آروڑا کرسینو ڈوس سینٹوس: ایک طوائف کی غیر معمولی داستان جو نفسیاتی علاج کے دوران آرٹسٹ بن گئیں
اپنے مخصوص اور جداگانہ انداز میں 200 سے زیادہ تصاویر بنانے کے باوجود آروڑا کرسینو ڈوس سینٹوس ایک ایسی آرٹسٹ تھیں جن کو پہچان نہیں مل سکی تھی۔
ان کی زندگی میں ان کو دو ہی وجوہات کی وجہ سے جانا جاتا رہا۔ ایک طوائف ہونے کی وجہ سے اور دوسرا ان کی نفسیاتی بیماری کی وجہ سے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آروڑا نے یہ تمام پینٹنگز ایک نفسیاتی علاج کے ہسپتال میں بنائی تھیں جہاں ان میں شیزوفرینیا اور آٹزم سمیت دیگر نفسیاتی بیماریوں کی تشخیص ہوئی۔
تاہم اب ان کو بطور ایک آرٹسٹ شناخت مل رہی ہے جس کی وجہ ریو ڈی جنیریو کی پونٹیفیکل کیتھولک یونیورسٹی میں تاریخ کی طالب علم سلوانا جیہا اور فیڈرل یونیورسٹی آف ریو ڈی جنیریو میں انسٹیٹیوٹ آف سائیکالوجی کے پروفیسر جوئیل برمین کی تحقیق پر مبنی شائع ہونے والی کتاب ہے جس میں آروڑا کی درجنوں پینٹنگز شامل ہیں۔
’آروڑا: میموریز اینڈ ڈیلوزنز آف اے وومین آف لائف‘ نامی کتاب میں معاشرتی روایات کو چیلنج کیا ہے۔
بی بی سی نیوز برازیل سے بات کرتے ہوئے جیہا کا کہنا ہے کہ ’طوائفوں کو ہمیشہ سے ہی قاتلوں، منشیات سمگلرز اور چوروں کے ساتھ ایک کیٹگری میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔‘
’یہ ایک بڑے مسئلے کا حصہ ہے، ان خواتین کے خلاف جو اپنے جسم کی آزادی کی دعویدار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے قتل کیا ہو، چوری کی ہو، کسی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی ہو۔‘
پروفیسر برمین کا کہنا ہے کہ کہ ’آروڑا کا کیس ہر اس فرد کی کہانی ہے جسے عدالتی نظام سے انصاف نہیں مل سکا۔‘
آروڑا کون تھیں؟
آروڑا 1896 میں ساؤ پاولو میں پیدا ہوئی تھیں جن کے والد کا چھوٹا سا کاروبار تھا۔ انھوں نے آروڑا کی مرضی کے بغیر زبردستی اس کی شادی کر دی تاہم یہ رشتہ 24 گھنٹے بھی نہیں چل سکا۔ شادی کے اگلے ہی دن نوجوان آروڑا نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔
1910 سے 1930 کے 20 برس وہ ساؤ پاولو اور ریو ڈی جنیریو کی گلیوں میں ایک طوائف کے طور پر مشہور ہوئیں۔
اپنے پیشے سے پیسہ کما کر آروڑا نے یورپ کا سفر کیا۔ وہ صرف تیسری جماعت تک ہی پڑھ سکی تھیں لیکن انھیں ادب، کلاسیکی موسیقی اور آرٹس سے دلچسپی تھی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ پینٹنگ کرنے کے علاوہ وہ پیانو بجانا بھی جانتی تھیں اور اپنے زمانے کے بڑے فنکاروں سے اس کا رابطہ رہا تاہم یہ روابط ہر وقت مفید نہیں ہوتے تھے۔
1919 میں ایک صحافی نے جب ان سے زبردستی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی، تو آروڑا نے اسے دھتکار دیا جس پر یہ صحافی ان پر حملہ آور ہوا۔
آروڑا کے بال کھینچے گئے، کپڑے پھاڑ دیے گئے اور ان کے ہونٹ کاٹے گئے۔ آروڑا کو ایک دوست نے اس حملے سے بچایا تو انھوں نے صحافی کے خلاف مقامی پولیس سٹیشن میں شکایت کی تاہم مقدمہ آگے نہیں بڑھا۔
برازیل میں اس وقت 1890 کا پینل کوڈ نافذ تھا جس کے تحت خواتین سے ریپ کے جرم میں چھ سال قید کی سزا ہو سکتی تھی تاہم اگر متاثرہ فرد طوائف ہو تو سزا دو سال سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
اس کیس کے نتائج سے آروڑا کو اتنی مایوسی ہوئی کہ ان کی زندگی بدل گئی۔
1932 میں برازیل میں ایک نئے آئین کے لیے مسلح بغاوت ہو رہی تھی جو حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی تھی۔
آروڑا نے ساؤ پاولو میں ایک نرسنگ کورس میں داخلہ لے لیا تاکہ وہ زخمی سپاہیوں کو طبی مدد فراہم کر سکیں۔
کچھ عرصہ آروڑا نے گھروں میں کام بھی کیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلا۔ پیسے کی محتاجی نے انھیں سڑک پر لا کھڑا کیا۔ اس زمانے میں وہ گلیوں میں ہی سویا کرتی تھیں۔ پھر انھیں ایک نفسیاتی سینٹر میں دخل کروا دیا گیا۔
1941 میں آروڑا ساؤ پاولو کے نفسیاتی ہسپتال میں داخل ہو گئیں۔ تین سال بعد انھیں ساؤ پاولو سے 27 کلومیٹر دور جوکوئیری ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔
یہاں ماہر نفسیات اوسوریو سیزر موجود تھے جن کو برازیل میں آرٹ سے علاح کا مؤجد مانا جاتا ہے۔ تقریبا ایک دہائی تک آروڑا نے اپنے سارے درد آئل پینٹ کی مدد سے کینوس پر اتار دیے۔
برمین کا ماننا ہے کہ آرٹ نے نفسیاتی مریضوں کی مدد کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسی تکنیک تھی جو مریضوں کو اپنے جذبات کی ترجمانی کا موقع فراہم کرتی تھی، وہ اندر کے تنازعات کا اظہار کر سکتے تھے، اپنا درد بتا سکتے تھے۔ اس تکنیک کی بنیاد یہ تھی کہ آرٹ انسانی ارتقا کا اہم حصہ ہے اور نفسیاتی مسائل کی صورت میں اتنا ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں آروڑا نے چند صلاحیتیں پیدا کر لیں اور اپنے اندر کے ٹیلنٹ کو پہچان لیا۔
چیختی چلاتی تصاویر
اوسوریو سیزر نے 1949 میں ایک سٹوڈیو کھولا جس سے جوکوئیری فرو سکول آف پلاسٹک آرٹس نے جنم لیا۔
اوسوریو ایک کمیونسٹ تھے جنھوں نے بائیں بازو کے دیگر رہنماوں کے ساتھ کام کیا۔ آرٹ اور پاگل پن کے درمیان تعلق پر تحقیق کرنے والے وہ پہلے شخص تھے۔ اپنی تحقیق کو انھوں نے کتاب، مضامین اور دیگر اشکال میں دنیا تک پہنچایا۔
1950 میں آروڑا کی پینٹنگز کو بھی پہلی بار ایک نمائش میں دکھایا گیا۔ اوسوریو ان کی چند پینٹنگز کو فرانس میں انٹرنیشنل سائیکوپیتھالوجیکل آرٹ نمائش میں لے گئے۔
ان تصاویر میں رنگ نمایاں ہیں جن میں تحریر اور تصویر کا ایک غیر معمولی امتزاج نظر آتا ہے۔ آروڑا کی لکھائی گاڑھی ہے اور ان کے بڑے حروف عام طور پر انسانی اشکال میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کی تصاویر میں دنیا بھر کے ادیبوں اور مصنفین کے کام کا حوالہ بھی موجود ہے جن میں اناٹولے فرانس، امیلی زولا، الیگذینڈر ہرکولانو، کمپوزر لڈوگ بیٹ ہوون اور فروڈرک چوپن۔۔۔ یورپی بادشاہ، پوپ، اور برازیل کے سیاست دان بھی نظر آتے ہیں۔
جیہا کا ماننا ہے کہ یہ آروڑا کے اصلی یا تخیلاتی ماضی کی دھندلی تصاویر ہیں۔
’میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کیا حقیقت ہے اور کیا افسانہ لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ آروڑا ہمیں بیسویں صدی کی عورت کی حالت بتا رہی ہیں۔ وہ صنفی امتیاز، صنفی تشدد اور دیگر مسائل کی نشاندہی کر رہی ہیں جن پر اب بات چیت ہو رہی ہے۔‘
اجتماعی ضمیر
آروڑا کا زیادہ کام نفسیاتی ادارے میں ان کی زندگی کے بارے میں تھا۔ چند تصاویر میں اس ادارے کی بربریت اور پیشہ ورانہ زندگی کی پرانی یادوں کی آمیزش بھی نظر آتی ہے۔
ایک پینٹنگ میں ساؤ پاولو کے ایک ہوٹل میں آروڑا نے ایک برازیلین موسیقار کے ساتھ میلے بستر پر سیکس کی منظر کشی کی جبکہ ایک ڈاکٹر کونے میں کھڑا ان کو دیکھ رہا ہے۔
تصویر میں موجود عورت کے جسم میں بڑی تاریں پیوستہ ہیں جو ایک بڑے حجم کے ریڈیو جیسے آلے میں مختلف رنگ کے لیمپ جلاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ مشین ان کے اندرونی اعضا کو الگ کر رہی ہے۔
برمین کا کہنا ہے کہ اس تصویر میں جسم پر ہونے والی اذیت کی منظر کشی کی گئی ہے۔
’انھوں نے اس زمانے میں ظالمانہ نفسیاتی علاج کے دوران اپنی جسمانی پرائیویسی کی دھجیاں بکھیرے جانے کو دکھایا ہے لیکن یہ ایک ایسی عورت تھی جس نے کبھی بھی ظلم برداشت نہیں کیا۔‘
آروڑا 63 سال کی عمر میں سنہ 1959 میں انتقال کر گئیں۔ ان پر اس سے قبل مختلف طرح کے علاج آزمائے گئے تھے جن کے دوران ان کو بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور ایسی ادویات کے انجیکشن لگائے گئے جن سے جسم کو جھٹکے پڑتے تھے۔
ایسے طریقوں سے پہنچنے والا درد اور جسمانی اذیت ان کی تصاویر میں جھلکتا ہے۔
ایک تصویر میں ان کو ایک سٹریچر پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر تحریر ہے کہ ’ادھیڑ عمر عورتوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے۔ کوکین، بیماریاں، ٹی بی۔ ہمیں یہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، دوسروں کو نہیں۔‘
اس ظالمانہ نفسیاتی علاج کی آروڑا ہی شکار نہیں تھیں۔ جیہا کا کہنا ہے کہ ’ان کی پینٹنگز ایک نجی ڈائری کی طرح ہیں جس میں ایسی باتیں لکھی جاتی ہیں جو ہم کسی سے کہہ نہیں سکتے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا ماننا ہے کہ آروڑا نے اس ضمیر کی ترجمانی کی جب ہزاروں خواتین کو علاج کے نام پر قید کیا گیا۔‘
ایک ماں
آروڑا کی تصاویر میں ایک جانب چرچ کے نمائندوں پر تنقید کی گئی تو دوسری جانب ایسی تصاویر کی منظر کشی بھی کی گئی جن میں سے ایک میں چہرے پر مسکراہٹ لیے ایک راہب ایک بچے کے سکرٹ میں ہاتھ ڈال رہا ہے جس کے منہ سے خون بہتا دکھائی دیتا ہے۔
ان تصاویر میں مامتا کی خواہش کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔ ایک تصویر میں آروڑا کو پیدائش کے عمل کے دوران دکھایا گیا ہے جس میں بچہ ضائع ہوتا ہے۔
پاولو فریلیٹی ایک ماہر نفسیات تھے جنھوں نے 1954 میں کہا کہ ’ایک بار ہمارے سامنے اس نے اپنی برہنہ تصویر بنائی جس میں اس نے دکھایا کہ اس نے نو بچے پیدا کیے۔‘
اس تصویر کا جیہا پر کافی اثر ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے اپنا بیٹا یاد آ گیا۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے جس سے اپنائیت جھلکتی ہے۔ ماں کا درد اس سے بہتر طریقے سے بتانا ناممکن ہے۔‘
جیہا کا کہنا ہے کہ ’پاگل پن ایک ایسی کیفیت ہے جسے خواتین سے منسلک کیا جاتا ہے۔ جب لوگ ہماری تذلیل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے عام لفظ کیا ہے جو استعمال کیا جاتا ہے؟ پاگل۔‘