(گزشتہ سے پیوستہ)
مشرقی پاکستان کے سانحے پر لکھنا بہت مشکل کام ہے، خاص طور سے پاکستان جیسے ملک میں جہاں اکیاون برس گزرنے کے بعد بھی اِس سانحے سے جُڑی تمام جماعتیں ، طاقتیں اور گروہ آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے 1971 میں تھے۔ امریکہ میں تو کچھ عرصے بعد خفیہ دستاویزات تک عوام کورسائی دے دی جاتی ہے چاہے وہ دستاویزات سی آئی اے ، ایف بی آئی ، وائٹ ہاؤس یا محکمہ خارجہ کے قبضے میں ہی کیوں نہ ہوں مگر اپنے ہا ں یہ کام ممکن نہیں ۔اِس موضوع پر لکھنا اِس لئے بھی مشکل ہے کہ یہ تحقیق طلب کام ہے جس میں حقائق صرف اسی صورت میں تلاش کئےجا سکتے ہیں اگر ہم یہ بھول جائیں کہ ہمیں اسکولوں میں کیا پڑھایا گیااور سرکاری محکموں میں کیارٹایا گیا ہے۔مدعاصرف اتنا ہے کہ ہمارے تعصبات چاہے وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی وجہ سے ہوں یا کسی محکمے میں نوکری کی وجہ سے، اُن سے جان چھڑائے بغیر اِس قسم کے سانحات کی وجوہات کا درست تعین کرناممکن نہیں ۔سانحہ مشرقی پاکستان کی کئی وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں ، اُن پر بحث ہوسکتی ہے، حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پر بھی سوال اٹھایاجا سکتا ہے ،سیاسی ناکامی اور فوجی شکست کا تقابل بھی کیا جا سکتا ہے مگرشرط یہ ہے کہ ہم کھلے ذہن کے ساتھ اِس واقعے کے تمام پہلوؤں کی پڑتال کریں اور دیکھیں کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی اور غلطی تلاش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے یہ تسلیم کیا جائے کہ غلطی کسی بھی فریق، گروہ، جماعت یا ادارے سے ہوسکتی ہے اور کوئی اِس سے مبرّا نہیں ۔چلئے اسی سوال کو لے لیں کہ سقوط مشرقی پاکستان سیاسی ناکامی تھی یا فوجی ؟ اِس سوال کے جواب کے لئے تو کسی ابن خلدون کی ضرورت نہیں ، تاریخ اٹھائیں اور دیکھیں کہ اُس وقت اختیار کس کے پاس تھا، آپ کو پتا چلے گا کہ 27اکتوبر 1958 سے 20 دسمبر1971تک سیاسی اور فوجی ٹوپیاں فرد واحد نے باری باری پہنیں، اِسلئے مشرقی پاکستان میں ہونے والی شکست کے سیاسی یا فوجی ہونے کی بحث بلکہ سوال ہی سرےسے غیر متعلق ہوجاتا ہے۔
کچھ اعتراضات حمود الرحمٰن کمیشن پر بھی کیے جاتے ہیں مثلاً یہ کہ کمیشن نے جنرل یحییٰ خان کی ناجائز فوجی حکومت کے تو خوب لتے لئے مگر جس وقت جنرل یحییٰ صاحب مارشل لا لگا رہے تھے اُس وقت حمود الرحمٰن صاحب خاموش تماشائی بن کر کیوں بیٹھے رہے؟ یا یہ کہ جسٹس حمود الرحمٰن نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے خلاف فیصلہ کیوں نہ سنایا وغیرہ۔ یہ اعتراضات درست نہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ 14اگست 1973 سے پہلے پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے پاس آئین کی موجودہ شق 184(3)کی طرح از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں تھا۔ حمود الرحمٰن کمیشن میں جسٹس حمود الرحمٰن کے علاوہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس انوار الحق ، چیف جسٹس سندھ بلوچستان جوائنٹ ہائی کورٹ جسٹس طفیل علی عبدالرحمٰن کے علاوہ دو جج صاحبان اورلیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کا ایک ریٹائرڈافسر بطور عسکری مشیر بھی شامل تھا۔3جولائی 1977 ، مارچ 1981، جنوری 2000اور نومبر2007 کے پی سی او کے برعکس اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی حاضر جج کو 1958 یا 1969 کے متعلقہ پی سی او کے تحت کبھی بھی سرسری طور پر نہیں ہٹایا گیااور نہ ہی نیا حلف لینے کو کہا گیا۔چیف جسٹس حمود الرحمٰن نے پانچ ججوں کی فل کورٹ کی سربراہی کرتے ہوئے عاصمہ جیلانی کی درخواست کی سماعت کی اور جنرل یحییٰ کے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا، یہی نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ نے 25 مارچ 1969 اور اپریل 1972 کے دوران نافذ کئے گئے تمام قوانین کالعدم قراردے دیے۔جسٹس کیانی مرحوم سے بھی ایسا ہی ایک سوال ایوب خان کی مارشل لا حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں کیاگیا تھا، اُنکا سیدھا سادہ جواب انہی کی کتاب میں درج ہے کہ ’’ہماری عدالت میں مارشل لا کو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔‘‘یہاں ایک ڈاکومنٹری فلم کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو گزشتہ برس جاوید جبار نے بنائی، موصوف نے اِس فلم میں’’اصل سچائی کو بے نقاب ‘‘کرنے کا دعویٰ کیا اور اصل سچائی اُن کے نزدیک یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں نوّے ہزار فوجیوں نے نہیں بلکہ تیس ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے، تین لاکھ بنگالیوں کا قتل نہیں ہوا بلکہ فقط چند ہزار بنگالی مارے گئے اور اسی طرح چند سو بنگالی عورتوں کا ریپ ہواہوگا۔بالفرض محال اگر ہم یہ اعداد و شمار درست بھی مان لیں تو کیا ِاِس سے ہمارا جرم معاف ہوجائے گا؟ دراصل شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کے جو دعوے کئے اُن میں بے حد مبالغہ تھا ، اُن دعووں کو سرمیلا بوس نامی ایک تاریخ دان نے غلط قرار دیا ، ہمارے مہربان اپنی ہر گفتگو میں جھٹ سے اسی کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اُس کا درست اندازہ لگانا کسی ایک شخص کے لئے ممکن ہی نہیں ، اِس کے لئے تو نیورمبرگ کی طرز پربین الاقوامی کمیشن قائم ہوتا جو تمام متاثرہ لوگوں کی گواہیاں ریکارڈ کرتا تو معلوم ہوتا کہ کتنے بنگالی قتل ہوئے اور کتنی عورتوں کا ریپ ہوا مگر سچ پوچھیں تو اِس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نیورمبرگ ٹرائل کے باوجود آج بھی ایسےلوگ موجود ہیں جو ہولوکاسٹ کے انکاری ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ اُس وقت ستّر لاکھ یہودی آبادی ہی نہیں تھی تو ہٹلر نے اتنے یہودی کیسے مار دیے؟ظاہر ہے کہ یہ ایک لا حاصل بحث ہے۔ جو ڈاکومنٹری جاوید جبار نے بنائی ، اُس میں بہت نایاب فوٹیجز ہیں جن تک رسائی حاصل کرنا انہی کا کام تھا مگر جیسا کہ ہمارا المیہ ہے ، اپنی تمام تر قابلیت اور انگریزی پر عبور ہونے کے باوجودجاوید جبار صاحب نے تاریخ کودرست کرنے کی بجائے اسے یہ کہہ کر مزید مسخ کردیا کہ مشرقی پاکستان کا ٹوٹنا سیاسی ناکامی تھی۔ جس ملک کی اشرافیہ آمر کا دست و بازو بننے میں ندامت محسوس کرنے کی بجائے فخر محسوس کرے، اُس ملک کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ دسمبر 1971 میں ہوا، افسوس کہ ہم اب بھی دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔