فیچرز

’حلفیہ کنواری‘ خواتین کون ہیں اور یہ قدیم روایت کیوں دم توڑ رہی ہے؟

Share

آج دنیا میں صرف چند ہی ایسی خواتین بچی ہیں جو خود کو’قسمیہ یا حلفیہ کنواری‘ خواتین کا لقب دیتی ہیں۔ یعنی البانیہ اور بلقان کے خطے میں پائی جانے والی اس قدیم روایت کی حامل خواتین جو انھیں مردوں کی طرح رہنے اور ان جیسی آزادیوں سے لطف اندوز کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

لیکن اس کے لیے خواتین کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی روایتی نسوانیت کو ترک کر کے جنسیت سے مکمل طور پر دور رہنے کا عہد کریں۔ اب یہ قدیم روایت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

ایک مقامی خاتون جستینا گریچائی کے بقول ’البانیہ مردوں کی دنیا ہوا کرتی تھی اور خواتین کے لیے  آزادی سے زندہ رہنے کا راستہ یہی تھا کہ وہ مردوں جیسی بن جائیں۔‘

اس وقت شمالی البانیہ کے پہاڑی علاقے میں رہنے والی جستینا کی عمر 23 سال تھی جب انھوں نے ساری عمر کنواری رہنے کا فیصلہ کر لیا اور اس فیصلے نے ان کی زندگی بدل دی، بلکہ یوں کہیے کہ اسے الٹا کے رکھ  دیا۔

جب انھوں نے ’حلفیہ کنواری‘ رہنے کا عہد کیا تھا تو انھوں نے اپنی جنسی خواہشات کو ہمیشہ کے لیے ترک کر کے ’پاکیزگی‘ کی قسم کھاتے ہوئے باقی زندگی ایک مرد کی حیثیت سے گزارنے کا عہد کر لیا تھا۔

جستینا کا خاندان ایک صدی سے زیادہ عرصے سے البانیہ کی لیبوشی کاؤنٹی کے ایک دور دراز علاقے میں رہ رہا ہے۔ پتھریلے پہاڑوں کے درمیان ایک گہری وادی میں واقع یہ علاقہ ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں کنوارپن کی قسم کھانے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ اسے مقامی طور پر ’پورنیشا‘  کہا جاتا ہے جس میں خواتین کو گاؤں کے بزرگوں کے سامنے حلف دلایا جاتا ہے جس کے بعد یہ خواتین اپنی ساری زندگی مردوں کی طرح گزارتی ہیں۔

ان خواتین کو ’پورنیشا‘ یا ’حلفیہ کنواریوں‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جستینا کہتی ہیں کہ ’دنیا میں بہت سی اکیلی خواتین ہیں، لیکن وہ حلفیہ کنواری نہیں ہیں۔ پورنیشا وہ خاتون ہوتی ہے جو خود کو صرف اپنے خاندان کے لیے وقف کر دیتی ہے، کام کرنے کے لیے وقف کر دیتی ہے، اور پاکیزگی میں رہنے کا عہد کرتی ہے۔ ‘

حلفیہ کنواریاں
،تصویر کا کیپشنجستینا نے جڑی بوٹیوں کا استعمال اپنے والد سے سیکھا تھا

صدیوں پہلے بلقان میں بہت سی خواتین کے لیے  اپنی جنسی اور معاشرتی شناخت اور بچے پیدا کرنے کے امکانات کو ترک کرنا ان آزادیوں سے لطف اندوز ہونے کا ایک طریقہ تھا جو صرف مردوں کو ہی میسر تھیں۔

تاہم ’حلفیہ کنواری‘  خاتون کو مردوں جیسے کپڑے پہننے، خاندان کے سربراہ کے طور پر کام کرنے، تمام سماجی معاملات میں آزادانہ طور پر حصہ لینے اور وہ کام کرنے کی اجازت ہوتی تھی جو روایتی طور پر مردوں کے لیے مخصوص ہوتے تھے۔

جستینا (جنھیں ان کے قریبی لوگ ڈونی کہتے ہیں)  ایک چاک و چوبند جوان لڑکی تھیں، ایک ایسی نوجوان عورت جس نے ایک آزادانہ زندگی بسر کرنے کا عزم کر لیا تھا اور یہ بھی طے کر لیا تھا کہ وہ کبھی بھی بناؤ سنگھار نہیں کرے گی، نہ شادی کرے گی، نہ بچے پیدا کرے گی اور گھریلو کام کاج سے دور رہے گی۔

اپنے والد کی موت کے بعد جستینا نے حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ باقاعدہ اپنے کنبے کی سربراہ بن سکیں۔

 وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم انتہائی غربت میں رہ رہے تھے۔ میرے والد کا انتقال ہو گیا، اور میری ماں چھ بچوں کے ساتھ اکیلی رہ گئیں۔ اپنی والدہ کی زندگی آسان بنانے کے لیے میں نے ’پورنیشی‘ بننے اور سخت محنت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘

جستینا ایک دور افتادہ گاؤں میں رہتی ہیں جہاں موبائل فون کے  سگنل بہت کمزور ہیں اور شدید سردیوں کی وجہ سے  لیبوشی جانے والی سڑک اکثر برف جمع ہو جانے سے کٹ جاتی ہے اور بجلی بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ جستینا یہاں ایک چھوٹا سا ہاسٹل چلاتی ہیں، کھیتی باڑی کرتی ہیں اور اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔

 ایک حلفیہ  کنواری اور خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے، جستینا جڑی بوٹیوں سے ادویات اور مختلف قسم کے تیل بنانے کا کام بھی کرتی ہیں۔ یہ ہنر انھیں اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے۔

’میرے والد جڑی بوٹیوں کی بہت دیکھ بھال کرتے تھے اور یہ کام انھوں نے ہی مجھے سکھایا تھا۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بھانجی ویلیرینا بھی یہ ہنر سیکھے اور اسے آگے بڑھائے، لیکن اس نے اپنے لیے ایک مختلف راستے کا انتخاب کیا ہے۔‘

حلفیہ کنواریاں
،تصویر کا کیپشنرایا کا خیال ہے کہ اب البانیہ گھٹن اور قدیم روایات سے باہر نکلنے کی راہ پر گامزن ہے

‘آج کوئی لڑکی بھی حلفیہ کنواری نہیں بننا چاہتی‘

جستینا کی بھانجی ویلیرینا گریشاگ کا کہنا ہے کہ ’آج کوئی لڑکی بھی حلفیہ کنواری نہیں بننا چاہتی، لڑکیاں اس بارے میں سوچتی بھی نہیں اور میں خود اس کی جیتی جاگتی مثال ہوں۔‘

ویلیرینا اسی گاؤں میں اپنی خالہ کے ساتھ پلی بڑھی، لیکن انھیں کم عمری میں ہی یہ احساس ہو گیا تھا کہ اس علاقے کی خواتین کے اختیارات بہت کم ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں سے کم عمری میں ہی شادی کرنے کی توقع بھی کی جاتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک لمحہ مجھے ہمیشہ یاد  رہے گا۔ جب میں چھٹی جماعت میں تھی تو میری ایک سہیلی نویں جماعت میں تھی۔ اس  نے مجھے بتایا کہ اس کی منگنی ہو گئی ہے۔ اس کی عمر صرف 14 سال تھی۔‘

’میری سہیلی نے مجھے بتایا کہ اس کا (مستقبل کا) شوہر اسے تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے گا، اور اسے کہتا ہے کہ میری سہیلی کو اس کی بات سننی چاہیے، اس کے ساتھ رہنا چاہیے اور اس کی فرمانبرداری کرنا چاہیے۔‘

لیکن اپنی سہیلی کے برعکس کم عمری میں شادی کرنے یا حلفیہ کنواری بننے کے بجائے، ویلیرینا نے 16 سال کی عمر میں اپنا خاندانی گھر چھوڑ دیا اور البانیہ کے دارالحکومت تیرانا چلی گئیں، جہاں انھوں نے تھیٹر کی ہدایت کاری اور فوٹو گرافی کی تعلیم حاصل کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’تیرانا میں لڑکیوں اور عورتوں کو زیادہ مواقع اور فوائد حاصل ہیں، اور انھیں زیادہ آزادی حاصل ہے۔ گاؤں میں عورتوں کے لیے حالات اب بھی بہت خراب ہیں۔‘

اگرچہ اس حوالے سے کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں،  لیکن اندازے کے مطابق، حالیہ عرصے میں شمالی البانیہ میں حلفیہ کنواریوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور آج ایسی خواتین کی تعدا ایک درجن سے زیادہ نہیں ہے۔

کمیونزم کے خاتمے اور نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے  کے بعد سے، البانیہ میں بڑی معاشرتی تبدیلیاں آئی ہیں جس نے خواتین کو زیادہ حقوق کی اجازت دی ہے۔

ویلیرینا پورنیشا کی روایت کے ختم ہونے کو ایک مثبت چیز سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم لڑکیوں کو آج مرد بننے کے لیے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں مساوی حقوق کے لیے لڑنا پڑتا ہے، لیکن مرد بن کر نہیں۔‘

’بہت ہو چکی‘

سنہ 2019 میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن رایا نیبراوستا نے تیرانا میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر حلفیہ کنوارپن کی روایت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

رایا ایک بڑے بینر کے ساتھ سڑک پر نکلیں جس پر سرخ رنگ میں  لفظ ’پورنیشا‘ پر منسوخی کا نشان ’ایکس‘ پینٹ کیا گیا تھا اور اس کے نیچے لکھا تھا ’مضبوط خواتین‘

رایا کا کہنا ہے کہ ’اب البانیہ میں، جب ہم کسی مضبوط خاتون کی بات کرتے ہیں تو ہم اس کے لیے ’پورنیکا‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے ’دوگنا انسان۔‘

رایا کا خیال ہے کہ اب البانیہ گھٹن اور قدیم روایات سے باہر نکلنے کی راہ پر گامزن ہے اور اس ملک نے ’مختصر وقت میں بہت سے قدم آگے بڑھائے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے مطابق، حالیہ عرصے میں البانیہ میں سیاسی اور اقتصادی فیصلہ سازی میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے قوانین اور انتخابی عمل میں بہتری آئی ہے۔ تاہم، ادارے کے مطابق ابھی تک تنخواہوں میں صنفی تفریق جیسے مسائل کو پوری طرح حل نہیں کیا گیا ہے۔

سنہ 2017 میں البانیہ کی پارلیمان کے ارکان میں خواتین کی تعداد 23 فیصد اور لوکل کونسل میں 35 فیصد تھی۔

لیکن خواتین کے حقوق کی صورتحال پر ابھی اسے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ’بدقسمتی سے البانیہ میں خواتین سے تعصب، جنس پر مبنی پروفائلنگ اور گھریلو تشدد بہت عام ہے۔‘

اقوام متحدہ کے ادارہ  برائے خواتین کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سے 49 سال کی عمر کی تقریباً 60 فیصد البانی خواتین گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ ان اعداد وشمار کے مطابق البانیہ میں صرف آٹھ فیصد خواتین زمین کی مالک ہیں اور وراثت میں بھی عورتوں کو ان کا پورا حصہ نہیں دیا جاتا ہے۔

حلفیہ کنواریاں
،تصویر کا کیپشنالبانیہ کے دور دراز علاقوں میں زندگی بہت مشکل ہے، خاص طور پر موسم سرما میں

حلفیہ کنوارپن کی روایت

پورنیشا روایت کی جڑیں مقامی طور پر ’قانون‘ کہلانے والے ایک قدیمی دستاویز میں ملتی ہیں جو پندرہویں صدی میں کوسوو اور شمالی البانیہ میں غالب تھا اور یہ دستاویز البانی معاشرے کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔اس پدرسری قانون کے تحت خواتین کو ان کے شوہروں کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔

 پورنیشا کی روایت کا مطالعہ کرنے والی ایک ماہر، آفریدیتا اونوزی کا کہنا ہے کہ خواتین کو ’اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے یا اپنی زندگی کا انتخاب کرنے کا حق نہیں تھا۔‘

’جب لڑکی کی منگنی ہوتی تھی تو اس سے پوچھے بغیر ہی فیصلہ کر لیا جاتا تھا کہ وہ کیا سوچتی ہے۔‘

اگرچہ اب ایسی روایت کمزور پڑتی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک البانیہ میں بہت سی غلط فہمیاں باقی ہیں۔

آفریدیتا کا کہنا ہے کہ ’ایک لڑکی کے کنواری بننے کے انتخاب کا اس کے جنسی میلان یا سیکس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ صرف اس لڑکی کا انتخاب ہے کہ وہ کس قسم کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے اور خاندان میں کیا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ حلفیہ کنوارپن کا انتخاب شادی سے بچنے کا ایک طریقہ بھی ہے، ایک ایسا طریقہ جس میں آپ دولہا کے خاندان کو بھی ناراض نہیں کرتے۔‘

آفریدیتا بتاتی ہیں کہ ’قانون‘  کے اصولوں کے تحت، شادی سے انکار کی صورت میں عزت کو برقرار رکھنے کے لیے بدلہ لینا ایک فرض سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ کام دھمکیوں سے ہو جاتا تھا لیکن کبھی کبھی اس میں معاملے میں بات قتل تک پہنچ جاتی تھی، جس کے بعد مقتول کے خاندان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ قاتل کو خود، یا اس کے خاندان کے کسی دوسرے شخص کو قتل کر کے بدلہ لے۔

ان حالات میں بہت سی لڑکیوں کے لیے، کنوارپن کی قسم کھا لینا اپنے خاندانوں کو انتقامی کارروائی سے بچانے کا ایک طریقہ تھا۔ یا یہ ’یہ شادی سے فرار ہونے کا ایک قدرے آسان طریقہ تھا۔‘

حلفیہ کنواریاں
،تصویر کا کیپشنڈرینڈی کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود کو ہمیشہ سے مرد ہی سمجھا ہے

آزادی اور احترام کے لیے قربانی

پورنیشا کی روایت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی اور پھر اس نے  ایک جبری فیصلے سے عورتوں کے اپنے انتخاب کی شکل اختیار کر لی جہاں خواتین کسی بڑے جھگڑے اور شادی شدہ زندگی کے جھمیلوں سے بچنے کے لیے ’حلفیہ کنوارپن‘ اختیار کرنے لگیں۔

آفریدیتا  کہتی ہیں کہ ’روایتی حلفیہ کنوارپن اور آج کل خواتین کے اکیلا رہنے کے درمیان فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ آج کے دور میں یہ مکمل طور پر خواتین کے ذاتی آزادنہ فیصلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔‘

البانیہ کے کمیونسٹ دور کے دوران جوان ہونے والی اس لڑکی نے محسوس کیا کہ مردوں کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہے اور وہ بھی اسی قسم کی آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے۔

جستینا خود بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ بہت زیادہ غیر مساوی سلوک کیا جاتا تھا، دیگر خواتین کی طرح وہ بھی بہت الگ تھلگ رہتی تھیں، صرف گھریلو کام کاج تک محدود  تھیں اور انھیں بھی بولنے کا کوئی حق نہیں تھا۔‘

جستینا  کے خاندان  والے اور خاص طور پر ان کی والدہ اپنی بیٹی کے اس فیصلے سے متفق نہیں تھیں کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ ان کی بیٹی خاندان کے لیے قربانی دے رہی ہے۔ لیکن جستینا کے بقول وہ اپنے فیصلے میں حق بجانب تھیں۔

’جب میں نے پورنیشا بننے کا فیصلہ کر لیا، تو مجھے زیادہ عزت ملنے لگی۔‘

لیکن کئی خواتین  کے لیے حلفیہ کنوارپن اختیار کرنے کی وجہ یہ رہی ہے کہ وہ خود کو خواتین کی نسبت مردوں کے زیادہ قریب سمجھتی تھیں۔

البانیہ کے ساحلی قصبے جانزن میں رہنے والی ایک حلفیہ کنواری خاتون، ڈرنڈی، جو خود کو بطور مرد پیش کرتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا کہ میرا تعلق خواتین سے ہے، بلکہ میں ہمیشہ مردوں سے تعلق رکھتا ہوں۔۔۔ میں نے ہمیشہ ایک آدمی کی طرح محسوس کیا ہے۔‘

ڈرنڈی کے لیے  کنوارپن کو اپنانا مردوں جیسی آزادی سے لطف اندوز ہونے کا ایک طریقہ تھا، جیسے سگریٹ اور شراب پینا۔

جب ہم ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر پہنچے، تو انھوں نے فخریہ انداز میں کہا  کہ ان کے ’پورنیشا‘ بننے کے انتخاب نے انھیں معاشرے کی جانب سے زیادہ قبولیت دی ہے۔

ان کے بقول ’میں جہاں بھی جاتا ہوں، میرے ساتھ خصوصی احترام کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے اور میں اچھا محسوس کرتا ہوں. مجھے ایک مرد کے طور پر احترام کیا جاتا ہے، ایک عورت کے طور پر نہیں۔ یوں میں نے خود کو آزاد محسوس کیا ہے۔‘

ڈرینڈی نے حلفیہ کنوارپن کے لیے جو قربانی دی ہے، اگرچہ انھیں اس پر فخر ہے لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں تنہائی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے فیصلے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ اگر میرے پاس ایک بچہ ہو جو میری دیکھ بھال کر سکے تو یہ کیسا ہو گا۔ میں بہت بیمار تھا اور کوئی بھی میری مدد کرنے کے لیے میرے قریب نہیں تھا۔ لیکن یہ صرف ایک لمحہ تھا، ایک سیکنڈ کا ایک حصہ۔‘

لیکن مجھے ایک ایسے معاشرے کا سامنا تھا جس نے خواتین کو محدود کردیا تھا۔ اسی لیے جو لڑکیاں حلفیہ کنوری رہنے کا عہد کرتی ہیں، وہ اپنے اس فیصلے کو طاقت اور بااختیار بننے کا راستہ سمجھتی ہیں۔‘

آفریدیتا کہتی ہیں کہ حلفیہ کنوارپن ایک قسم کا احتجاج تھا، جس نے پھر قربانی کی  شکل اختیار کر لی۔

تاہم یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو گا کہ مردوں کی طرح بننے کا فیصلہ کرنے کے باوجود حلفیہ کنواری خواتین نادانستہ طور یہ سمجھتی ہیں کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کا کردار کمتر ہے۔

حلفیہ کنواریاں
،تصویر کا کیپشنجستینا کی خواہش ہے کہ ان کی بھانجی بھی جڑی بوٹیوں میں دلچسپی لے لیکن ویلیرینا نے اپنے لیے مختلف راہ کا انتخاب کیا ہے

ویلیرینا کہتی ہیں کہ انھوں نے خواتین کے حقوق کے لیے سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی لیکن ان کے مثبت پیغامات کے جواب میں انھیں بہت سی منفی باتیں سننے کو ملی ہیں۔

’مجھے مردوں کی طرف سے بہت سے پیغامات موصول ہوئے، یہاں تک کہ مجھے مار دینے کی دھمکیاں بھی ملیں۔ یہ چیز میری اس بات کو چیلنج کرتی ہے کہ تمام لوگ خواتین کو ان کے حقوق دینا چاہتے ہیں۔

ویلیرینا نے سوشل میڈیا پر اپنی خالہ اور دیگر حلفیہ کنواری خواتین کی تصاویر بھی لگائی ہیں اور ان کے بقول اس کا مقصد اس معدوم ہوتی ہوئی روایت کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنا ہے۔

’مجھے امید ہے کہ آنے والی نسلیں اس موضوع میں دلچسپی لیں گی، کیونکہ ایک روایت کے طور پر یہ چیز ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔‘

’لیکن  آج آزادی سے لطف اندوز ہونے کے لیے کسی عورت کو حلفیہ کنواری بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ دور جدید کی عورت کے لیے اب قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

لیکن جستینا کی رائے مختلف ہے کیونکہ ان کی نظر اس قیمت پر نہیں ہے جو انھوں نے حلفیہ کنواری بن کے یا احترام کے بدلے میں اپنی نسوانی شناخت کو قربان کرکے دی ہے، بلکہ جستینا کی نظر اس آزادی پر جو اس فیصلے نے انھیں دی ہے۔

’آئندہ حلفیہ کنواریاں نہیں ہوا کریں گی، اور شاید میں آخری حلفیہ کنواری ہوں گے۔‘

جستینا یہ تسلیم کرتی ہیں کہ اگر ان کے پاس آج کوئی انتخاب ہوتا تو ان کا فیصلہ مختلف ہوسکتا تھا ، لیکن اگر وہ وقت کو واپس پلٹ سکیں اور ماضی کے حالات میں واپس جا سکیں تو تب بھی ان کا انتخاب حلفیہ کنوارپن ہی ہوگا۔

’مجھے فخر ہے کہ میں ایک حلفیہ کنواری ہوں اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے.‘