منتخب تحریریں

عمران خان کی قانونی مشکلات میں اضافہ 

Share

عمران خان صاحب کے لئے سیاسی اعتبار سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے ضمن میں ’’شیر آیا -شیر آیا‘‘ والا رویہ برقرار رکھنا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ ہفتے کی شام لہٰذا پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو اپنے دائیں ہاتھ بٹھاکر انہوں نے اپنے تئیں حتمی تاریخ کا اعلان کردیا ہے۔ان کی جانب سے دی تاریخ پر ٹھوس عملدرآمد کے لئے مگر لازمی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی آئندہ جمعہ کی صبح وزارت اعلیٰ کے دفتر سے گورنر پنجاب کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیجیں۔یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ برقرار ہے کہ وہ اپنے دستخطوں سے یہ پیش قدمی لینے کو آمادہ ہوں گے یا نہیں۔اسی باعث عمران مخالف ناقدین تمسخرانہ انداز میں یہ تاثر پھیلارہے ہیں کہ ہفتے کی شام پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو یقینی نہیں بنایا گیا۔اسے ’’بچانے‘‘ کو بلکہ سات دنوں کی مہلت فراہم کردی گئی ہے۔اس کے دوران مسلم لیگ (نون) اور اس کے حلیف چودھری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ گورنر پنجاب بھی وزیر علیٰ کو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کو مجبور کرسکتے ہیں۔ہفتے کی شام سے جو سوال اُٹھ رہے ہیں ان کے جوابات تلاش کرنے سے قبل مگر میری جانب سے چند وضاحتیں ضروری ہیں۔’’نوائے وقت‘‘ کے لئے گزشتہ کئی برسوں سے یہ کالم ہفتے کے پانچ دن باقاعدگی سے لکھ رہا ہوں۔مشکل ترین حالات میں بھی اس فرض سے غفلت کا کبھی مرتکب نہیں ہوا۔گزشتہ ہفتے مگر پورے پانچ دن کی ’’چھٹی‘‘ لی۔فوری وجہ میری بیٹی کی رخصتی تھی۔اس سے متعلق فرائض اور تقریبات نے بے تحاشہ مصروف رکھا۔شادی کے ایام سے قبل ہی تاہم میرے کچھ طبی مسائل سنگین تر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ربّ کے کرم سے وہ فی الوقت اس مقام پر ہیں جہاں دو یا تین ماہ تک پھیلا علاج اور احتیاط میری توانائی کو آئندہ کچھ بر سوں کے لئے بحال کرسکتے ہیں۔ موت کا ایک دن معین ہے۔اسے ٹالانہیں جاسکتا۔غیر ذمہ دارانہ رویے سے مگر خود کو بستر کا محتاج بنالینا میں سنجیدگی سے خودکشی کے مترادف سمجھتا ہوں۔ لکھنا میرا پیشہ ہی نہیں جنون بھی ہے۔وطن عزیز اس وقت جن ہیجانی کیفیات سے دوچارہے اس کا علاج میرے بس میں نہیں۔یہ کیفیات جن بنیادی وجوہات اور تضادات کی بدولت رونما ہورہی ہیں ان کا کھوج لگانا بھی تاہم ایک صحافی کے لئے لازمی ہے۔ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے بعد میں نہایت دیانت داری سے یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اخبار کے لئے اپنا یا اندازِ صحافت ہی ان تضادات اور وجوہات کی تفصیلی نشاندہی کرسکتا ہے۔صحافتی زبان میں اسے Long Form Journalismکہا جاتا ہے۔ اس انداز سے میری واجب شناسائی ہے اور میں اسے نہایت لگن سے ہمارے ذہن میں امڈتے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہوں۔آپ کی دعائیں شامل حال رہیں تو اپنا فریضہ دیانتداری سے ادا کرتا رہوں گا۔اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہوئے اس امر پر اصرار کر وں گا کہ چودھری پرویز الٰہی ’’انقلابی‘‘ سیاست دان نہیں ہیں۔محدودات کو بخوبی سمجھتے ہوئے اقتدارو اختیار کے ’’تمام حصہ داروں‘‘ کو راضی رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے عادی ہیں۔جس سیاست کے وہ عادی رہے ہیں اس کا تقاضہ تھا کہ تحریک انصاف چودھری صاحب کے ساتھ مل کر آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت برقرار رکھے۔پنجاب کے مالی وسائل دیگر صوبوں سے کہیں بہتر ہیں ان کا دانشمندانہ استعمال تحریک انصاف کے لئے آئندہ انتخاب کے دوران ’’واک اوور‘‘ جیسی صورت حال پیدا کرسکتا تھا۔پنجاب کے تقریباََ ہر بڑے شہر اور قصبے میں سڑکیں ان دنوں ’’ادھڑی‘‘ ہوئی ہیں۔اس کی وجہ مختلف ’’ترقیاتی منصوبے‘‘ ہیں جو ان علاقوں کے لئے چودھری پرویز الٰہی نے تیار کئے ہیں۔ان منصوبوں کی تیز تر تکمیل پنجاب حکومت کو وفاقی حکومت کے مقابلے میں ’’گڈگورننس‘‘ کی علامت بناکر پیش کرسکتی تھی۔ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر وفاقی حکومت جبکہ کئی حوالوں سے کاملاََ مفلوج ہوچکی ہے۔ناقابل برداشت مہنگائی کا طوفان اس میں شامل جماعتوں کی ساکھ اور ووٹ بینک کو بھی شدید نقصان پہنچارہا ہے۔عمران خان صاحب مگر نام نہاد ’’بگ پکچر‘‘ پر توجہ دینے کو آمادہ نہیں۔وفاق میں حکومت کھودینے کے بعد غصے سے بپھرے ہوئے ہیں۔ملک بھر میں وہ اضطرابی اور ہیجانی ماحول کو گھمبیر تر بنانے کو تلے بیٹھے ہیں۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کی تحلیل اس ضمن میں انہیں سودمند نظر آرہی ہے۔ اضطرابی کیفیات کو گھمبیر تر بنانے کی لگن میں تاہم وہ یہ حقیقت بھولے ہوئے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا ہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انگریزی زبان والا Initiativeیا پیش قدمی ان کے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔یہ ’’عبوری حکومتوں‘‘ کے سپرد ہوجائے گی۔ ’’غیر سیاسی افراد‘‘ پر مشتمل یہ حکومتیں نظربظاہر وفاقی حکومت کی کئی حوالوں سے محتاج رہیں گی۔حقیقی معنوں میں لیکن ان کا ’’کنٹرول‘‘ ان قوتوں کے ہاتھ چلا جائے گا جنہیں عمران خان صاحب رواں برس میں ان کے خلاف ہوئی مبینہ ’’سازش‘‘ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں منتخب صوبائی حکومتوں کی تحلیل مذکورہ قوتوں کو بلکہ ’’کھلاہاتھ‘‘ فراہم کردے گی۔عمران خان صاحب کی قانونی مشکلات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔سابق وزیر اعظم انہیں سنجیدگی سے لیتے نظر نہیںآرہے۔ انہیں گماں ہے کہ ’’عوامی مقبولیت‘‘ انہیں مشکل سے مشکل تر ہوتی قانونی مشکلات سے بچالے گی۔پانامہ دستاویزات کے دھماکہ خیز انداز میں منظر عام پر آنے کے بعد نواز شریف اور ان کی جماعت بھی ایسے ہی گماں میں مبتلا تھی۔ اس کا انجام ہم سب دیکھ چکے ہیں۔عمران خان صاحب 2016ء کے نواز شریف کے مقابلے میں یقینا عوام کے کماحقہ حصے میں فی الوقت کہیں زیادہ ’’مقبول‘‘نظر آرہے ہیں۔’’مقبولیت‘‘ مگر عدالتوں میں کارگر ثابت نہیں ہوتی۔قانونی مشکلات سے تحفظ کے لئے سیاستدان کو قانونی دلائل کے علاوہ اقتدار واختیار کے حتمی اجارہ داروں سے بھی چند  معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنا ہوتے ہیں۔عمران خان صاحب مذکورہ تناظر میں مطلوبہ لچک دکھانے کو تیار نظر نہیں آرہے۔ان کا رویہ بلکہ مزید جارحانہ ہورہا ہے۔سب کو راضی رکھنے کے عادی چودھری پرویز الٰہی جبلی اعتبار سے عمران خان صاحب کے ساتھ ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘ ‘والے ذہن کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اپنے دستخطوں سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل والی ایڈوائس گورنر کو بھجوادینے کے بعد وہ سیاسی اعتبار سے بلکہ کاملاََ ’’بے وزن‘‘ ہوجائیں گے۔ یہ امکان انہیں اس امر کو بھی مجبور کرسکتا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل والی ایڈوائس پر دستخط کے بجائے وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہوجائیں اور پنجاب میں تحریک انصاف اور اس کے سیاسی مخالفین کو اکھاڑے کے کنارے پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے دیکھیں ۔ عمران خان صاحب اس کے باوجود مگر خود کو کامیاب ہوا تصور کریں گے۔ ان کا واحد ہدف ا ن دنوں اضطرابی کیفیات کو برقرار رکھنا ہے اور مذکورہ ہدف کے حصول میں وہ ابھی تک کامیاب وکامران ہی نظر آرہے ہیں۔