(1)
کام سے فارغ ہوتے ہی سیدھے لائبریری چلا جاتا۔یہی میری معمول کی زندگی کا شغل تھا۔میر لی ِبو ن لائیبریری میں کتابوں کے ڈھیر کے ساتھ مختلف لوگوں سے بھی ملنے کا بھی اتفاق ہو جاتا تھا۔ان دنوں میں لندن میں اکیلے رہا کرتا تھا اور بیکر اسٹریٹ میں ہی کام بھی کرتا تھا۔ کچھ دنوں بعد ہی میری ملاقات مائیکل سے ہوئی۔ایک ادھیڑ عمر کا شخص ہر وقت سوٹ بوٹ میں ملبوس،چہرے پر مسکراہٹ مگر زندگی دکھُوں سے بھر ی ہوئی۔یہی تھا مائیکل کی زندگی کا سارا اثاثہ۔
ہم دونوں روزانہ نہ تھکنے والی لمبی شام کے سیر سپاٹے سے لطف اندوز ہونے کے لئے لائبریری کے باہر بیٹھ جاتے اور مائیکل اپنی عمر اور تجربہ سے ڈھیر ساری باتیں سناتا۔
مائیکل کی پیدائش مانچسٹر میں ہوئی تھی۔جوانی کے عالم میں اور دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں سے وہ بھی نہیں بچ سکا تھا۔ بہ حالتِ مجبوری اسے بھی اپنی نوکری چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہونا پڑا تھا۔
مائیکل نے ہنستے ہوئے کہا’میری بیوی بہت خوبصورت تھی‘۔
میں نے مائیکل سے پوچھا کیا مطلب اب وہ۔۔۔
مائیکل کچھ حد تک فکر مند سا ہوگیا۔
کھُلی فضا کو تکتے ہوئے کہنے لگا۔ اس کمبخت دوسری جنگِ عظیم نے اسے بھی نہیں چھوڑا۔
تھوڑی دیر میں خاموش رہا پھر مائیکل نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔
جنگ کا اعلان ہوتے ہی برٹش گورمنٹ نے مجھے برما بھیج دیا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب جینی نے روتے روتے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کی خوبصورت آنکھیں اور اُس کا حسین چہرہ، مائیکل کی یہ کہتے کہتے آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔مائیکل نے اپنی لمبی جیب میں ہاتھ ڈالا اور شراب کی بوتل نکال کر منھ سے لگا لی۔
پیو گے؟
نہیں میں شراب نہیں پیتا۔
مائیکل نے برجستہ کہا تم ابھی بچے ہو۔
اس کے بعد مائیکل نے پھر اپنی گزشتہ زندگی کی داستان کا آغازکیا،میرے باپ کا بہت بڑا فارم تھا۔ ہم نے بچپن سے لے کر شادی تک کسی بات کی فکر نہیں کی۔ باتوں باتوں میں رات کی سیاہی قدرے اور گہری ہوگئی۔ میں بھی تکان محسوس کرنے لگا تھا۔
مائیکل سے اجازت لی اور اپنے فلیٹ کی جانب چل دیا۔
اس طرح ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ میں روز شام لائیبریری جاتا اور پھر ما ئیکل کے ساتھ باہر بیٹھ کر گپ شپ مارتا۔ کبھی
(2)
مائیکل دوسری جنگِ عظیم کا سانحہ بیان کرتا تو کبھی اپنی بیوی کی موت کا ذکر تا، تو کبھی زندگی کے تجربات بتاتا۔اس طرح موسمِ بہار کی شام مائیکل کی گپ شپ میں گزر جاتی۔
لندن کی ٹھنڈ سے جان نکلنے لگی تھی۔ موٹے موٹے کوٹ کے علاوہ ہاتھ اور پیر کو اچھی طرح کسی گرم کپڑے سے ڈھکنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اب مائیکل بھی کم نظر آتا۔ تین بجے کے بعد لندن اندھیرے میں ڈوبنا شروع ہوجاتا۔ میں بھی لائیبریری سے نکلتا اور فلیٹ جا کر سب سے پہلے ہیٹنگ کا انتظام کرتا تا کہ باہر کی سردی سے کچھ راحت نصیب ہو۔
آج کئی ہفتے بعد مائیکل سے ملاقات ہوئی۔ وہی لمبے کوٹ میں ملبوس چہرے پر مسکراہٹ اور جھکے ہوئے کندھے۔ لگتا کہ مائیکل دنیا کا سارے غموں کا لبادہ اوڑھے زندگی کے میدان میں سرگرداں ہے۔میں نے لپک کر مائیکل کو مخاطب کیا۔
مائیکل تم اتنے دن کہاں تھے؟
مائیکل کو شاید یہ سوال پسند نہیں آیا۔
اس نے کہا، اس قدر ٹھنڈ ہے اس لئے اپنے آپ کو قدرت کی اس قہر سے چھُپاتا پھِر رہا ہوں۔
میں مائیکل کی اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہا،میں نے پوچھا،چُھپاتا پھِر رہا ہوں، کیا مطلب؟
مائیکل نے کہا،کیوں کے میرے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے۔
میں مائیکل کی ذہنی حالت کو اب سمجھنے لگ گیا۔ پھر میں مائیکل کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور نہایت تحیّر کے عالم میں یہ پوچھ ڈالا،
مائیکل تم کہاں رہتے ہو؟
اس نے سامنے ایک لمبی سی عمارت کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں اسی عمارت کے باہر فٹ پاتھ پر رات گزارتا ہوں،
اور دن بھر؟
دن بھر میں سرکِل لائن کی ٹرین میں!
میں سمجھا نہیں؟
مائیکل نے تفصیل سے پھر اپنی کہانی سنائی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب میں برطانیہ واپس آیا تو جینی جرمنی کے بم گرانے سے مر چُکی تھی۔ میں اس غم کو برداشت نہ کر سکا اور حد سے زیادہ شراب پینے لگا۔ آخر کار میں اپنے گھر،کام کاج اور زندگی کی تمام راحتوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔پچھلے بیس برسوں سے میں سڑک پر مارا مارا پھر تا ہوں اور فٹ پاتھ پر رات بسر کرلیتا ہوں۔بس یہ کمبخت سردی کے دن ان دنوں میں سرکِل لائن ٹرین میں گزارا کرتا ہوں تاکہ میں سردی سے محفوظ رہوں۔
مائیکل نے مسکراتے ہوئے شب بخیر کہا اور کہا شاید تم سے میری ملاقات کہیں کسی شام سرکِل لائن میں ہوجائے۔