منتخب تحریریں

دنیا میں جنت اور دوزخ!

Share

کئی دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ کالم لکھنے کو جی نہیں چاہتا آج بھی صورتحال ایسی ہی تھی مگر کچھ دیر پہلے ایک صاحب ملنے آئے اور باتوں باتوں میں بتانے لگے کہ انہوں نے پانچ شادیاں کیں ان میں سے تین بیویاں باقی ہیں اور دونوں میں سے ایک ایک بچہ ہے ،یہاں تک تو ٹھیک تھا اس کے بعد فرمانے لگے میرے گھر میں ایک ہی کمرہ ہے اورو ہ تینوں ایک ہی کمرے میں رہتی ہیں میں نے بڑی مشکل سے سوال کے لئے مناسب الفاظ تلاش کرکے پوچھا آپ نے ان میں سے کسی سے ضروری بات کرنا ہو تو کیسے کرتے ہیں بولے مشکل سوال ہے مگر میں باقی دونوں کو کہتا ہوں کہ میں نے ایک ضروری بات کرنا ہے تم اپنے چہروں کو دونوں ہاتھوں سے چھپا کر اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کرو کہ وہ میری بات کو پر اثر بنائے پر اثر دعا کے حوالے سے ایک بہت ضروری سوال پوچھنے کا تھا کیا اس دعا کو قبولیت کا شرف حاصل ہوا کہ نہیں مگر نہیں پوچھا کہ وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے !

بات یہیں تک محدود نہیں کسی زمانے میں ایک صاحب میرے دفتر میں نائب قاصد تھے وہ ٹھیک ہر نو مہینے کے بعد میرے لئے فروٹ کیک لیکر آتے تھے اور پیش کرتے ہوئے کہتے تھے مبارک ہو آپ میرے بچے کے ’’تایا ابو‘‘ بن گئے ہیں وہ جب تک میرے گھر میں رہے میں ان کے چودہ بچوں کا تایا ابو بن چکا تھا ۔ایک دن میں نے اسے کہا بھائی اب بس بھی کرو تمہارا ایک کمرہ ہے اس میں تم اور تمہاری بیوی کے علاوہ چودہ بچے بھی رہتے ہیں بڑا بچہ بھی اب کم از کم چودہ برس کا تو ہو ہی چکا ہوگا اور ظاہر ہے سمجھ دار بھی ہو گا ،فرمایا جی اللہ کا شکر ہے بہت سمجھ دار ہے وہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے باقی چودہ بچوں کی پیدائش میں میرا کوئی دخل نہیں اولاد تو اللہ کی دین ہوتی ہے ۔میں نے کہا ٹھیک ہے مان لیتا ہوں مگر تمہاری تنخواہ اتنی کم ہے ،پالنا تو تم نے ہی ہے نا۔کہا سر پالتا بھی وہی ہے جودیتا ہے اس کے بعد کفر اور اسلام کا معاملہ شروع ہو جانا تھا تاہم میں نے بہت احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہا جب کبھی کوئی گاڑی آپ کو کچلنے کے لئے آپ کی طرف آ رہی ہو تی ہے آپ کیا کرتے ہیں حضرت نے فرمایا سر میں فوراً ادھر ادھر ہو جاتا ہوں میں نے کہا زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے بولے جی یہ تو آپ صحیح کہتے ہیں مگر اولاد بہرحال اللہ کی دین ہے اور وہی اس کا پالنہار ہے ۔

یہ واقعہ میں نے اس لئے بیان کیا کہ میں نے ان دنوں دس بارہ بچے اور ان کے والدین کسی فٹ پاتھ پر جھونپڑی بنا کر رہتے دیکھے ہیں، میں صبح جب گھر سے نکلتا ہوں تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھیک مانگتے دیکھتا ہوں عورتوں کو بچے گود میں اٹھائے ہر گاڑی والے کے سامنے ہاتھ پھیلائے دیکھتا ہوں، یہ د رست ہے ان کی ایک بڑی تعداد پیشہ ور گداگروں کی ہے چنانچہ میں نے کار میں سوار بیوی بچوں سمیت ایک صاحب کو تین دفعہ مختلف مقامات پر یہ کہہ کر بھیک مانگتے دیکھا ہے کہ ہم نے خانیوال جانا ہے اور گاڑی میں پٹرول ختم ہو گیا ہے تاہم بہت سےعیال دار جو بھیک نہیں مانگتے ان کی کثیر اولاد فاقے ہے اور کوڑے دان میں سے اپنا رزق تلاش کرتی بھی نظر آتی ہے ۔

اولاد دینے والا اللہ ہے چنانچہ ان کا رازق بھی وہی ہے، بچیاں گھر میں پیا گھر جانے کی بجائے اپنے گھروں کے دالان میں بوڑھی ہوجاتی ہیں اور یا پھر انسانوں میں اپنا رازق تلاش کرلیتی ہیں۔ میں گھر سے نکل کر فیروز پور روڈ کی سڑکوں پر آتا ہوں تو وہاں دو تین مقامات پر گرین بیلٹ میں دس بارہ نوجوان بچے اور لڑکیاں ہیروئن پی رہے ہوتے ہیں، ان کے والدین نے انہیں جنا اور پھر ان کی طرف سے بے خبر ہو گئے ،میرے یا آپ کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں اس کا علاج صرف علمائے کرام کے پاس ہے بظاہر وہ اپنی شعلہ بیانی جنت اور دوزخ، کے نظاروں پر ضرور کریں مگر جو لوگ اپنے ہاتھ سے اسی دنیا میں اپنے بچوں کو دوزخ میں جھونک رہے ہیں وہ اللہ کی منشا محدود معنوں میں بیان نہ کریں تفسیروں سے مطالعہ کریں ان میں اس کے بہت سے دوسرےمعانی بھی ہیں ۔

آخر میں سعادت حسن منٹو کی ایک مختصر تحریر :

’’دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے…بھوک گداگری سکھاتی ہے ۔بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے ۔ بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے ۔بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے۔اس کا حملہ بہت شدید ، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے….بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے، دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی۔‘‘