’اعظم سواتی کو کم از کم 7 سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید ہوسکتی ہے‘، تحریری فیصلہ جاری
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے متنازع ٹوئٹ کیس میں گرفتار رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سینیٹر اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
اسپیشل سینٹرل عدالت کی جانب سے جاری 6 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ اسپیشل سینٹرل جج محمد اعظم خان نے تحریر کیا جس کے مطابق اعظم سواتی نے عوام کو اداروں کے خلاف اکسایا، ان پر لگی دفعات پر اعظم سواتی کو جرمانے سمیت کم از کم 7 سال قید اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم اعظم خان سواتی کی جانب سے ایڈووکیٹ بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے بتایا کہ اعظم سواتی کو ان کے سیاسی حریف انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان کے خلاف مقدمہ ایف آئی اے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درج کیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ بابر اعوان کے مطابق پیکا کا سیکشن 20 قابل ضمانت دفعہ ہے، مقدمے میں کریمنل پروسیجر کی دفعات مقدمے کو ناقابل ضمانت بنانے کے لیے شامل کی گئیں۔
تحریری فیصلے کے مطابق حکومت کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی عدالت میں پیش ہوئے، ان کے مطابق اعظم سواتی نے فوج کے اعلیٰ افسر کے خلاف ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے اور پاک فوج کو اپنے افسران کے احکامات کی خلاف ورزی اور بغاوت پر اکسایا، اسپیشل پراسیکیوٹر نے اعظم سواتی کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اعظم سواتی نے 26 نومبر کو پاک فوج کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف ٹوئٹ کیا جسے مختلف ٹوئٹر اکاؤنٹس سے ری ٹوئٹ کیا گیا، اعظم سواتی نے اس ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرنے پر دیگر اکاؤنٹس کا شکریہ بھی ادا کیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق اعظم سواتی کے خلاف ریاستی اداروں کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر پہلے بھی پیکا کے سیکشن 20 کے تحت ایک مقدمہ درج ہے، انہیں پہلے مقدمے میں 21 اکتوبر کو ضمانت ملی، 26 نومبر کو انہوں نے پھر وہی جرم دہرایا۔
فیصلے میں واضح کیا گیا کہ بادی النظر میں اعظم سواتی نے ضمانت پر رہا ہونے کے باوجود دوبارہ اسی جرم کا ارتکاب کیا، عدالت اعظم سواتی کو ضمانت پر رہا کرنے کی قائل نہیں، لہٰذا اعظم سواتی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے اسپیشل جج اعظم خان نے سینیٹر اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کی تھی، فریقین کے حتمی دلائل سننے کے بعد عدالت نے اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اعظم سواتی نے ایک ہی جرم 2 بار کیا ہے۔
اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری
27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے سابق وفاقی وزیر کے خلاف پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔