وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر…
27 دسمبر 2007 کی شام ادھر سورج غروب ہو رہا تھا، اُدھر بھٹو کی چہیتی کی نبضیں ڈوب رہی تھیں۔ راولپنڈی کے جنرل ہسپتال میں ڈاکٹروں نے 35 منٹ تک بھٹو خاندان کی چشم و چراغ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر 6 بج کر 16 منٹ پر اعلان کر دیا۔ بھٹو کی بیٹی دنیا میں نہیں رہی تھی۔ جس نے بھی یہ خبر سنی، دل تھام لیا۔
یہ ان کی دوسری وزارتِ عظمیٰ تھی جب کراچی میں مرتضیٰ بھٹو قتل کر دیئے گئے تھے ( 20 ستمبر 1996)۔ تب سے یہ احساس ان کے رگ و پے میں بہت گہرا اتر گیا تھا کہ اگلا نشانہ وہ ہوں گی۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے بھی متعدد بار یہ بات کہی: میرے والد کو پھانسی، پھر پیرس میں شاہنواز کی پُراسرار موت اور اب مرتضیٰ کا قتل‘ اس میں میرے لیے یہ پیغام ہے کہ میں سیاست سے دستبردار ہو جائوں‘ ورنہ میں بھی مار دی جائوں گی تاکہ پاکستان کی سیاست میں بھٹو فیکٹر ختم ہو جائے۔
مرتضیٰ کے قتل کے ڈیڑھ ماہ بعد (5 نومبر کی شب) ان کے ”اپنے‘‘ صدر فاروق لغاری نے آئین کے آرٹیکل 58(2)بی کے تحت ان کی حکومت برطرف (اور قومی اسمبلی تحلیل) کر دی۔ اب انتخابی مہم میں ان کے سر پر کالی چادر تھی لیکن بھائی کی جواں مرگ ان کے حق میں ہمدردی کی لہر نہ اٹھا سکی۔ پروپیگنڈے کے ماہرین نے عوام کے ایک بڑے حصے کو باور کرا دیا تھا کہ اس قتل کے پیچھے خود آصف زرداری ہیں۔ یہ ان کے لیے دُہرا صدمہ تھا لیکن انہوں نے خود کو سنبھالے رکھا۔
6 فروری 1997 کے انتخابی نتائج ان کے لیے نیا صدمہ لائے۔ پیپلز پارٹی صرف سندھ سے قومی اسمبلی کی ڈیڑھ درجن سیٹیں جیت پائی تھی، باقی 3 صوبوں میں اس کا صفایا ہو گیا تھا۔ ان کا سیاسی حریف (نواز شریف) اب دو تہائی اکثریت کے ساتھ دوبارہ وزیر اعظم بن گیا تھا‘ لیکن انہوں نے حوصلہ نہ ہارا۔ 13ویں اور 14ویں ترمیم کی منظوری کے وقت وہ خود پارلیمنٹ میں موجود تھیں اور ان ترامیم کی منظوری ان کی مکمل تائید کے ساتھ عمل میں آئی تھی (13ویں ترمیم 58(2)بی جیسے صدارتی اختیارات کے خاتمے اور 14ویں ترمیم فلور کراسنگ پر پابندی کے لیے تھی) لیکن بدقسمتی سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں تعاون اور خیر سگالی کی یہ فضا زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ ان کے (اور زرداری صاحب کے) خلاف کرپشن کے مقدمات آگے بڑھ رہے تھے۔ 15 اپریل 1999 کو انہیں 5 سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی گئی لیکن اس سے قبل وہ بیرونِ ملک چلی گئی تھیں۔
یہ ان کے لیے سخت آزمائش کا دور تھا۔ آصف زرداری پاکستان میں حوالۂ زنداں تھے۔ والدہ دبئی والے گھر میں ہوش و خرد سے بیگانہ تھیں۔ بلاول، بختاور اور آصفہ کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری الگ تھی لیکن انہوں نے حوصلہ نہ ہارا۔ جنرل مشرف برسر اقتدار آئے تو ان کی یہ خوش فہمی فطری تھی کہ اب دن بدل جائیں گے اور عوامی مینڈیٹ سے محروم حکمران سیاسی حمایت کے حصول کے لیے معزول وزیر اعظم کے مخالفین کی طرف ہاتھ بڑھائے گا‘ لیکن اس نے اپنے دل کے دروازے بند رکھے۔ تب انہوں نے امریکی روابط سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور واشنگٹن میں اقتدار کی راہداریوں کے ساتھ موثر روابط کے لیے کوشاں رہیں۔ ایک عرصے تک بش ایڈمنسٹریشن نے انہیں فاصلے پر رکھا کہ اسے پرویز مشرف کی خوشنودی عزیز تر تھی جو نائن الیون کے بعد وائٹ ہائوس کے دکھ سکھ کے ساتھی بن گئے تھے‘ اور صدر بُش پاکستان کو اپنا ”نان نیٹو اتحادی‘‘ قرار دینے لگے تھے۔ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کارل انڈر فرتھ کے بقول: وہ کمال درجے کی ”نیٹ ورکر‘‘ تھیں اور رابطوں میں لگی رہتیں۔ انہوں نے امریکہ کی پولیٹیکل، ڈپلومیٹک اور میڈیا ایلیٹ میں ”نیٹ ورکنگ‘‘ جاری رکھی۔
بش ایڈمنسٹریشن کے حکام کے مطابق وہ بڑے تذبذب کے ساتھ ان کی طرف ملتفت ہوئے تھے‘ جب صدر پرویز مشرف کی اپنی سیاسی غلطیوں اور اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے دبائو کے باعث اقتدار پر ان کی گرفت کمزور ہو گئی اور خطرہ محسوس ہونے لگا کہ بُش کا دوست اور امریکہ کا ”نان نیٹو اتحادی‘‘ گہرے بھنور میں پھنس جائے گا۔ موسم گرما میں جب ملک بھر میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی حمایت زوروں پر تھی، سیاسی جماعتوں، وکلاء اور سول سوسائٹی سمیت پوری قوم سڑکوں پر نکل آئی تھی۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں آپریشن پر غم و غصہ کی وسیع تر لہر بھی موجود تھی۔ بش ایڈمنسٹریشن اس نتیجے پر پہنچی کہ اب بے نظیر بھٹو کے ساتھ پاور شیئرنگ ہی مشرف کو برسرِ اقتدار رکھنے کا واحد راستہ ہے؛ چنانچہ 5 اکتوبر کے این آر او کی صورت میں ”ڈیل‘‘ ہو گئی‘ لیکن ان کی پاکستان واپسی انتخابات کے بعد ہونا تھی۔ وہ اس ”مفاہمت‘‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 18 اکتوبر کو کراچی پہنچ گئیں۔ استقبالی جلوس میں 2 بم دھماکوں نے سارا منظر بدل دیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد افراد جان سے گئے۔ انہوں نے اس کا الزام اس دور کے آئی بی سربراہ اور دو وزرائے اعلیٰ پر لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے لیے روانگی سے قبل ہی صدر مشرف کے نام ایک خط میں ان تینوں کے نام لکھ دیے تھے۔ تین نومبر کی ایمرجنسی پلس (جس پر خصوصی عدالت نے گزشتہ دنوں مشرف کو سزائے موت سنائی) کے وقت وہ دبئی میں تھیں۔ اس سے اگلے ہی روز وہ پاکستان واپس پہنچ گئیں۔ انہوں نے ایمرجنسی پلس کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور مشرف سے مفاہمت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران انہوں نے سیاسی اشتراکِ عمل کیلئے نواز شریف سے بھی رابطہ کیا اور آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز پیش کی۔ اپنے جواب میں نواز شریف نے افتخار محمد چودھری سمیت 3 نومبر والے تمام ججوں کی بحالی کو نکتہ اوّل بنانے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہر طرح کے رابطے منقطع کرنے پر زور دیا۔
25 نومبر کو نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد سیاست ایک نیا رخ اختیار کر گئی (دونوں بھائی اکٹھے لاہور ایئر پورٹ پر اترے تھے) لیکن انتخابی مہم میں میاں صاحب اور محترمہ نے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ محترمہ قاف لیگ کو ہدف بنا رہی تھیں جبکہ میاں صاحب، مشرف کو بھی نشانے پر رکھے ہوئے تھے۔ انہی دنوں ایک انٹرویو میں مشرف کا کہنا تھا کہ محترمہ، امریکہ کے ذریعے طے پانے والی باتوں کی خلاف ورزی کر رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ اتنی ناخوشگوار نہیں کہ الیکشن کے بعد ان کے ساتھ مل کر کام نہ کیا جا سکے۔
الیکشن قریب آ رہے تھے۔ عسکریت پسندوں کی طرف سے خطرات بھی بڑھتے جا رہے تھے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم میں ضروری سکیورٹی مہیا کی جا رہی ہے لیکن اس سے دو دن قبل ہی رحمن ملک کا الزام تھا کہ حکومت کے مہیا کردہ Jammers ناقص ہیں۔
27 دسمبر کا آغاز ہی تشویشناک خبروں سے ہوا تھا۔ اسی روز میاں نواز شریف بھی راولپنڈی پہنچے۔ مسلم لیگی ریلی پر فائرنگ سے چار کارکن جاں بحق ہو گئے تھے۔ ادھر لیاقت باغ میں محترمہ کا جلسہ تھا۔ جلسہ ”بحسن و خوبی‘‘ اختتام کو پہنچا تو سب نے سکھ کا سانس لیا‘ لیکن موت قریب ہی منڈلا رہی تھی‘ اور پھر المیہ ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو ان کے چاہنے والوں نے گریٹ ٹریجڈی قرار دیا تھا۔ 27 دسمبر 2007 کی شام ایک اور ”گریٹ ٹریجڈی‘‘ کے ساتھ آئی… اور کروڑوں آنکھیں اشکوں سے اور دل لہو سے بھر گئے۔
پس نوشت: گزشتہ جمہور نامہ فیض صاحب کے دو اشعار کے ساتھ اختتام کو پہنچا تھا۔ دوسرا شعر تھا۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
میجر عامر کا فون آیا۔ وہ اس پر فراز کا شعر سنا رہے تھے ؎
نہ فیض دیکھ سکے اور نہ ہم ہی دیکھیں گے
فراز صحنِ چمن میں بہار کا موسم