بغیر پائلٹ والے کارگو طیارے جن پر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نظریں ہیں
سوائلن رینجلوف نے متاثر کن داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے آٹھ سال سے یہ داڑھی بڑھا رکھی ہے۔
انھوں نے داڑھی اس وقت سے بڑھانی شروع کی جب انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی اور ایئرو اسپیس انجینئر کے ساتھ مل کر ڈرونامکس کی بنیاد رکھی جو کہ کارگو ڈرونز کے ابھرتے ہوئے بازار میں یورپ کا جواب تھی۔
انھوں نے اپنے بھائی کونسٹینٹائن کے ساتھ مل کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ اپنے آبائی علاقے بلغاریہ میں بنائے جانے والے ڈرون کی پہلی پرواز کے بعد ہی اپنی داڑھی منڈوائیں گے۔
جب انھوں نے ڈرونامکس کی بنیاد رکھی تھی اس وقت ایمیزون جیسی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں گھریلو ایڈریس پر ڈرون کے ذریعے سامان کی ترسیل کا تجربہ کر رہی تھیں۔ لیکن مسٹر رینجلوف کو ڈرون کے ذریعے ذاتی سامان گھر گھر پہنچانے کا تصور کبھی بھی نہیں بھایا۔
کسی کے گھر کے دروازے تک ڈرون کے ذریعے سامان پہنچانے میں جو عملی مشکلات درپیش تھیں وہ مسٹر رینجلوف کے سامنے واضح تھیں۔ انھوں نے کہا: ‘ہم چھوٹے ڈرون کے تصور سے متفق نہیں تھے۔ اور ہم نے ایک مختلف طریقہ اختیار کیا۔’
ان کے خیال میں ڈرون کے ذریعے ترسیل اس وقت نتیجہ خیز ہو سکتی تھی جب اس کے بڑے نمونے یعنی کارگو یا سامان بردار طیارے کو عملی جامہ پہنایا جاتا۔
مسٹر رینجلوف کا کہنا ہے کہ یہ نمونہ دیکھنے میں روایتی ہلکے پھلکے طیارے کی طرح ہے جس میں پائلٹ کا کیبن نہیں ہوگا اور سستے الیکٹرانکس کا استعمال کرتے ہوئے یہ ڈرونز ‘سیل فون اکنامکس’ پر مبنی ہوں گے جن میں چھوٹے رن وے پر اترنے کی صلاحیت ہو گی۔
نام: ‘بلیک سوان’ یا سیاہ ہنس
اسے ‘بلیک سوان’ یا سیاہ ہنس کے نام سے جانا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ‘یہاں بلغاریہ میں ہوائی کارگو کا مطلب یہ ہے کہ ایک بڑا ہوائی جہاز سامان لاتا ہے جسے ٹرک کے ذریعے اس جگہ بھیجا جاتا ہے جہاں پر اس کی چھنٹائی ہوتی ہے اور پھر اگلے مرحلے کے لیے اسے وہاں سے منفرد مقامات کے لیے ٹرک سے روانہ کیا جاتا ہے۔’
ان کا خیال ہے کہ سامان کو جس فرد تک پہنچنا ہے اگر اس کے قریب چھوٹی ہوائی پٹی پر چھوٹے ہوائی کارگو کے ذریعے سامان پہنچایا جائے تو خرچ میں کمی آئے گی اور ٹرک کا کام ختم ہو جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘یورپ بھر میں 3000 ہوائی پٹیاں ہیں، اور یہ بہت ہیں۔’
بلیک سوان ہلکے وزن کے مرکب والے مواد (جو ان کے بھائی کا مخصوص شعبہ ہے) اور معیاری پسٹن انجن کے امتزاج کو مجسم بناتا ہے۔ اس میں کم پیٹرول خرچ ہوگا جبکہ ڈرون اپنے مؤثر ایندھن والے پروں کے ذریعے دور دراز کا سفر کرتا ہے۔
یہ پورا پیکج 20,000 فٹ کی بلندی پر پرواز کرے گا جو کہ زیادہ تر مسافر بردار طیاروں کے راستے سے نیچے پرواز کرے گا۔
ڈرونامکس اس بلندی والی سطح پر کارگو طیاروں کے پرواز پر غور کر رہا ہے کیونکہ اس کے مطابق یہ بلندی استعمال میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک نئے مصنوعی ہوابازی کے ایندھن کی بھی جانچ کر رہا ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ کاربن نیوٹرل ہوگا۔
بلیک سوان پر 350 کلوگرام وزن کا سامان ڈھویا جا سکتا ہے جو کہ ایک چھوٹی کوریئر وین کے برابر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم شہر کو شہر سے جوڑ رہے ہیں، نہ کہ گھر گھر کو۔’
‘یورپ کی پہلی ڈرون کارگو ایئر لائن’
ڈرونامکس بلیک سوانز کو ایئر لائن کی طرح چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے مطابق یہ ‘یورپ کی پہلی ڈرون کارگو ایئر لائن’ ہوگی۔ یہ وزن کے حساب سے یا چارٹر کے حساب سے کرایہ وصول کرے گی اور اس کے ذریعے ضروری سامان، پرزے اور آلہ جات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کم خرچ میں اور جلدی پہنچایا جا سکے گا۔
لاجسٹکس کے شعبے کی بڑی جرمن کمپنی ہیلمین ان ڈرونز کا استعمال شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ کلینے لاستھوئس اس کے انچارج ہیں اور انھوں نے ایئر فریٹ میں طویل عرصہ گزارا ہے۔
مسٹر کلینے لاستھوئس کے مطابق ان نئے ڈیزائنوں سے روایتی ہوائی مال بردار طیاروں کو مقابلے کا سامنا نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان ڈرونز کے ذریعے ہیلمین کو سامان بھیجنے میں آسانی ہوگی جو پہلے وہ سڑک سے بھیجتی تھی۔
مسٹر کلینے لاستھوئس کا کہنا ہے کہ بیلمین فوری طور پر کارگو ڈرون کے ذریعے یونانی جزیروں کو جوڑنا چاہتا ہے۔
انھوں نے کہا: ‘یہ ڈرونز کشتیوں سے زیادہ بار چکر لگائیں گے اور ہم سامان کو کئی پیکجوں میں تقسیم کر دیں گے تاکہ سامان کی فراہمی کا چکر بڑھایا جا سکے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہوگی اور یہ تیز رفتار اور لچکدار متبادل پیش کرتے ہیں۔’
ڈرونامکس اپنے کارگو طیاروں کے لیے 2,500 کلومیٹر (1500 میل) تک کے سفر کا دعویٰ کرتا ہے، جس سے پورا مغربی یورپ ان کے دائرے میں ہوگا اور یورپی یونین میں قائم کوئی بھی کارگو ہب اس کی حد میں آئے گا۔
اگر چہ ان ڈرونز کے چھوٹے ورژن پہلے سے ہی بلغاریہ میں پرواز بھر رہے ہیں لیکن اس کا طیارے کی شکل کا بڑا روپ سنہ 2023 کے اوائل میں مائل پرواز ہوگا۔
ڈرونامکس کا کہنا ہے کہ یورپی ایئرو سپیس ریگولیٹر کو ان کے منصوبہ بند آپریشنز سے آگاہ رکھا گیا ہے اور انھیں کام کرنے کا ایک محدود لائسنس بھی دیا گیا ہے۔ ہیلمین کمپنی سنہ 2023 کے دوران انھیں شروع کرنے کے بارے میں بات کر رہی ہے۔
مسٹر کلینے لاستھوئس اس خیال سے متفق ہیں کہ دروازے دروازے ڈرون کی ترسیل کا ماڈل نہیں چلے گا۔ اس لیے انھوں نے کہا: ‘میں نے پارسل ڈرون کے خیال پر کبھی بھی یقین نہیں کیا۔ اسی لیے ہم ڈرونامکس کے ساتھ کام کر رہے ہیں، اور یہ ایمیزون ڈیلیوری قسم کا آئیڈیا نہیں ہے۔’
امریکی کمپنی کی دلچسپی
کارگو ڈرونز کے خیال نے دنیا بھر میں ہیلی کاپٹر چلانے والے امریکی گروپ برسٹو کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ برسٹو نے کیلیفورنیا کی ایک کمپنی ایلروئے ایئر سے تقریبا 100 کارگو ڈرونز خریدنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا ہے۔
جہاں مسافروں کو لے جانے والے الیکٹرک ورٹیکل ٹیک آف (ایوٹول) کے ڈیزائن میں تمام الیکٹرک پاور موجود ہے لیکن ایلروئے ایئر کارگو ڈرون ہائبرڈ الیکٹرک انجن پر چلیں گے۔ اس میں ایک چھوٹی ٹربائن ہوگی جو برقی طاقت پیدا کرتی ہے اور ہوا بازی کے ایندھن کے طور پر کام کرے گی۔
ہائبرڈ ڈیزائن کا مطلب ہے کہ یہ ڈرونز بجلی کے چارج کے لیے ڈاکنگ سٹیشنوں پر نہ جانے کے بجائے موجودہ سہولیات پر ہی ایندھن بھر سکتے ہیں۔ اور یہ کہ اس میں ہیلی کاپٹر کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم ایندھن جلتا ہے۔
کارگو ڈرون آپریشنز کا مطالعہ کرنے والے برسٹو کے ایگزیکٹو اور یو ایس میرین کور کے ایک سابق ہیلی کاپٹر ٹیکنیشن ڈیوڈ سٹیپانیک کا کہنا ہے کہ ‘خالص الیکٹرک پاور کا مطلب ہے کہ آپ کا چارجنگ بیس کہاں ہے اور اس لیے آپ مجبور ہیں۔’
برسٹو مغربی افریقہ جیسے مقامات پر جہاں اسے آف شور آئل انڈسٹری کو سامان منتقل کرنے کی ضرورت ہے وہں اپنے آپریشنز کے بیک کے طور پر ایلروئے ڈرونز کا استعمال کرنے پر غور کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی برسٹو ہیلی کاپٹر اور فکسڈ ونگ ہوائی جہاز کے استعمال کے اخراجات کو کم کرنا چاہتا ہے۔
ایلوری ايئر ایک بڑے ملٹی انجن والے، عمودی ٹیک آف ڈرون پر کام کر رہا ہے جو 100 کلوگرام تک بوجھ اٹھا سکے اور 480 کلومیٹر کا سفر طے کر سکے۔
ایلروی ایئر کے کوفی اسانٹے نے اوبر کے مال بردار شعبے میں خود کار ٹرکوں پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کارگو پوڈ کا خیال خود کار ٹرک کے چیسس سے منسلک اور یہ کارگو ڈرون کے لیے بھی کام کرتا ہے۔
انھوں نے امریکی ضابطہ کار فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی (ایف ایف اے) کے ساتھ رابطے کو ‘بہت مثبت’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2022 کے آخر تک مکمل سائز کے ڈرون کی آزمائشی پرواز کا منصوبہ ہے۔
آٹھ میٹر یا 26 فیٹ سے زیادہ چوڑائی والا ڈرون، جس کا نام چپارل ہے وہ بغیر عملے کے سول ڈرون معیارات کے لحاظ سے بڑا ہے۔ لیکن مسٹر اسانٹے کا کہنا ہے کہ سائز ہی اصل نکتہ ہے۔
‘یہ چھوٹے یو اے وی (بغیر پائلٹ والی فضائی گاڑی) کے مقابے سو گنا زیادہ وزن ڈھو سکتا ہے، بوجھ کے لحاظ سے اس کا ایک چھوٹے طیارے سے موازنہ ہے لیکن ایک ہیلی کاپٹر پر آنے والی لاگت سے بھی کم پر چلتا ہے۔’
ہو سکتا ہے آپ جلد کسی بھی وقت اپنے گھر کے پتے پر فلائنگ ڈرون کے ذریعے ڈیلیوری کا آرڈر نہ دے سکیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک ڈرون خواب کی موت نے ایک اور زیادہ عملی تصور کے پروان چڑھنے کا راستہ کھول دیا ہے۔
اور اس کی کامیابی سے ڈرونامکس میں کلین شیون لیڈر شپ کا آغاز ہو سکتا ہے۔