گذشتہ 50 برسوں کے دوران مردوں کے سپرم کاؤنٹ میں 51 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اسرائیل کی ہیبریو یونیورسٹی آف یروشلم اور امریکہ کے ماؤنٹ سنائی سکول آف میڈیسن کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ سب سے اہم نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔
محققین کی جانب سے اعداد وشمار کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ سنہ 1970 میں مردوں میں اوسطاً 101 ملین ایسے رپروڈکٹیو سیلز فی ملی میٹر سیمن موجود تھے تاہم یہ اوسط اب گر کر 49 ملین تک جا پہنچی ہے۔
مقدار کے ساتھ ساتھ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ مردوں میں اس کی کوالٹی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور تولیدی صلاحیت کے حامل خلیوں میں گذشتہ دہائیوں کے دوران کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
برازیلین ایسوسی ایشن آف اسسٹڈ رپروڈکشن کے نائب صدر، یرولوجسٹ اور اینڈرولوجسٹ موکر رافائل راڈیلی کہتے ہیں کہ ’جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی وہ سپرم کے گردش کرنے کی صلاحیت تھی۔ اس صلاحیت کے بغیر سپرم کی تولیدی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔‘
وقت کے ساتھ متاثر ہونے والے سپرم کاؤنٹ نے ماہرین صحت کو پریشان کیا ہوا ہے۔
ڈاکٹر ایڈوارڈو مرانڈا کہتے ہیں کہ ’یہ یقیناً بہت پریشان کن ہے کیونکہ ہمیں اس عمل میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کا اختتام کہاں ہو گا۔‘
اسی تحقیق کے مطابق سنہ 1970 سے 1990 کے درمیان سپرم کاونٹ میں 1.16 فیصد کمی دیکھنے میں آئی تھی جو سنہ 2000 کے بعد سے اب تک بڑھ کر 2.64 فیصد ہو گئی ہے۔
خطرناک بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور سائنسدان اس رجحان میں تمام ہی برِ اعظموں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ آخر اس مسئلہ کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ ماہرین کے مطابق اس کی پانچ ممکنہ وجوہات ہیں۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اس میں بہتری لانے کے بھی طریقہ موجود ہیں۔
موٹاپا
اگر آپ کا وزن زیادہ ہے تو یہ آپ کے سپرم کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔
موٹاپے کے باعث ایڈیپوز ٹشوز کی گروتھ میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے ایسا مواد خارج ہوتا ہے جو ٹیسٹاسٹیرون نامی ہارمون کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ یہ سپرم بنانے میں سب سے زیادہ اہم ہارمون ہے۔
مرانڈا کے مطابق موٹاپے کے باعث آکسیڈیٹو سٹریس بھی بڑھتا ہے جس کے باعث جسم میں موجود خلیے متاثر ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اسی طرح موٹاپے کا شکار شخص کے عضو تناسل کے اردگرد بھی موٹاپہ بڑھ جاتا ہے جو سپرماٹوزا کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘
خصیے جہاں تولیدی خلیوں کو سٹور کیا جاتا ہے باقی جسم سے ایک سے دو ڈگری کم درجہ حرارت پر رہنے چاہییں۔ اسی وجہ سے مردوں میں سکروٹل بیگ جسم سے باہر ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چربی میں اضافے کے باعث اعضا کی تولیدی صلاحیت کم ہو جاتی ہے یا بالکل ختم ہو سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 39 فیصد مردوں کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ دہائیوں میں سپرم کاؤنٹ گرنے کی وجوہات کیا ہیں۔
نشے کی عادت
شراب، سگریٹ، ویپنگ یعنی الیکٹرانک سگریٹس کا استعمال، چرس، کوکین اور سٹیرائڈز کا استعمال۔ آپ کو معلوم ہے کہ ان تمام اشیا میں کیا قدر مشترک ہے؟
یہ تمام مردوں میں سپرم کاؤنٹ اور کوالٹی کو متاثر کرتے ہیں۔
مرانڈ کہتے ہیں کہ ’ان میں سے کچھ چیزوں کے باعث ان خلیوں پر براہ راست اثر پڑتا ہے جبکہ باقی بالواسطہ طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان کے باعث ان ہارمونز کی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے جو خصیوں کی صحت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑی مثال ماہرین کی جانب سے ٹیسٹاسٹیرون کی تبدیلی کے لیے استعمال ہونے والی ادویات، جیلز اور انجیکشن کی دی جاتی ہے جنھیں عموماً باڈی بلڈنگ کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ مارکیٹ گذشتہ برسوں میں بڑے پیمانے پر خطرناک حد تک پھیلی ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ جب آپ جسم میں یہ ہارمون بغیر کسی وجہ کے انجیکٹ کرتے ہیں تو جسم کو لگتا ہے کہ اس کی پیداوار کی اب ضرورت ختم ہو گئی ہے۔
اس کی وجہ سے خصیوں کے سائز بھی کم ہو سکتے ہیں اور سپرم کاؤنٹ بھی گر جاتا ہے۔ اس عارضے کو ایزوسپرمیا کہا جاتا ہے۔
جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن
ایپیڈیڈمس میں سوجن کا باعث بننے والی جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں جیسے کلیمیڈیا اور گونوریا بھی اس حوالے سے نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
ایپیڈیڈمس دراصل خصیوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور یہاں سپرم سٹور کیے جاتے ہیں، اس لیے یہاں ہونے والی کسی بھی تبدیلی سے سپرم متاثر ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق سنہ 2020 میں مردوں اور خواتین میں کلیمیڈیا کے 129 ملین نئے کیس اور گونوریا کے 82 ملین نئے کیس سامنے آئے۔
ڈاکٹر راڈیلی کہتے ہیں کہ ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) بھی اس میں شامل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے باعث سپرم کی پیداوار اور یہاں تک ڈی این اے پر بھی اثر پڑتا ہے۔‘
لیپ ٹاپ گود میں لے کر بیٹھنے کی عادت
خصیے جہاں تولیدی خلیوں کو سٹور کیا جاتا ہے باقی جسم سے ایک سے دو ڈگری کم درجہ حرارت پر رہنے چاہییں۔ اسی وجہ سے مردوں میں سکروٹل بیگ جسم سے باہر ہوتا ہے۔
گذشتہ دہائی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق گذشتہ دہائی میں لیپ ٹاپ کو گود میں رکھنے کی عادت سپرم کاؤنٹ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔
زہریلے مادے
ماہرین زہریلے مادوں کی طرف بھی توجہ مبذول کراتے ہیں جنہیں عام طور پر اینڈوکرائن ڈسٹرپٹرس کہا جاتا ہے۔
یہ فضا میں پائے جانے والی آلودگی کے ساتھ ساتھ پلاسٹک اور کیڑے مار ادویات میں بھی پائے جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ان مالیکیولز کی ساخت ہمارے جسم میں ہارمونز سے بہت ملتی جلتی ہے۔ جس طرح ایک چابی تالے میں داخل ہوتی ہے، یہ مادے سیل ریسیپٹرز میں فٹ ہونے کا انتظام کرتے ہیں اور کچھ ناپسندیدہ عمل کو متحرک کرتے ہیں۔
حالیہ تحقیق میں دریافت ہونے والی ان نئی چیزوں میں سے ایک کا تعلق تولیدی کے ساتھ بتایا گیا ہے تاہم ابھی اس حوالے سے تحقیق جاری ہے۔
ریڈلی کہتے ہیں کہ ’لیکن ہم ابھی تک اس مسئلے کی حد تک یقینی طور پر نہیں جانتے ہیں اور اس کا تعین کرنے کے لیے بہت سے تحقیق جاری ہیں۔‘
باپ بننے کی صلاحیت میں کمی
سپرم کاؤنٹ کم ہونے کے پیچھے ماحولیاتی اور زندگی گزارنے کے طرز عمل کے عوامل کے علاوہ دو اندرونی مسائل ہیں جو اس رجحان میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ان میں سے پہلا جینیاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بچہ پیدا کرنے میں دشواری کے 10 سے 30 فیصد کیسز کا تعلق مرد کے ڈی این اے میں دشواری سے ہوتا ہے۔
دوسرا عمر بڑھنے سے متعلق ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مردوں کا عمر کے ساتھ باپ بننے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ تولیدی صلاحیت زندگی بھر کم رہتی ہے۔ اگرچہ مردوں میں یہ کمی خواتین کی طرح اتنی واضح نہیں ہے، لیکن ہارمونز میں کمی ہے جو سپرمز کی پیداوار کے لیے اہم ہیں۔‘
اگر ہم غور کریں کہ سپرمز کی تعداد میں 50 سالوں میں 51 فیصد کمی آئی ہے اور جس رفتار سے یہ واقع ہو رہا ہے اس میں گذشتہ دو دہائیوں میں تیزی آئی ہے تو کیا یہ رجحان صفر کے قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے؟
اگر سپرم کاؤنٹ گرنے کی یہ شرح موجودہ شرح کے اعتبار سے گرتی رہی تو 2050 تک اس میں تولیدی خلیوں کا ارتکاز صفر کے قریب ہو جائے گا۔ لیکن مرانڈا کا ماننا ہے کہ ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔
مرانڈا کے مطابق ’صورتحال خراب ہونے کا رجحان ہے، لیکن کسی وقت یہ عمل رک جائے گا، شاید ایسا نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے ممکن ہو گا۔‘
بچاؤ کے طریقے
ان لوگوں کے لیے جو بچہ پیدا کرنا چاہتے ہیں کامیابی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ اپنی طرز زندگی میں کچھ تبدیلیاں لائیں اور اس طرح خصیوں کے لیے نقصان دہ عادات کو ختم کریں۔
مثال کے طور پر متوازن غذا اور باقاعدہ جسمانی ورزش کے ذریعے وزن کو برقرار رکھنا یا کم کرنا شامل ہے۔ شراب، سگریٹ اور دیگر منشیات سے پرہیز یا مکمل طور پر پرہیز کرنا بھی ایک بنیادی ضرورت ہے۔
اگر آپ کے جنسی تعلقات تفریحی ہیں تو کلیمائڈیا سمیت دیگر انفیکشن سے بچنے کے لیے کنڈوم کا استعمال کرنا ضروری ہے۔
جن لوگوں کو ابتدائی جوانی میں ایچ پی وی کے خلاف ویکسین لگائی جاتی ہے وہ اس وائرس اور جسم میں اس کے اثرات سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔
اگر معمول میں ان تمام تبدیلیوں کے باوجود بچہ پیدا کرنے میں دشواری برقرار رہتی ہے، تو ڈاکٹر سے فوری طور پر رجوع کیا جائے۔
قومی اور بین الاقوامی رہنما اصولوں کے مطابق علاج کی نوعیت کا دارومدار عورت کی عمر پر منحصر ہو گا۔
مرانڈا کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کی عمر 35 سال سے کم ہے، تو جوڑے کو ایک سال تک بچہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
’ہفتے میں تقریباً تین بار باقاعدگی سے جنسی ملاپ کے ساتھ یہ عمل جاری رکھنا چاہیے۔‘
تاہم اگر جوڑے کی عمر 35 سال سے زیادہ ہے تو چھ ماہ سے زیادہ حاملہ ہونے میں دشواری خطرے کی گھنٹی کی طرح ہے۔
ریڈلی کے مطابق ’ریسرچ میں جوڑے کو ممکنہ وجوہات کو تلاش کرنے اور بہترین علاج کی نشاندہی کرنے کے لیے شامل کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اگر مسئلہ مرد میں ہو تو ماہرین عام طور پر اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور وٹامن سپلیمنٹ تجویز کرتے ہیں جو خصیوں کی حفاظت میں مدد دیتے ہیں۔
مرانڈا کے مطابق ’یقیناً ادویات اور سرجری کے ذریعے کچھ بیماریوں کو درست کرنا ممکن ہے جو مسئلہ کی اصل میں ہیں۔‘
آخری حربے کے طور پر جوڑے معاون تولیدی تکنیکوں کا سہارا لے سکتے ہیں جیسے کہ وٹرو فرٹیلائزیشن۔