Site icon DUNYA PAKISTAN

فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے

Share

کان کو ہاتھ لگا کر کہتا ہوں کہ کالم کے عنوان میں فیض نامی جس شخص کا ذکر آیا ہے اس کا تحصیل چکوال کے گاؤں منگوال سے کوئی تعلق نہیں۔ خطہ پوٹھوہار کی اس مردم خیز دھرتی منگوال کو محکمہ مال کے شہرہ آفاق تحصیلدار نجف حمید جیسی اعلیٰ انتظامی شخصیت کا وطن مالوف ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ہمارا ممدوح فیض احمد خان المتخلص بہ فیض تو نارووال کے ایک گمنام گاؤں کالا قادر کا جاٹ تھا۔ اس کا باپ سلطان محمد خان چرواہا تھا اور مدرسے میں باقاعدہ تعلیم پانے سے قاصر۔ خود آموز تھا یعنی ذاتی سعی سے استعداد بڑھائی تھی۔ چشمہ حق سے ذہن رسا پایا تھا۔ انگریز سرکار اور افغان دربار تک جا پہنچا۔ چرخ نیلی فام کی نیرنگی دیکھئے کہ نوجوان فیض تعلیم پانے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا تو سلطان محمد خان کوچ کر گئے۔ بیٹے کو ذکاوت ِوہبی، طبع حساس اور ڈھیروں قرض کی ادائی وراثت میں ملی۔ عربی اور انگریزی ادبیات میں تعلیم پانے والے فیض کو سخن آرائی کی چیٹک تھی، صاحب علم اساتذہ میسر آئے تو جلد ہی درجہ کمال کو پہنچ گئے۔ حکایت دروں ہو یا آشوبِ شہر کا بیان، فیض اپنی واردات کو غزل کے مانوس استعاروں میں رکھ کے ارد گرد سجل لفظوں کی نازک تتلیاں باندھ دیتا تھا۔ چندے تدریس سے وابستہ رہے۔ دوسری عالمی جنگ میں وردی بھی زیب تن کی۔ صحافت کی شیرازہ بندی میں حصہ ڈالا۔ غریب اور کمزور کے درد سے آشنائی لہو میں شامل تھی۔ اسی سرکشی کی پاداش میں قید و بند کی آزمائش سے گزرے۔ 1962 کا لینن پیس پرائز بھلے اب ایک گزری دنیا کا قصہ معلوم ہو ، تاہم یاد رہے کہ اس برس فیض کے ہمراہ اساطیری مصور پابلو پکاسو اور گھانا کے انقلابی رہنما کوامی نکرومہ کو بھی یہ انعام ملا تھا۔ نوبل انعام کی نامزدگی تک پہنچنے والے فیض صاحب کا ایک اعزاز ایسا ہے جو شاید کم ہم وطنوں کے علم میں ہو۔ 2014ء میں برطانوی اخبار گارجین نے دنیا بھر کے ماہرین ادب کی مدد سے گزشتہ نصف صدی کی بہترین رومانوی نظموں کا ایک انتخاب کیا جس میں دنیا کے 30 ممالک سے 50 شاعروں کو جگہ مل سکی۔ اس انتخاب میں فیض کی نظم ’رنگ ہے دل کا مرے‘ شامل تھی۔ ’دست تہ سنگ‘ میں شامل یہ نظم اگست 1963 میں ماسکو میں کہی گئی تھی۔ فیض کی عقیدت میں ان چند حروف عجز کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ان دنوں وطن عزیز میں ایک اور فیض صاحب کا چرچا ہے۔ اندیشہ تھا کہ کہیں اس رسہ کشی میں ہمارے فیض احمد فیض کا نام مجروح نہ ہو جائے۔

سیاسی یا پیشہ ورانہ انتخاب کرنے والوں سے گزارش ہے کہ ساعت اولیں ہی میں حمید اور فیض جیسے ناموں پر خاص توجہ دیا کریں۔ ہمارے ہاں ایک جنرل عبدالحمید خاں گزرے ہیں۔ دسمبر 1971 ء میں ملک ٹوٹ رہا تھا تو حمید خان فوج کی سربراہی کے لیے یحییٰ خان سے پنجہ آزمائی کر رہے تھے۔ کوئی بیس برس بعد لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نمودار ہوئے۔’’ فاتح جلال آباد‘‘ حمید گل بھی آرمی چیف بننے کے آرزو مند تھے۔ آس ٹوٹی تو مستعفی ہو گئے۔ ایم کیو ایم، آئی جے آئی اور تحریک انصاف جیسی جمہوری دستکاریاں حمید گل ہی کے دست اعزاز کا کرشمہ ہیں۔ دو دہائی بعد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا ورود ہوا۔ 2017ء سے 2022 ء تک قوم کی شہر پناہ پر جو گولہ آن کر گرا اس میں فیض حمید کی انگشت فتنہ ساز کو دخل تھا۔ جنرل صاحب کے نام میں فیض بھی شامل ہے۔ ہماری تاریخ میں جنرل فیض علی چشتی بھی گزرے ہیں۔ 5جولائی 1977 ء کی رات کور 10 کے کمانڈر اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والے فیض علی چشتی کو دستورکا غداری سے متعلقہ آرٹیکل 6 بھلے مستحضر نہ ہو، بے وفائی کا مفہوم خوب سمجھتے تھے۔ Betrayals of Another Kind کے نام سے ایک تصنیف قلمبند کی۔ حالیہ نومبر ہمارے سیاسی سمندروں کی تہ میں پوشیدہ طوفانوں کی رستاخیز سے معمور تھا۔ بالآخر جنرل عاصم منیر کی نامزدگی ہوئی تو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ چکوال کی سڑکوں پر حروف عقیدت میں گندھے سنگ ہائے بنیاد پر وقت کی گرد پڑ گئی۔ عموماً اعلیٰ عسکری افسر سپرسیڈ ہونے پر مستعفی ہوتے ہیں۔ یہاں تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ معمولی فہم رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ دو اعلیٰ عسکری افسروں کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ ادارہ جاتی روایت کا حصہ نہیں بلکہ سعی ناکام کی دستاویز پر دستخط کی تقریب تھی۔ اس قبیلے کے ایک سردار لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام تو حالیہ ضمنی انتخابات میں اپنے سیاسی جھکائوکا اشارہ دے چکے ہیں۔ اب منگوال کے عمائدین کا ایک وفد محترم فیض حمید کے فارم ہائوس پر پہنچا ہے۔ ارض چکوال کے لئے ان کی خدمات پر روشنی ڈالی اور وہ آرزوئے ناتمام بھی نثر میں بیان کی جو استاد قمر جلالوی نے طالب نقوی کے بارے میں کہی تھی۔ ’خدا نے چیف کمشنر بنا دیا تم کو / دعائیں ہم نے تو مانگی تھیں بادشاہی کی‘۔ اس موقع پر قبلہ فیض حمید نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ذرا سا جھکتے ہوئے انکسار کی حد کر دی۔ اب خبر آئی ہے کہ فیض حمید صاحب سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ نہیں صاحب ایسا نہیں کہئے۔ کارِ سیاست میں آپ کا وسیع تجربہ قوم کے کام آنا چاہئے۔ آپ سے پہلے اسکندر مرزا نے ریپبلکن پارٹی بنائی تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے کنونشن لیگ بنائی تھی۔ ایئر مارشل اصغر خان نے تحریک استقلال بنائی تھی۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی قومی اتحاد کے جلسوں میں کروفر سے خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جنرل اسلم بیگ نے بھی ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی یہ کوشش کر دیکھی۔ ایک سیاسی جماعت تو پرویز مشرف نے بھی بنائی تھی۔ واللہ آپ بھی یہ شوق پورا کیجئے لیکن خیال رہے کہ سیاست دان پھانسی پر جھول جاتا ہے، برسوں قید کاٹتا ہے، جلاوطن ہوتا ہے، مفتوحہ عدالتوں سے ناکردہ گناہوں کی سزائیں پاتا ہے، سیاست دان ریٹائر نہیں ہوتا۔

Exit mobile version