تعلیمی حلقوں میں گزشتہ کئی ہفتوں سے یہ خبریں زیر گردش ہیں کہ وفاقی حکومت، ہائیر ایجوکیشن کمیشن آ ف پاکستان کے قانون میں ترمیم کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اہم اختیارات کا حامل ایک خود مختار ادارہ ہے۔ اس کے چیئرمین کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ماہر ین تعلیم خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ نئی قانون سازی کے بعد کمیشن کی خود مختاری متاثر ہو گی۔ اس ادارے کے بہت سے اختیارات سلب ہو جائیں گے۔ کمیشن چیئر مین کی حیثیت محض ایک سرکاری ملازم کے برابر رہ جائے گی۔چند دن پہلے مجھے مجوزہ ترامیم سے متعلق ایک مسودہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس مسودے میں موجود نکات پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ اگر یہ ترامیم منظور ہو جاتی ہیں تو اس سے یقینا کمیشن کے اختیارات میں کمی واقع ہو گی۔ایچ۔ ای۔ سی کی اہمیت کا اندازہ لگائیے کہ اعلیٰ تعلیم سے متعلق پالیسی سازی اور ملک بھر کی جامعات کی نگرانی کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ تمام تر مشکلات و مسائل کے باوجود اس ادارے نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں اہم حصہ ڈالا ہے۔گزشتہ حکومت میں یہ ادارہ بہت سی مشکلات کا شکار رہا۔ اس کے فنڈز میں اچھی خاصی کٹوتی کر دی گئی۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے لامحالہ جامعات کی مشکلات میں اضافہ ہو ا۔ اس وقت کے چیئرمین ایچ۔ای۔سی ڈاکٹر طارق بنوری اس بات پر شکوہ کناں رہے کہ انہیں وزیر اعظم ہاوس کی طرف سے سیاسی دباو اور مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس قضیے کی وجہ سے ڈاکٹر بنوری کی مدت ملازمت کم کر کے انہیں عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس سیاسی کھیل تماشے سے کمیشن کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کا اثر ملک کی جامعات اور اعلیٰ تعلیم پر پڑا۔ دنیا بھر میں اس ادارے اور ہمارے نظام تعلیم کی جگ ہنسائی ہوئی۔
امید تھی کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی موجودگی میں اس ادارے کو استحکام نصیب ہو گا۔ فنڈز کی کمی کو دور کیا جائے گا۔ مگر ا ب سنتے ہیں کہ وفاقی حکومت اس ادارے کے پر کترنے کی فکر میں ہے۔ لازم ہے کہ اس معاملے پر غور کیا جائے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے لازم ہے کہ اپنے قومی اداروں کو کمزرور کرنے کے بجائے، ان کو مستحکم کیا جائے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن مضبوط ہو گا تو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں مدد ملے گی۔ کمیشن کو کمزور کرنے کا مطلب ہے نظام تعلیم کو کمزور کرنا۔ کمیشن کی خود مختاری، جامعات کی خود مختاری کی ضامن ہے۔ کمیشن کی بے اختیاری کا مطلب، وائس چانسلروں اور جامعات کی بے اختیاری ہے۔ اس حساس معا ملے کا اعلیٰ ترین سطح سے نوٹس لیا جانا چاہیے۔نجی اور سرکاری جامعات میں اس ضمن میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ چند دن پہلے ریکٹر کانفرنس میں بھی اس قصے کی گونج سنائی دی۔ اس کانفرنس کا اہتمام ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ یونیورسٹیز آف پاکستان (APSUP) نے کیا تھا۔ کانفرنس میں نظام تعلیم کی اصلاح احوال، اعلیٰ تعلیم کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر کھل کر بات کی گئی۔ ایچ۔ای۔سی کے اختیارات میں کمی کا معاملہ خاص طور پر زیر بحث آیا۔ ا س موقع پر ایپسیپ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں فرق صرف اور صرف ان کی یونیورسٹیز کی وجہ سے ہے۔آج کل جنگیں بھی اکانومی کی بنیاد پر لڑی جاتی ہیں۔ ہمیں نالج اکانومی کے محاذ پر انڈیا کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایچ۔ ای۔سی کے ایکٹ میں پیش کی گئی حالیہ ترامیم اس ادارے کی تباہی کی ایک کوشش کے مترادف ہے۔ اس ترمیم کے حوالے سے اسٹیک ہولڈروں سے مشاورت نہیں کی گئی۔ بند کمروں میں کی جانے والی ترامیم کبھی اس ادارے کی بھلائی نہیں کر سکتیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے بھی اپنی تقریر میں وفاقی اور صوبائی کمیشنوں کی خود مختاری اور مضبوطی کی اہمیت بیان کی۔ پنجاب ایچ۔ ای۔سی کے اختیارات میں ہونے والی کمی کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس صوبائی کمیشن کو طاقت دو۔ نہیں تو بند کر دو۔ کانفرنس میں پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ایکٹ میں ترمیم کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی صورت یہ ترمیم برداشت نہیں کریں گے۔ڈاکٹر شاہد منیر کا کہنا تھا کہ پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن مشکلات کا شکار ہے۔ فنڈز کی کمی ہے مگر اس کے باوجود ہم نجی جامعات اور پبلک سیکٹر کالجز کو فنڈنگ کرتے ہیں۔
اس کانفرنس کے مہمان خصوصی سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی صاحب تھے۔ ڈاکٹر عبدلرحمن صاحب نے ان سے استدعا کی کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایچ۔ ای۔ سی کی خود مختاری کو سلب کرنے کی کوشش کا معاملہ اعلیٰ ترین سطح پر اٹھائیں۔ حکومتی حلقوں تک یہ بات پہنچائیں کہ ملک بھر کی جامعات کے وائس چانسلر صاحبان، اساتذہ اور طلبہ میں اس ضمن میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے ڈاکٹر عبدالرحمن، ڈاکٹر مختار احمد، ڈاکٹر شاہد منیر اور وائس چانسلر صاحبان کے خیالات کی تائید کی۔ انہوں نے بجا طور پر فرمایا کہ کہ تعلیم سیاست نہیں ہے۔ اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ سینیٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن جیسے ادارے بہت محنت سے بنتے ہیں۔ اگر کمیشن سے اختیارات چھین لئے گئے تو سب بے کار ہو جائے گا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ریکٹرز کانفرنس میں جو تجاویز پیش کی گئی ہیں، ان پر غور کیا جائے گا۔انہوں نے وعدہ کیا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لئے وہ کمیشن اور جامعات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عرفان صدیقی صاحب ایک ماہر تعلیم بھی ہیں۔ انہوں نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم دیوالیہ ہو رہے ہیں، ہمارے پڑوسی ممالک کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟۔ امید ہے کہ سینیٹر صاحب یہ معاملہ اعلیٰ ترین سطح تک پہنچائیں گے اور کمیشن کی خود مختاری کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں گے۔
شعبہ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ایک اہم خبر یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے سپیرئیر یونیورسٹی کی ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سمیرا رحمان کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان میں پنجاب کا نمائندہ مقرر کر دیا ہے۔ ان کی تقرری پر وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر سمیرانے اعلیٰ تعلیم اور انٹرپرینیور شپ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حکومت پنجاب نے ان کی خدمات کے پیش نظر ان کے تقرر کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر سمیرا رحمن معروف ماہر تعلیم ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ طالب علموں میں نوکری لینے کے بجائے، نوکری دینے کا آئیڈیا پروموٹ کیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وفاقی کمیشن میں وہ صوبہ پنجاب اور اس کی جامعات کی بھرپور نمائندگی کرینگی۔سرکاری اور نجی جامعات کے مسائل کمیشن تک پہنچانے اور انہیں حل کروانے میں اہم حصہ ڈالیں گی۔