کی رسد سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
تاہم یہ فولڈنگ فون کے مارکیٹ میں دستیاب ہونے کے ابتدائی مراحل میں ہی درپیش مشکلات کی ایک واضح مثال ہے۔
موٹورولا کمپنی کا کہنا ہے کہ نئے موبائل کی لانچ میں تاخیر ‘بہت زیادہ’ نہیں ہو گی تاہم کمپنی نے نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔
بی بی سی کے کرس فاکس نے ریزر کی ‘پروٹوٹائپ’ (ابتدائی نمونہ) کو استعمال کرنے کے بعد اس کے ہارڈویئر میں چند مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس ماڈل کو ایک موبائل سے زیادہ فیشن کے طور پر زیادہ اپنایا جائے گا۔
اگرچہ 1500 ڈالر کی ابتدائی قیمت تھوڑی زیادہ لگتی ہے تاہم یہ قیمت مارکیٹ میں پہلے سے موجود دو بڑے فولڈنگ فونز سام سنگ فولڈ (قیمت 1980 ڈالرز) اور ہواوے میٹ ایکس (2600 ڈالر) سے پھر بھی کم ہے۔
سام سنگ نے اپنے فولڈنگ فون کی رواں برس اپریل میں ہونے والی لانچنگ کو اس وقت منسوخ کر دیا تھا جب تجزیہ کاروں نے آگاہ کیا کہ ٹرائل کے دوران ان کی ڈیوائس کی سکرین ٹوٹ گئی تھی۔
ہواوئے ایکس نے بھی بعد ازاں اسی طرح کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ سام سنگ میں پیش آنے والے مسائل کے بعد ہواوئے نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے میٹ ایکس ماڈل کو مارکیٹ میں لانے سے قبل مزید تجربات کریں گے۔
تاہم کچھ تاخیر کے بعد دونوں ماڈل مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب کر دیے گئے تھے۔ سام سنگ فولڈ رواں برس ستمبر جبکہ میٹ ایکس نومبر میں مارکیٹ میں دستیاب تھا۔
فولڈنگ فونز کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ سمارٹ فونز کی مارکیٹ کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
کیلیفورنیا میں قائم ایک چھوٹی سے کمپنی رائل کارپوریشن نے مارکیٹ کی ان دونوں بڑی کمپنیوں کو اس وقت پریشان کر دیا تھا جب انھوں نے اکتوبر 2018 میں بیجنگ میں منعقد ہوئے ایک پروگرام میں اپنے فولڈنگ فون ‘فلیکسپائی’ کی تقریب رونمائی کی۔
یہ فون کبھی بھی بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے حوالے سے زیادہ مضبوط ریویوز موجود ہیں۔
بی بی سی کلک کے ڈان سیمنز نے جنوری 2019 میں اس کے ڈیویلپر ورژن کو استعمال کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک ایسی ایپس دستیاب نہیں تھیں جو فولڈنگ سکرین کے تبدیل ہوتی پوزیشن کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں۔
تجزیہ
زوئی کلینمین، ٹیکنالوجی رپورٹر
کسی ایونٹ میں رکھی گئی پروٹوٹائپ کاپی یا آفس میں موجود تجرباتی ہینڈ سیٹ کے علاوہ میں نے فولڈنگ فون ابھی تک گلی یا سڑک پر کسی کے ہاتھ میں نہیں دیکھا۔
کیا سنہ 2020 میں یہ منظر بدلنے کو تیار ہے؟
سی سی ایس انسائیٹ کے تجزیہ کار بین وڈ اس حوالے سے کافی پرامید ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فولڈنگ فونز کے اگرچہ اپنے ہی مسائل ہیں کیونکہ وہ اپنے سے پہلے مارکیٹ میں آنے والے فونز سے کافی حد تک نازک ہیں تاہم ریزر کی مارکیٹ میں طلب اور اس سے قبل آنے والے سام سنگ فولڈ کی ابتدائی سیلز کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صارفین ان میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
بین وڈ نے مجھے بتایا کہ ’مجھے یقین ہے کہ فلیکسیبل ڈسپلے ٹیکنالوجی کے اثرات نہ صرف سمارٹ فونز بلکہ بڑے پیمانے پر ہوں گے۔‘
’اگلی ایک دہائی میں یہ صارفین کے الیکٹرانکس آلات میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا جس کی مدد سے ہر طرح کی مصنوعات میں سکرینیں شامل کی جا سکیں گی۔ وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہم ایسے سمارٹ سپیکر دیکھ پائیں گے جن کی سکرینز ان کے گرد لپٹی ہوں گی۔‘
بین وڈ کا خیال ہے کہ اگلے برس ہم فولڈنگ آلات کی ایک نئی لاٹ دیکھ پائیں گے۔
جب میں آئندہ برس لاس ویگاس میں سی ای ایس میں موجود ہوں گا تو یقیناً میں اس پر نظر رکھوں گا۔
اور ہم میں سے ان لوگوں کے لیے جنھیں موٹورولا کے نئے آنے والے فولڈنگ فون کی قیمت کچھ زیادہ لگ رہی ہے ان کے لیے ایک خبر اور بھی ہے۔
رواں ماہ ایسکوبار انک نامی ایک کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سمارٹ فونز کی مارکیٹ میں جلد ہی قدم رکھیں گے اور ان کے منصوبے کے مطابق وہ جلد ہی ایک فولڈنگ فون مارکیم میں متعارف کروائیں گے جس کی قیمت فقط 349 ڈالرز ہو گی۔
ایسکوبار کمپنی کی بنیاد کولمبیا کے بدنام زمانہ منشیات فروش پابلو ایسکوبار کے بھائی نے رکھی ہے۔
ٹیکنالوجی ویب سائٹس پر بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسکوبار فولڈ ون کا ڈیزائن اور سپیک رائل فلیکسپائی سے ملتے جلتے ہیں۔
یہ فولڈنگ فون فی الحال صرف کمپنی کی اپنی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
تاہم مجھے نہیں لگتا کہ فی الحال سام سنگ کو اس سے فرق پڑ رہا ہو گا۔