کالم

ایمسٹرڈیم کا ایک یادگارسفر

Share

کہتے ہیں زندگی ایک سفر ہے لیکن میں نے سفر میں زندگی پائی ہے۔پچھلے کئی مہینے سے میں کسی ملک کا سفر ہی نہیں کر پایا۔جس کی ایک وجہ کام کی مصروفیت اور موڈ کا منتشر ہونا تھا۔تاہم میرے عزیز محمد حسن جن کا بنیادی طور پر تو تعلق بنگلہ دیش سے ہے لیکن پچھلے چندبرسوں سے ایمسٹرڈیم میں رہائش پزیر ہیں۔ محمد حسن صاحب ایک اچھے ادیب اور شاعر ہیں۔ گاہے بگاہے ان سے بات ہوتی رہتی ہے اور انہوں نے اصرار کیا کہ کیوں نہ ہم چند روز کے لئے ان سے ملنے ایمسٹرڈیم آجائیں۔

میں بھی محمد حسن صاحب سے ملنے چند دنوں کے لئے چھٹّی گزارنے کی غرض سے(Amsterdam) ایمسٹرڈیم چلا گیا۔محمد حسن صاحب کا مکان ایمسٹرڈیم کے نیو ویسٹ علاقے کے خیوزین پھیلد میں ہے جہاں مراکش اور ترکی نژاد لوگ کافی تعداد میں رہتے ہیں۔ یوں بھی ایمسٹرڈم جانے کے لئے میں کچھ ہفتے سے کافی پر جوش تھا کیونکہ لندن کی تیز رفتار اور مصروف زندگی سے راحت پانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ویسے بھی انگریز اور یورپ کے دیگر ممالک کے لوگ چھٹّیاں گزارنے اور دنیا کے مختلف مقام پر جانے کے لئے ہمیشہ پر جوش ہوتے ہیں۔یہ لوگ اپنی چھٹّیوں کے ذریعہ دوسرے ملکوں کی ثقافت کو جاننے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اس کے علاو ہ وہاں کی آب و ہوااور کھانے پینے کا بھی کافی لطف لیتے ہیں۔

5/ دسمبر کی دوپہر دو بجے میں گیٹ وِک ائیر پورٹ پہنچ گیا۔پاسپورٹ اور دیگر لوازمات کے بعد ایزی جیٹ کا جہاز دیگر مسافروں کے ساتھ ہمارا انتطار کر رہا تھا۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ لندن میں پانچ ائر پورٹ ہیں جن کہ نام ہیں ہیتھرو ائر پورٹ، گیٹ وِک ائر پورٹ، سٹی ائر پورٹ، اسٹین سٹیڈ ائرپورٹ اور لوٹن ائر پورٹ ہیں۔ہوائی جہاز پر بیٹھ کر کیپٹن نے مسافروں کو اطلاع دی کہ لندن سے ایمسٹرڈیم کا سفر ایک گھنٹہ دس منٹ کا ہے۔لیکن ہوائی جہاز پچاس منٹ میں ہی ایمسٹرڈیم پہونچ گیا۔یوں لگ رہا تھا کہ ہمارے جوش اور بیقراری کوپائلٹ نے محسوس کرلیا تھا۔ تبھی اس نے ہوائی جہاز کو قبل از وقت ایمسٹرڈیم کے(Schiphol) اسکیفول ائیر پورٹ پر خیر عافیت سے اتار دیا۔اسکیفول ایئر پورٹ 1916 میں تعمیر ہوا تھا۔کسٹم وغیرہ اور دیگر رسمی لوازمات کے بعد جوں ہی باہر آیا تو محمد حسن بھائی نے محبت بھری مسکراہٹوں سے دونوں ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے میرا استقبال کیا۔

عام طور پر ایمسٹرڈیم کو ثقافتی اور رواداری کا شہر مانا جاتا ہے۔لیکن میں نے اپنے قیام کے دوران ایمسٹرڈیم کو میوزیم، سائیکل سواری اور حشیش پینے والوں کا بھی شہر پایا۔ ایمسٹرڈیم میں لگ بھگ5 7 میوزیم ہیں۔ ڈچ یہ کہنا پسند کرتے ہیں کہ ہالینڈ میں بچے چلنے سے پہلے سائیکل چلانا سیکھتے ہیں۔ میں نے یہاں زیادہ تر لوگوں کوسائیکل کی سواری کرتے ہوئے دیکھاہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ سائیکل سواری روزمرہ کی زندگی کا محض ایک حصّہ ہے۔ایک اطلاع کے مطابق ایمسٹرڈیم میں لگ بھگ 881,000لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ ایمسٹر ڈیم کے لوگوں کی سائیکل سواری سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ڈچ لوگ اپنی صحت کا خیال رکھنا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ اپنے شہر کو آلوددگی سے بھی پاک رکھنا چاہتے ہیں۔

راہ چلتے اکثر ایک سخت بو سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ایمسٹرڈیم میں لوگ حشیش کھلے عام طور پر پیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک وقت غیر قانونی ڈرگز کے استعمال سے ہالینڈ کی آبادی پر کافی بُرا اثر پڑرہاتھا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ نے چند ڈرگز کو قانونی درجہ دے دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ غیر قانونی طور پر ڈرگز کا دھندہ ناکام ہوگیا اور لوگ حشیش قانونی طور پر دکانوں سے خریدنے لگے۔ میں نے بازاروں اور دکانوں میں حشیش کے پتوں کی تصویریں دیکھیں جو اس بات کی نشاندہی تھی کہ ہالینڈ میں حشیش کھلے عام فروخت ہوتی ہے۔لیکن ہالینڈ سے باہر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ حشیش پینے کے بہانے ایمسٹر ڈیم کی سیر کو آئیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایمسٹرڈیم میں حشیش میوزیم بھی ہے۔

میں نے ایمسٹرڈیم شہر کی ایک اور خوبی یہ دیکھی کہ پورا شہر (Canal)نہر وں سے گھرا ہوا ہے۔جن میں سیّاحوں کو شہر دکھانے کے لئے چھوٹی چھوٹی کشتیاں گھومتی رہتی ہیں۔یہ نہریں ایک سو کیلو میٹر سے بھی زیادہ لمبی ہیں اور ان پر 1,500چھوٹے چھوٹے پُل بنے ہوئے ہیں۔ایمسٹرڈیم کے(Prins)کا علاقہ دنیا کے مختلف لوگوں سے بھرا رہتا ہے۔ ہم کشتی پر سوار ہونے کے لئے نکلے توشام اپنا جال دھیرے دھیرے بچھا رہی تھی۔ سرد ہواؤں کے تھپیڑ ے ہمارے گالوں کو گاہے بگاہے اپنی برفیلی احساس سے سرخ کر رہے تھے۔تھوڑی دیر قطار میں کھڑے رہنے کے بعد ایک خوبصورت ڈچ خاتون نے ہمیں انگریزی زبان میں کشتی پر سوار ہونے کو کہا۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہالینڈ میں لوگ ڈچ زبان کے علاوہ انگریزی زبان عام طور پر بولتے اور سمجھتے ہیں جس سے ہمیں کافی آسانی ہوئی۔کشتی سیّاحوں سے بھری تھی اور لوگ کشتی کے اندر کی گرماہٹ سے باہر کا نظارہ دل کھول کر دیکھ رہے تھے۔لگ بھگ ایک گھنٹے کے سفر میں میں نے دیکھا کہ نہر کے دونوں کنارے ایمسٹرڈیم کی مشہور چار یا پانچ منزلہ عمارتیں قطار سے کھڑی ہیں۔ یہ عمارتیں ایک دوسرے سے کافی مشابہت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہر کے کنارے دنیا کے معروف فنکاروں کے عمدہ آرٹ لگے ہوئے ہیں جو سیّاحوں کو اپنی طرف مرکوز کرتا ہے۔

7/ دسمبر کو ہم (Rijks museum)رائکش میوزیم پہنچے۔ یہ ہالینڈ کا قومی اور اہم آرٹ میوزیم ہے۔ اس میں لگ بھگ 8000آرٹ کے نمونے نمائش کے طور پر لگائے گئے ہیں۔جن میں معروف پینٹنگ سے لے کر ڈچ کی تاریخی جھلکیاں بھی لگائی گئی ہیں۔اس کے بعد ہم مشہور یہودی لڑکی (Anne Frank) کی لکھی ڈائری کو دیکھنے این فرینک ہاؤس پہنچے۔ اس میوزیم میں این فرینک کی ڈائری کے ذریعے اس کی زندگی اور (Nazis)نازیوں کی ظلم کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ این فرینک نے اپنی زندگی کی ڈائری کو دوسال میں لکھا تھا۔ جب جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو این فرینک اور اس کے والد اپنے کنبے کے چھ لوگوں کے ساتھ فرینکفٹ کو چھو ڑکر ایمسٹرڈیم کے(Merwedeplein) علاقے میں بس گئے تھے۔لیکن 1940میں جب جرمن فوجیوں نے ہالینڈ پر قبضہ کر لیا تو این فرینک کے والد اپنے خاندان کے ساتھ(Prinsengracht 263)میں چھپ گئے۔1944میں جرمن فوجیوں نے این فرینک کو دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کر لیا اور انہیں کیمپ میں دیگر یہودیوں کے ساتھ قید رکھا۔

جنگ کے خاتمے کے بعد این فرینک کے والد اوٹو فرینک واپس اپنے گھر(Prinsengracht 263)پہنچے تو انہیں کوئی بھی نہیں ملا۔ کہتے ہیں کہ این فرینک کیمپ میں ماری گئی تھی۔ این فرینک کی ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک صحافی اور رائٹر بننا چاہتی تھیں۔ این فرینک کے والد کو جب این فرینک کی ڈائری ملی تو اس سے پتہ چلا کہ وہ دو سال تک اپنے روپوش ہونے کے دوران کی داستان کو لکھتی رہی تھیں۔اس میوزیم میں دنیا کہ زیادہ تر سیّاح آتے ہیں اور یہ میوزیم اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ کس طرح ہٹلر کی آرمی نے بے قصوریہودیوں کو مارا تھا۔اس کے علاوہ ایمسٹرڈیم کے ہولوکوسٹ میوزیم بھی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہزاروں چھوٹے چھوٹے اینٹ پر ان یہودیوں کے نام اور پیدائش کی تاریخ درج ہے جنہیں ہٹلر کی فوج نے یہودی ہونے کی بنا پر مار ڈالا تھا۔تاہم میں ان اینٹوں پر درج ناموں کو پڑھ کر کچھ دیر کے لئے سوچ میں پڑ گیا کہ آخر دنیا بھر میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل و عام محض اس لئے ہوا کہ وہ مسلمان تھے۔ مثلاً بوسنیا، بنگلہ دیش، برما، ہندوستان وغیرہ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک نہ ہی ان کو کوئی یاد کرنے والا ہے اور نہ ہی ان کی یاد میں ایسا کوئی میوزیم اب تک قائم ہوا ہے۔

8/ دسمبر کو ہم (Vincent van Gogh museum) پہنچے جہاں معروف آرٹسٹ ونسٹین وین گوگ کی آنکھوں کو چھو لینے والی پینٹنگ سے لطف اندوز ہوئے۔اس میوزیم میں ونسٹین وین گوگ کی زندگی پر بھی عمدہ نمائش لگائی گئی ہے۔میں اس بات کو جان کرافسردہ ہوا کہ ونسٹین وین گوگ جب دماغی توازن کھو بیٹھے تو کیسے انہوں نے اپنا بایاں کان خود ہی کاٹ ڈالا تھا۔ اس کے بعد ہم قریب ہی ڈائمنڈ میوزیم پہنچے جہاں ہم نے ڈائمنڈ کے کاروبار میں ہالینڈ کے تاجروں کی دلچسپی اور ڈائمنڈ کی کھوج اور اس کی تیاری میں ڈچ لوگوں کے کارکردگی کا شو دیکھا۔ اس کے علاوہ اس میوزیم میں ڈائمنڈ کے تاج اور زیورات کی نمائش بھی دیکھی۔

9/ دسمبر کو جمعہ تھا اور ہمیں جمعہ کی نماز ادا کرنی تھی۔ محمد حسن صاحب نے کہا کہ میرے علاقے میں چار مساجد ہیں۔ آپ کس میں جانا پسند کریں گے۔ جن میں ایک مراکش کے لوگوں نے قائم کیا ہے اور دو ترکی اور ایک پاکستان کے لوگوں نے قائم کیا ہے۔میں نے کہا جو سب سے قریب ہے وہیں چلتے ہیں۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ایمسٹرڈیم کے نیو ویسٹ اور خیوزون پھیلد کے علاوہ ایمسٹرڈیم کے مختلف علاقوں میں جب ہم بس کی سواری کر رہے تھے تو ہمیں بس میں چار سے دس خواتین حجاب پہنی ہوئی دکھائی دی۔ جس سے یہ اندازہ ہوا کہ نیدر لینڈ میں مراکش اور ترکی کے لوگ بڑی تعداد میں آکر بسے ہوئے ہیں۔9/ دسمبر کی دوپہر میں ہم ایمسٹرڈیم میوزیم دیکھنے نکلے جو کہ (Kalverstraat) علاقے کے قریب واقع ہے۔ اس میوزیم میں (Schiphol) اسکے پھول ائیر پورٹ کی سو سالہ تاریخ کی نمائش لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہالینڈ کی تاریخ اور آرٹ کے بہترین نمونے بھی دیکھنے کو ملے۔

تھوڑی دیر آرام کر کے ہم دوپہر کوایمسٹر ڈیم کا مشہور (Body Worlds exhibition) دیکھنے کے لئے(Damrak 66) پہنچے جسے سائنسداں (Gunther von Hagens)نے شروع کیا تھا۔ اس نمائش کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں تمام جسم ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے مرنے کے بعد اپنے جسم کو نمائش کے لئے عطیہ کیا تھا۔ان جسموں کو مختلف اسٹائیل میں گلاس کے ڈبّے میں بند کر کے رکھا گیا ہے۔جس میں انسان کے دماغ سے لے کر پیر تک کے اعضاء کو نمائش کے لئے رکھاگیا ہے۔

ایمسٹر ڈیم کے لوگوں کی رواداری اور سادگی کی عمدہ مثال ان کے اخلاق اور شہر کی خوبصورتی سے پتہ چلتی ہے۔جو بات میں نے محمد حسن صاحب کی مہمان نوازی اور محبت میں بھی پائی۔اس کے علاوہ محمد حسن صاحب کی بیگم ریشمی کی پکوان نے سفر کا مزہ دوگنا کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمسٹر ڈیم یورپ کا بلا شبہ ایک تاریخی اور ثقافتی شہر ہے۔ایمسٹر ڈیم کے پانچ روز اتنے تیزی سے بیتے کہ ہمیں وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور ہم ایمسٹرڈیم کے ایک یادگار سفر کے بعد لندن واپس لوٹ آئے۔