تین ہفتوں سے پاکستان کے ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے نیوز سائیکل کا آغاز ا ور انجام اس سوال تک محدود ہوچکا ہے کہ عمران خان صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو صوبائی اسمبلی کی تحلیل پر رضا مند کر پائیں گے یا نہیں۔مذکورہ سوال کی اہمیت سے انکار نہیں۔پاکستان مگر اٹک سے رحیم یار خان تک محدود نہیں ہے۔اٹک کے اس پار خیبرپختونخوا ہ بھی پاکستان ہے۔تحریک انصاف وہاں 2013ء سے برسراقتدار ہے۔جولائی 2018ء سے اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے کسی ’’اتحادی‘‘ کی محتاج بھی نہیں رہی۔عمران خان صاحب مگر وہاں کی صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کرنا چاہ رہے ہیں۔ان کی خواہش فی الفور بروئے کار کیوں نہیں لائے جارہی۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی تاہم کوشش ہی نہیں ہوئی۔
دریں اثناء تقریباََروزانہ کی بنیاد پر گزشتہ چند دنوں سے واقعات رونما ہورہے ہیں جو واضح طورپر عندیہ دے رہے ہیں کہ فقط ماضی کے ’’قبائلی‘‘ علاقوں ہی میں نہیں بلکہ بنوں اور لکی مروت جیسے شہروں میں بھی ’’جہاد‘‘ کے نام پر امن وامان تباہ کرنے کی ایک نئی لہر برپا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔چند واقعات نے یہ عندیہ بھی دیا کہ صوبائی سطح پر امن وامان یقینی بنانے والے ادارے مذکورہ لہر کو روکنے کے قابل نہیں رہے۔ انہیں ریاست کے دیگر تمام اداروں کا بھرپور تعاون وسرپرستی درکار ہے۔چسکہ فروشی کے ہاتھوں یرغمال ہوا میڈیا مگر ان واقعات کی جانب توجہ ہی نہیں دے رہا۔
میڈیا ٹھوس حقائق کا کھوج لگانے کے فرض سے کنارہ کشی اختیار کرلے تو اندھی نفرت وعقیدت کے ماحول میں سازشی کہانیاں سرگوشیوں کے ذریعے فروغ پانا شروع ہوجاتی ہیں۔تحریک انصاف کے کئی حامی یہ تاثر پھیلارہے ہیں کہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خیبرپختونخواہ میں مسلسل بڑھتے واقعات ہماری ریاست کے دائمی ادارے جان بوجھ کر نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔عمران خان صاحب کو غالباََ یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ اگر انہوں نے خیبرپختونخواہ کی اسمبلی تحلیل کروادی تو اس صوبے میں ’’امن وامان کی تیزی سے بگڑتی صورتحال‘‘ نئے انتخاب کا بروقت انعقاد ناممکن بنادے گی۔’’عبوری حکومت‘‘ کا دورانیہ اس کی بدولت بلکہ بڑھانا پڑے گا۔
تحریک انصاف کے برعکس وفاقی حکومت گزشتہ کچھ دنوں سے صوبائی حکومت کو غفلت کا ذمہ دار ٹھہرارہی۔ اعدادوشمار کی بنیاد پر ’’خبر‘‘ یہ دی جارہی ہے کہ خیبرپختونخواہ کی پولیس اور دہشت گردی کے نام پر بنائے دیگر اداروں کو گزشتہ کئی مہینوں سے کماحقہ وسائل فراہم نہیں ہوئے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان صوبائی حکومت کے کلیدی وسائل فقط عمران خان صاحب کے تحفظ کو یقینی بنانے اور قائد تحریک انصاف کے ناز نخرے اٹھانے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
سازشی کہانیاں ہوں یا وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کی محدودات کی بابت ’’انکشافات‘‘ ہمیں بنیادی سوالات اٹھانے کی مہلت ہی نہیں دیتے۔پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں ’’جہاد‘‘ کے نام پر 1980ء کی دہائی سے ایک طاقت وربیانیہ اشرافیہ سے اکتائی نوجوان نسل کے وافر حصے میں کافی مقبول ہوا ہے۔ ’’دہشت گردی‘‘ کو جڑسے اکھاڑنے ‘‘ کے عزم کے ساتھ دور حاضر کی سپرطاقت دو دہائیوں تک افغانستان پر قابض رہی۔گزشتہ برس کے اگست میں بالآخر اسے ذلیل ورسوا ہوکر وہاں سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ پاکستان کے اکثر لوگوں نے اس کی بابت بہت شاداں محسوس کیا۔ طالبان کی حکومت میں واپسی کو عمران خان صاحب نے بطور وزیر اعظم پاکستان ’’غلامی کی زنجیریں‘‘ توڑنے کے مترادف بھی ٹھہرایا۔ انہیں یہ گمان لاحق رہا کہ افغانستان کی ’’آزادی‘‘ پاکستان کو توانا تر بنائے گی۔اس حقیقت پر توجہ ہی نہیں دی کہ امریکہ کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست درحقیقت جہادی بیانیہ ہی توانا تر بنائے گی۔ مذکورہ بیانیہ مسلم دنیا میں سامراجی قوتوں کے بنائے ریاستی ڈھانچے کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ اس کی کامل تباہی کا خواہش مند ہے۔
2008ء سے ہماری ریاست متعدد آپریشنزکے ذریعے مذکورہ بالا سوچ کے حامی مسلح گروہوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ریاست کی کامل لگن اور توجہ کی بدولت 2014ء سے بالآخر یہ تاثر پھیلنا شروع ہوا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے محفوظ بنادیا گیا ہے۔فوجی آپریشنز اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ہوجائیں تو ان کی جانب سے فراہم کردہ ’’صفائی‘‘ کے بعد منتخب حکومت کو ایسا ماحول تشکیل دینا ہوتا ہے جو مایوس نوجوانوں میں امید جگائے۔ تحریک انصاف کی جانب سے ’’ریاست مدینہ‘‘ کی تشکیل نو والا بیانیہ لیکن مطلوبہ امید جگا نہیں پایا۔
مسائل کے ٹھوس تناظر کا بھرپور توجہ کے ساتھ جائزہ لئے بغیر ہم ان کے حل ڈھونڈ نہیں سکتے۔’’ریاست مدینہ‘‘ کی تشکیل نو کا دعویٰ ان قوتوں کو مزید توانا بناتا ہے جو مطلوبہ ریاست کی ’’حقیقی بنیادوں‘‘ پر عمل پیرا ہونے کی دعوے دار ہوتی ہیں۔ ’’صحت کارڈ‘‘ کے ڈھنڈورے مذکورہ قوتوں کے بیانیے کا جواب نہیں۔امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے دوران ہمارے لئے کارزئی اور بعدازاں غنی حکومت کو پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہ ثابت کرنا بہت آسان تھا۔کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد ایسے واقعات کی ذمہ داری پاکستان کے ازلی دشمنوں کے سر ڈالنا مگر اب ممکن نہیں رہا۔جلد یا بدیر ہماری ریاست کو دوبارہ اپنی فوقیت ثابت کرنا پڑے گی۔ وفاقی حکومت اگرچہ فی الوقت پاکستان کو ’’دیوالیہ‘‘ سے بچانے کے اضطراب میں مبتلا نظر آرہی ہے۔ نئے انتخاب کا فوری انعقاد ٹھوس بنیادوں پر مبنی اضطراب کا ازالہ فراہم کرنہیں سکتا۔ نئے انتخاب پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ہم صحافیوں کی اکثریت اس حقیقت کو بھی بھلائے ہوئے ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت روایتی سیاست اور سیاستدانوں سے اکتاچکی ہے۔مذکورہ اکتاہٹ عوام کے کماحقہ حصہ کوریاست سے بھی بیگانہ بنارہی ہے۔ تیزی سے پھیلتی یہ بیگانگی ’’اصل اسلام‘‘ لاگو کرنے والے بیانیے کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔سازشی کہانیوں اور صوبائی حکومت کی ترجیحات ومحدودات کا طنزیہ ذکر مذکورہ بیگانگی کا مؤثر توڑ فراہم کر ہی نہیں سکتا۔