منتخب تحریریں

سید مودودی،ؒ چند کھٹی میٹھی اور مسکراتی یادیں

Share

(پہلی قسط)

میں زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے بہت متاثر تھا۔ کرتوتیں میری اپنی تھیں، ووٹ جمعیت کا ہوتا تھا۔اس زمانے میں جماعت اور جمعیت کے جن رہنمائوں سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق قائم ہوا، ان میںسے حافظ محمد ادریس، لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ سے ابھی تک برادرانہ مراسم قائم ہیں۔ 1970ءمیں امریکہ جانے کے لئے یورپ تک بائی روڈ سفر کے لئے سرمایہ اکٹھا کرنا شروع کیا تو اپنی 50CC ننھی منی سی موٹر سائیکل برادرم صفدر چوہدری مرحوم کے ہاتھ فروخت کی جن کا جواں سالہ بیٹا کشمیر میں جہاد کے دوران انڈین آرمی کے ہاتھوں شہید ہوگیا تھا۔ صفدر چوہدری لاجواب انسان تھے، بہت محبت کرنے والے اور مولانا کے لئے ہر وقت سراپا خدمت! یہ 1969 کا واقعہ ہے جب میں طالب علم تھا، جماعت اسلامی کا سالانہ جلسہ تھا، ایوب خان کا دور تھا اور نواب آف کالا باغ گورنر کے عہدے پر فائز تھا، حکومت نے جماعت کے مجوزہ گرائونڈ میں جلسے کی اجازت نہ دی بلکہ بھاٹی گیٹ کے ایک ویران بلکہ جہاں پورے علاقے کا گند پھینکا جاتا تھا، جلسے کے لئے وہ جگہ الاٹ کی۔ میں اپنے دوست سعید کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچا جسے جماعت کے کارکنوں نے ملبہ اٹھا کر صاف کر دیا تھا۔ ایک ظلم یہ کیا گیا کہ لائوڈ اسپیکر کی اجازت نہ دی گئی۔ میں جب جلسہ گاہ میں داخل ہو رہا تھا تو بیس تیس لفنگے قسم کے دھوتی پوش بلاوجہ شور مچاتے ہوئے جلسہ گاہ سے باہر بھاگتے نظر آئے، وہ کچھ دور تک جاتے مگر جب دیکھتے کہ ان کے پیچھے جلسے کے سامعین میں سے کوئی بھی خوفزدہ ہو کر کہ اللّٰہ جانے کیا ہوگیا ہے ان کے پیچھے نہ آتا تو وہ واپس ہو جاتے اور اس کے بعد پھر وہی حرکت دہراتے مگر جلسہ کے سامعین پورے سکون سے اپنی فرشی نشستوں پر بیٹھے رہتے۔

اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ کچھ بدمعاش چاقو سے عورتوں کے خیموں کی رسیاں کاٹ رہے ہیں، میں نے پاس کھڑے ایک تھانیدار سے غصے میں کہا’’ تم ان کو روک نہیں سکتے، کھڑے تماشا دیکھ رہے ہو‘‘۔ جس پر تھانیدار نے بہت پیار سے پچکارتے ہوئے کہا ’’نہ کرو یار، نہ کرو‘‘ جلسے میں چونکہ لائوڈاسپیکر کی اجازت نہیں تھی چنانچہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جماعت کے لوگ کھڑے مکبر کے فرائض انجام دے رہے تھے، وہ مولانا کی تقریر آگے سے آگے پھیلاتے رہے۔ اس روز مولانا مودودیؒ کو میں نے پہلی مرتبہ دیکھا۔ ایک خوبصورت باوقار، وجیہہ انسان جس کی تقریر کے الفاظ دلوں میں اترتے چلے جاتے تھے۔ میں مولانا کی دلآویز شخصیت اور ان کی تقریر کے سحر میں گم تھا کہ ایک طرف سے گولی چلنے کی آواز آئی، مولانا کے قریب موجود لوگوں نے مولانا سے کہا ’’آپ ان کا نشانہ ہیں، آپ بیٹھ جائیں‘‘، جس پر مولانا نے کہا ’’میں اگر آج بیٹھ گیا تو کل کوئی کھڑا نہ ہوگا‘‘ اس دوران حاضرین میں سے کچھ لوگ گولی کا نشانہ بنے ہوئے اللّٰہ بخش شہید کو باہر لے جاتے دیکھے گئے۔ میں اس روز جماعت اسلامی سےبہت متاثر ہوا۔ جلسے میں گولی چلتی ہے، ایک کارکن شہید ہوگیا، اس کی میت کچھ لوگ اٹھا کر لے جا رہے ہیں مگر ہزاروں کے اس مجمع میں ایک شخص بھی اپنی نشست سے نہیں اٹھا، مولانا کی تقریر بھی جاری ہے۔ایسا منظر اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھااور یہ منظر آج بھی میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔

اس واقعہ کے بعد میں نے مولانا کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا۔ کیا خوبصورت نثر، کیا مدلل انداز، کیا غیر جذباتی نثر، میں مولانا سے متاثر ہوتا چلا گیا۔ اس دوران میں نے مولانا کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ پڑھی، جس میں خلافت کو ملوکیت میں ڈھلنے کی مرحلہ وار تاریخ بیان کی گئی تھی۔ اس کتاب پر قدیم علماء نے شدید اختلافات کا اظہار کیابلکہ ایک طبقے کی طرف سے تو مولانا پر کفرکا فتویٰ بھی صادر کردیا گیا مگر پھر یہ شورشرابا آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گیا۔انہی دنوں میں نے مولانا کی ایک اور کتاب پڑھی جو اسلامی نظام معیشت کے حوالے سے تھی۔ اس میں سرمایہ داری اور کمیونزم دونوں معاشی نظریوں کا محاسبہ کیا گیا تھا اور نتیجہ یہ نکالا گیا کہ اسلامی نظام معیشت ہی انسان کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ میں اس کتاب سے متاثر نہ ہوا کیونکہ مولانا کے محاکمے کتابی نوعیت کے تھے، زمینی حقائق اس کے منافی تھے، مجھے سرمایہ دار اور کمیونسٹ ملکوں کے نظام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ بہت معذرت کے ساتھ مولانا ان نظاموں کی خوبیوں اور خامیوں تک رسائی نہ پا سکے۔ ان کی باتیں ایک حد تک ٹھیک تھیں، مگر مجھ’’چشم دید گواہ‘‘ کو پوری طرح متاثر نہ کرسکیں۔میں اسلامی نظام معیشت کے حوالے سے بھی نہ پہلے مطمئن تھا اور نہ اب مطمئن ہوں ۔ اسلام میں چند ابتدائی اصول بیان کئے گئے ہیں، مربوط اسلامی نظام معیشت نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ (جاری ہے)