برطانیہ کے علاقے لنکاشائر میں انوکھا تجربہ: کیا پورے شہر کی صحت بہتر کی جا سکتی ہے؟
آپ پورے شہر کی صحت کیسے بہتر کر سکتے ہیں؟ اسی سوال کا سامنا لنکاشائر میں واقع فلیٹ ووڈ نامی علاقے کو تھا۔ فلیٹ ووڈ ایک بندرگاہ ہے جو ماضی میں ماہی گیری کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں بیماریوں نے انسانوں کو آن گھیرا تھا اور لوگ کم عمری میں ہلاک ہو رہے تھے۔
لہذا سنہ 2016 میں ایک مقامی ڈاکٹر نے حالات بدلنے کی کوشش کی اور لوگوں کو ان کی صحت سے متعلق خیال رکھنے میں مدد فراہم کرنے کی کوشش شروع کی۔
تب سے یہاں ’صحت مند فلیٹ وڈ‘ کے نام سے ایک قدم اٹھایا گیا جس میں وقت اور پیشرفت کے ساتھ بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔
اس کام میں ابتدائی جوش و جذبہ کی جگہ جلد ہی اس احساس نے لے لی کہ لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت میں دیرپا بہتری لانا کتنا بڑا کام ہو سکتا ہے۔ لیکن اب کچھ ایسے آثار ہیں کہ چیزیں بہتر طور پر بدل سکتی ہیں۔
فلیٹ ووڈ کو کیا چیز بیمار کر رہی تھی؟
فلیٹ ووڈ بلیک پول کے شمال میں فیلڈ جزیرہ نما کے اختتام پر ایک ایسا چھوٹا سا قصبہ ہے جو کبھی خوشحال علاقہ ہوتا تھا۔
کوئینز ٹیرس پر واقع عظیم الشان عمارتیں جو خلیج مورکیمبے سے نظر آتی ہیں اور نارتھ یسٹن ہوٹل کی عمارت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کبھی پیسے کی ریل پیل تھی۔
لیکن اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار یہاں کی ماہی گیری کی صنعت پر تھا اور جب وہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں زوال کا شکار ہوئی تو اس کا اثر مقامی معیشت پر بھی پڑا۔
معیشت کو ایک بڑا دھچکا 90 کی دہائی کے آخر میں اس وقت لگا جب یہاں کیمکل بنانے والے کمپنی آئی سی آئی کا ایک کارخانہ بند کر دیا گیا۔
اس شہر میں بے روزگاری، غربت، مواقعوں کی کمی اور خراب صحت کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے۔
اور یہ بات یقینی ہے کہ فلیٹ وڈ کی آبادی میں کینسر، دل اور پھیپھڑوں کے امراض کی شرح بڑھ گئی تھی۔
یہاں شراب اور منشیات کے عادی افراد میں اضافے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی صحت کے مسائل میں بھی بڑے پیمانے میں اضافہ ہوا تھا۔
ڈاکٹر مارک سپنسر کا کہنا ہے کہ ’میں نے محسوس کیا کہ شہر ماہی گیری کے صنعت ختم ہونے کے صدمے سے گزر رہا تھا اور یہ ایسا تھا کہ جیسے کسی خاندان میں کوئی مر گیا ہو۔‘
’اور اس سوگ کے عمل میں نقصان کا احساس، نا امیدی اور بے بسی کا احساس جس سے ہر کوئی گزرا شاید 40 برس تک جاری رہا۔‘
ڈاکٹر سپینسر جانتے تھے کہ ان کے مریض ملک کے دیگر زیادہ مالدار علاقوں کے مقابلے میں زیادہ بیمار اور کم عمری میں مر رہے تھے۔
فلیٹ وڈ کے باسیوں کی اوسط عمر قریبی دیہات اور قصبوں کی نسبت کئی برس کم تھی۔
اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔
خرابی صحت کے بحران کا حل
سنہ 2016 کے موسم بہار تک ڈاکٹر سپنسر بہت کچھ دیکھ چکے تھے۔
وہ اس بات سے تنگ آ چکے تھے کہ وہ مریضوں کی مرہم پٹی کریں اور چند ہفتوں بعد وہ مریض دوبارہ ان کے پاس مرہم پٹی کے لیے واپس آ جائیں۔
ان کے خیال میں فلیٹ وڈ کے صحت کے مسائل کو حل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ اسے وہاں سے پکڑا جائے جہاں یہ شروع ہوا تھا۔ اور وہ تھا کہ یہاں کے رہائشیوں کو یہ بتانا کافی نہیں تھا کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ انھیں اپنی صحت سے متعلق معاملات پر قابو پانے اور ایسا کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں بہتری لانے میں مدد دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کے ضرورت ہے۔
یہ رہائشوں کے لیے تھا کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنی صحت کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں اور اس ضمن میں کیا ان پر اثر کرے گا اور کیا نہیں۔
یہ اسی اقدام کی کنجی تھی جس کوصحت مند فلیٹ وڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسی تحریک جس نے لوگوں کو خود کو بااختیار بنانے اور ان کی صحت کی دیکھ بھال کے بارے میں مثبت فیصلے کرنے کا موقع فراہم کیا۔
اس کا آغاز سنہ 2016 کے موسم گرما میں مقامی افراد کی ملاقاتوں سے ہوا جس میں شہر میں پہلے سے موجود مختلف گروہوں جن میں مقامی فٹ بال کلب، فلیٹ وڈ کے رہائشیوں کی انجمنیں، باغبانی کلب، کھیلوں کے گروپس کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جنھوں نے نشے کی لت کو شکست دینے کی کوشش کرنے والوں کی مدد کی تھی۔
اس سے قبل صحت مند فلیٹ وڈ پروگرام کے تحت ایک مصوری کے ذریعے علاج کرنے والا گروہ، یوگا کلاسز اور ایک گلوکاروں کا پروگرام تھا جس میں لوگ بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے۔
پالین کینیڈی باقاعدگی سے گلوکاروں کے اس پروگرام میں شرکت کرتی تھیں۔
انھیں پھیھڑوں کی بیماری تھی اور انھیں گلوکاری کا مشورہ دیا گیا تھا تاکہ ان کی بیماری کی علامات میں کمی میں کچھ مدد ملے۔
لیکن وہ اس سے پہلے ہی صحت مند فلیٹ وڈ پروگرام میں شامل تھیں۔ جب انھیں یہ احساس ہوا کہ انھیں اپنی زندگی میں کچھ تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا موٹاپا بیماری کی حد تک تھا۔ مجھے متعدد طبی مسائل کا سامنا تھا جو میرے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ میں 60 برس کی ہو گئی تھی اور مجھے ہر وقت دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔‘
’اور ایمانداری کی بات ہے کہ میں مرنے کے لیے تیار تھی۔ میں نے صرف یہ سوچا کہ یہ بس ایسا ہی ہے کہ میں صرف اس دن تک زندہ ہوں جب تک کہ میرا جنازہ نہیں اٹھایا جاتا۔‘
’لیکن جتنا میں نے زیادہ جانا شروع کیا اتنا ہی سوچنا شروع کیا کہ اگر آپ کسی میٹنگ میں ہیں جو کسی بھی صحت مند چیز پر ہے اور آپ اس کمرے میں سب سے موٹے فرد ہیں تو یہ صدمہ کی بات ہے۔‘
’میں گھر گئی اور بہت روئی۔ میں نے سوچا اور مجھے احساس ہوا کہ اب وقت آ گیا تھا کہ میں نے کچھ کرنا ہے اور میں نے اپنی صحت کی ذمہ داری قبول کر لی۔‘
پالین نے اب بہت وزن کم کر لیا ہے۔ انھوں نے اپنے اعتماد کو دوبارہ بحال کیا ہے اور وہ بہت سے مسائل سے باہر آ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں کہتی ہوں کہ صحت مند فلیٹ وڈ پروگرام نے میری زندگی بدل دی ہے لیکن اس کے برعکس اس پروگرام نے مجھے میری زندگی بدلنے میں بااختیار بنایا ہے اور میں ہمیشہ اس کے لیے شکر گزار رہوں گی۔‘
دوائیوں کا متبادل
پالین جیسے افراد کی مدد کرنے والی حکمت عملی میں سے سب سے اہم وہی ہے جسے ’سماجی نسخے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سپنسر اپنے مریضوں کو خاص طور پر ان کی ذہنی صحت کی بحالی کے لیے دوائیاں دے دے کر تنگ آ چکے تھے۔
انھیں اس کے متبادل ایک ایسی سرگرمی کی تلاش تھی جو اعتماد کو بڑھانے، اضطراب کو کم کرنے اور لوگوں کی زندگیوں کو ایک مقصد دینے میں مددگار ہو۔
تاکہ دواؤں کے بجائے مریضوں کو یہ احساس ہو کہ انھیں مقامی جم میں جانے یا مقامی باغبانی میں مشغول ہونا چاہیے۔ اسی طرح کرس آئر نے خود کو جمعرات کی صبح ایک باکسنگ کلاس میں پنچنگ بیگ کو مکے مارتے پایا۔
یہ کلاس کرس کی طرح نشے کی عادت سے لڑنے والے افراد کے لیے قائم کی گئی تھی جنھیں ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد اپنی زندگی کا ازسر نو آغاز کرنا پڑا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں اپنے گھر میں قید ہو کر رہ گیا تھا، ہروقت بہت زیادہ شراب نوشی اور تمباکو نوشی کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرتا۔ اور بس سارا دن ٹی وی دیکھتا رہتا۔‘
ایک خوفناک واقعے میں جب ان کے بلڈ پریشر میں اچانک بے ترتیبی کی وجہ سے ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا، تو انھیں بلیک پول وکٹوریا ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں لایا گیا۔
کرس خوش قسمت تھے کیونکہ شراب نوشی کی لت چھڑانے میں ماہر نرس سے ان کی بات چیت نے ان کی زندگی تبدیل کرنے میں مدد کی تھی۔ اب وہ باکسنگ کرتے ہیں اور پرہیز کرنے والے گروہوں کا حصہ ہیں۔
کرس کہتے ہیں کہ اگر وہ اپنی زندگی میں تبدیلیاں نہ کرتے تو وہ ’شائد دوبارہ بلند فشار خون کے باعث ہسپتال میں ہوتے اور بار بار ہسپتال داخل ہوتے یہاں تک کہ یہ ان کی جان لے لیتا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’تمام سرگرمیاں جو میں اب کر رہا ہوں، انھوں نے میری زندگی کو بہتر بنا دیا ہے۔ شاید میرے خوابوں جتنا تو نہیں لیکن اتنے مثبت انداز میں کہ میں اب وہاں واپس نہیں جانا چاہتا جہاں میں پہلے تھا۔‘
’میں اب اپنی زندگی سے خوش ہوں اور یہ جیسی ہے۔‘
کیا یہ کارآمد ثابت ہوا؟
یہ اب بھی ابتدائی ایام ہیں۔ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو پوری برادری کی صحت کو تبدیل کرنا جہاں خراب صحت نے گہری جڑیں جما لی ہوں اس میں بہتری لانا نسلوں کا کام ہے۔
لیکن حوصلہ افزا علامات موجود ہیں کہ چیزیں بہتری کی جانب گامزن ہونی شروع ہوئی ہیں۔
مثال کے طور پر کرس کی طرح بلیک پول ہسپتال کے شعبہ حادثات اور ایمرجنسی میں جانے والے فلیٹ ووڈ رہائشیوں کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔ اس تعداد میں ایک برس میں 11.5 فیصد کمی ہوئی ہے۔
اور ایمرجنسی میں ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی 9.4 فیصد کمی آئی ہے۔ فلیٹ ووڈ میں کیا جانے والا تجربہ ملک بھر کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔
آخرکار ایسے کئی سارے علاقے ہیں جنھیں لنکاشائر شہر کی طرح ہی مسائل کا سامنا ہے۔
کنگز فنڈ ہیلتھ چیریٹی کی ایک سینئر پالیسی مشیر اینا چارلس کا کہنا ہے کہ ’چونکہ لوگ بہت زیادہ پیچیدہ بیماریوں کے ساتھ طویل عرصہ تک زندہ رہتے ہیں، اس لیے ہم صرف لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دوائیں اور زیادہ سے زیادہ معائنے کی تاریخ نہیں دیتے رہ سکتے۔‘
’ہمارے پاس نہ اتنی رقم موجود ہے اور نہ ہی اتنا عملہ، لہٰذا ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے تلاش کرنا ایک مشکل کام تھا ورنہ نیشنل ہیلتھ سروسز ختم ہو جاتا۔‘
پورے شہر کی صحت کو بدلنا آسان کام نہیں ہے اور ابھی بھی اس میں کافی عرصہ درکار ہے۔
لیکن جو کچھ فلیٹ ووڈ میں ہو رہا ہے وہ برطانیہ کے اُن دیگر علاقوں کے لیے ایک مثال ہے جو اسی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔