منتخب تحریریں

عہد کرنے کب کے چھوڑ دئیے

Share

اصلاح کے قابل ہم نہیں رہے۔ عمر کا تقاضا ہوتا ہے، جو ہیں بس ہیں۔ سانچہ اب تک پکا ہو چکا ہوتا ہے، جو خد و خال بننے ہوتے ہیں‘ پختہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ کئی اعتبار سے ہمارے معاشرے کی عادات بھی پکی ہو چکی ہیں۔ موجودہ حالات میں انہیں تبدیل کرنا مشکل ہے۔ اس لیے معاشرے کی اصلاح کی بات کرنا فضول ہے۔
لہٰذا معاشرے کو ایک طرف ہی رکھتے ہوئے اپنی بات کرتے ہیں، وہی موزوں ہے۔ دعا کرنی چاہیے بس صحت ٹھیک ہو، باقی سب چیزیں ثانوی اور بیکار کی ہیں۔ ایک چیز کی تو عقل آ چکی ہے کہ بسیار خوری اچھی نہیں۔ کھانے میں اعتدال ہو اور اعضاء پہ بوجھ نہ پڑے۔ صحت کا آدھا راز اسی میں ہے۔ نئے سال کی اور تمنا اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے واسطہ نہ پڑے۔ جو اِس عمر میں ہسپتالوں کے چکروں سے بچا رہے اُس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے؟ اس کے علاوہ مملکت میں کیا ہوتا ہے، کون سی اُمیدیں لگائی جاتی ہیں اور کون سی بے وقوفیاں سرزد ہوتی ہیں ان موضوعات کے بارے میں اب سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک اور عقل آ چکی ہے کہ اب آدھا گزارہ اخبارات کی سرخیوں سے ہی ہو جاتا ہے۔ کوئی دل بہلانے والی خبر یا مضمون ہو وہ پڑھ لیتے ہیں نہیں تو سرسری نگاہ سے ہی کام چل جاتا ہے۔
جمع کی ہوئی بہت سی کتابیں ہیں جو یا تو سرسری پڑھی ہیں یا ابھی پڑھنی ہیں۔ خیال آتا ہے کہ انہی کو پڑھا جائے۔ آخری لمحوں (دعا ہے اتنی جلدی نہ آئیں) یہ ارمان نہ رہے کہ فلاں کتب جو آدھی عمر ساتھ رہی نہیں پڑھ سکے۔ حالانکہ یہ بھی کچھ نہ کچھ معلوم ہو چکا ہے کہ آخری لمحات میں اگر ارمان ہوتے ہیں‘ تو وہ کتب وغیرہ کے بارے میں نہیں بلکہ کچھ اور دل گداز چیزوں کے بارے میں ابھرتے ہیں کہ چھیڑ خانی کا فلاں موقع ہاتھ سے کیوں جانے دیا۔ کھوئے ہوئے مواقع، اِن کے بارے میں ارمان رہتا ہے۔ جب زندگی کی دوڑ ختم ہو رہی ہو کتابوں کے بارے میں کون احمق سوچتا ہو گا۔
عمر وہ ہوتی ہے جس میں شرارت کا عنصر موجود رہے۔ شرارت کی صلاحیت رہ جائے تو پھر زندگی کا کیا حاصل؟ اس لیے نئے سال کے بارے میں یہ آرزو ہے کہ صرف زندگی نہ رہے بلکہ زندگی کی رمق رہے۔ دل و دماغ پہ افسردگی یا کسی قسم کی مایوسی کے سائے نہ چھائے رہیں۔ آنکھوں میں وہ چمک تو آ نہیں سکتی جو جوانی کی پہچان ہے، لیکن کچھ نہ کچھ چمک تو رہنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے اوپر زیادہ سنجیدگی نہیں طاری کرنی چاہیے۔ زندگی میں ویسے ہی بہت تلخیاں ہوتی ہیں۔ ان میں اضافہ کرنے سے کیا فائدہ؟
ایک زمانہ تھا‘ جب نصیحت کرنے کی بڑی عادت تھی۔ معاشرے میں یہ ہونا چاہیے، وہ چیز کرنی چاہیے، بس نصیحتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اپنے کو زیادہ ہی سنجیدہ لیتے تھے۔ آسمانوں کا شکر ہے کہ یہ کیفیت تقریباً ختم ہوئی۔ ہمارے کہنے سے معاشرے نے کیا بدلنا تھا۔ اب یہی ہے کہ خوش و خرم وقت گزرے۔ محتاجی نہ ہو اور ضروریاتِ زندگی کی کمی نہ پڑے۔ ہماری ضروریاتِ زندگی دوسرے لوگوں سے قدرے مختلف ہیں۔ ذکر کیا کرنا، کچھ لوگ بُرا منا جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی ایک خصوصیت ہے کہ بات بات پہ بُرا جلد مان لیا جاتا ہے۔ ہر ایک کو اخلاقیات کی چوکیداری کا پڑا رہتا ہے۔ یہ نہ کرو، اُس سے باز آؤ وغیرہ وغیرہ۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ برداشت کا دائرہ تھوڑا وسیع ہو۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ہم اُلجھیں نہیں۔ بات ہوئی نہیں اور آستینیں چڑھ جاتی ہیں، آنکھوں میں فوراً غصہ سما جاتا ہے اور منہ میں جھاگ کی کیفیت نظر آنے لگتی ہے۔ یہ عدم برداشت کا پہلو پتہ نہیں کہاں سے پیدا ہوا ہے۔ صوفیائے کرام کی بات ہم بہت کرتے ہیں، اُن کا اثر ہماری اجتماعی زندگی میں کم ہی ہے۔ جتنی خانقاہیں اور دربار یہاں پائے جاتے ہیں ہر طرف امن، شانتی اور پیار ہونا چاہیے تھا‘ لیکن یہاں بات ہی اُلٹ ہے۔ کچھ بات ہوئی نہیں اور ٹھیکیدارانِ اخلاقیات بھڑک اُٹھتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ عوام الناس کی سطح پہ برداشت خاصی ہے۔ ہم جو دیہاتی ماحول میں رہتے ہیں ایک دوسرے کی کمزوریوں حتیٰ کہ عیبوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ فلاں شخص یہ کرتا ہے، بیٹھک کے دروازے کے پیچھے اُس کی سرگرمیاں یہ ہیں، یہ چیزیں محلے دار اورگاؤں والے عموماً جانتے ہیں۔ لیکن مجنوں کے سر پہ کوئی سنگ نہیں اُٹھتا۔ مسئلہ اخلاقیات کے ٹھیکیدار پیدا کرتے ہیں۔ انہیں کہیں سے ہدایت ملے تو معاشرہ بہتری کی طرف جا سکتا ہے۔
اس بار ہم قدرے دور اندیش رہے۔ سال کی آخری شب کا اہتمام جو شرفا ضروری سمجھتے ہیں وہ ہم نے وقت سے پہلے کر لیا۔ کچھ دن پہلے لاہور گئے اور لاحاصل نہ لوٹے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو شام کی ضروری تیاری کا کہہ دیا۔ کھانے کا خاص انتظام میرے ہاں کبھی نہیں ہوتا۔ بس ایک ہانڈی پک جاتی ہے اور وہی کافی ہوتی ہے۔ لیکن آخری شب کے لئے کہا کہ کچھ اور انتظام بھی ہونا چاہیے، کچھ چاول، کچھ سالن وغیرہ۔ چکوال میں تو گیس کے ہیٹر چلتے ہیں جس سے سردی کا مقابلہ نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آج شام کی نسبت سے لکڑی کی آگ بھی ہونی چاہیے۔ پہلے سے مخصوص دوستوں کو کہہ رکھا تھا کہ شام ضرور آنا ہے۔ اور کیا چاہیے۔ آگ کے سامنے بیٹھ جائیں گے اور نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے۔
مشکلات پیدا کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ اچھے بھلے معاشرے کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اب یہی تمنا ہے کہ اس ملک میں کچھ آسانیاں پیدا ہوں۔ جو مسائل ہیں وہ تو ہیں۔ تلخیٔ ایام میں اضافہ کیوں کیا جائے؟ مسائل میں گھرے اور ممالک بھی ہیں لیکن اُن سے ہنسنے کی صلاحیت نہیں گئی۔ ہم نے اپنے اوپر سنجیدگی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے جیسے سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ ہر جگہ گند پھیلانے اور ہر چیز میں ملاوٹ کرنے سے ہم گریز کرتے نہیں۔ اپنی اور بیماریوں کا ذکر کریں تو فہرست لمبی ہو جائے۔ پھر اتنی سنجیدگی کس مقصد کیلئے؟ اخلاقیات کی ٹھیکے داری کا جواز کیا بنتا ہے؟ لمبے چوڑے نسخے کیا دیں‘ خاص کر نئے سال کے پہلے روز تو اِن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ لیکن صرف ہم اتنا کر سکیں کہ جو بیکار کے قوانین جنرل ضیاء کے دور میں نافذ کیے گئے‘ اُنہیں ختم نہیں تو نرم کر دیں۔ چہروں پہ مسکراہٹ لانے کا یہ فوری اور قابل عمل طریقہ ہے۔ اِس ضمن میں جو ہم نے قوانین اپنے اوپر ٹھونسے ہوئے ہیں وہ دنیا کی کسی جمہوریت میں نہیں۔ سکہ بند آمریتوں میں بھی ایسی قدغنیں نہیں۔
کمیونسٹ ملکوں میں مغربی طرز کی آزادیاں نہیں ہوتی تھیں لیکن سوشل آزادیاں مکمل طور پہ میسر ہوتیں۔ میں پرانے وقتوں میں ماسکو میں رہا تھا۔ سال کی آخری شب وہاں کس انداز سے منائی جاتی تھی۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی۔ انگریز لوگ اجنبیوں سے بات کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ لیکن سال کی واحد شب یہ ہوتی ہے کہ برطانیہ کے کسی شہر میں چلے جائیں اور راہ چلتے کسی سے بغل گیر ہو جائیں تو بُرا نہیں منایا جاتا۔
ہم نے اپنے آپ کو اِن ساری چیزوں سے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ نوجوان بے چارے پھر کیا کریں، موٹر سائیکلوں اور موٹر کاروں پہ بیٹھ کے سڑکوں پہ ہڑبونگ مچاتے ہیں۔ اور کرنے کو اُن کے پاس ہے بھی کیا؟ ہم نے اُن کے لئے چھوڑا کیا ہے؟ لاہور جیسے شہر میں کسی تقریب کا پتہ چلے تو روایتی لٹھ بردار برسرِ میدان ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ خود اُن کے پلے ایسی کوئی خوشگوار شرارت ہوتی نہیں لیکن اوروں کو بھی وہ خوش نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے یہ نارمل معاشرہ رہا نہیں۔ ہم نے اسے نارمل سے ہٹ کے بنا دیا ہے۔
بس اللہ کی طرف سے ہی کوئی ہدایت آئے، ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔