ہیڈلائن

متنازع ٹوئٹس کیس میں گرفتار اعظم سواتی سندھ سے اسلام آباد منتقل

Share

سندھ کے پراسیکیوٹر جنرل فیض ایچ شاہ نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ سینئر فوجی حکام سے متعلق متنازع ٹوئٹس پر 27 نومبر سے گرفتار پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔

مسلح افواج کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے، بغاوت پر اکسانے کے مقدمات میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سینیٹر اعظم سواتی کو 27 نومبر کو اسلام آباد میں ان کے فارم ہاؤس سے گرفتار کیا تھا۔

بعد ازاں افواج پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز اور متنازع بیانات پر اعظم سواتی کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں بھی متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے۔

انہیں 2 دسمبر کو اسلام آباد سے بلوچستان پولیس نے تحویل میں لے لیا تھا اور اس کے ایک ہفتے بعد سندھ پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

رواں ہفتے سندھ ہائی کورٹ نے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ان کی مزید مقدمات میں گرفتاری روک دی تھی، ان میں مٹھی، نواب شاہ، حیدرآباد اور کراچی میں درج مقدمات شامل تھے۔

عدالت عالیہ نے یہ ہدایات پی ٹی آئی سینیٹر کے صاحبزادے عثمان سواتی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے دوران جاری کی تھیں، جبکہ درخواست میں پی ٹی آئی رہنما کے خلاف الزامات کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا اور جسٹس ارشد حسین خان پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے آج درخواست کی سماعت کی۔

پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے بینچ کو بتایا کہ اعظم سواتی کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے اور سندھ میں ان کے خلاف درج تمام مقدمات کو ’سی کلاس‘ قرار دے کر ناقابل گرفتاری جرم کے کیس کے طور پر نمٹایا جارہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’سی کلاس‘ قرار دیے جانے کے بعد تمام ایف آئی آرز اب غیر مؤثر ہو جائیں گی۔

پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے مزید کہا کہ مقدمات عام شہریوں کی شکایات پر درج کیے گئے اور حکام قانون کے مطابق ان کے بیانات ریکارڈ کرنے کے پابند ہیں۔

درخواست پر مختصر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اعظم سواتی کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گئے ہیں، اسی نوعیت کے مقدمات اسلام آباد میں بھی درج کیے گیے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک واقعے کی کئی ایف آئی آرز درج کرنے سے روک رکھا ہے، ہم نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور آئی جی سندھ سے پوچھا کہ کیا سندھ اور اسلام آباد میں درج مقدمات کی نوعیت مختلف ہے، آئی جی سندھ اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ سندھ اور اسلام آباد کے مقدمات ایک ہی نوعیت کے ہیں۔

عدالتی حکم کے مطابق کہ آئی جی سندھ نے بتایا کہ اعظم سواتی کے خلاف درج مقدمات کی نوعیت کی تمام ایف آئی آرز سی کلاس کردی گئی ہیں، درخواست گزار کے وکیل نے آئی جی سندھ کے اس بیان پر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ عدالت نے عثمان سواتی کی جانب سے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔

ادھر پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم جہاں جاتے ہیں لوگ ہم سے افسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، ہمیں امید ہے ہمیں ضرور انصاف ملے گا اور اگلے وزیر اعظم پھر عمران خان ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی سندھ کو پھرتیوں کا ایوارڈ ملنا چاہیے، اسی طرح غریب کی آواز پر بھی کاش ایف آئی آرز کٹیں، سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے اور جب تک زرداری سے جان نہیں چھوٹے گی ایسا ہی رہے گا۔

اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری

27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے سابق وفاقی وزیر کے خلاف پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔