Site icon DUNYA PAKISTAN

سنہ 2019 میں میڈیکل سائنسز میں کیا پیشِ رفت ہوئی؟

Share

جسم سے فالج کے اثرات کو ختم کرنے سے لے کر موت کے بعد بھی دماغ کو زندہ رکھنے تک، میڈیکل سائنسز میں ترقی کے حوالے سے یہ سال کافی قابلِ ذکر رہا ہے۔

تیس سالہ تھیبولٹ کہتے ہیں کہ ‘ایسا لگ رہا تھا جیسے میں چاند پر جانے والا پہلا آدمی ہوں۔’

وہ دراصل اس لمحے کی وضاحت کر رہے تھے جب دو سال تک مفلوج رہنے کے بعد انھوں نے پہلا قدم اٹھایا۔

وہ ذہن کی مدد سے کنٹرول کیے جانے والے سوٹ کی بدولت اپنے ہاتھ پاؤں ہلا سکتے ہیں۔

ان کی حرکات خصوصاً چلنے کا انداز نارمل ہونے سے کوسوں دور ہے اور یہ روبو سوٹ صرف لیبارٹری میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ ریسرچ ایک دن مریض کا میعارِ زندگی بہتر بنا سکے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ، مفلوج افراد کے اجسام کی ‘دوبارہ وائرنگ’ کی گئی ہے تاکہ وہ اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کو حرکت دے سکیں۔

آسٹریلیا میں مریض اب خود کھانا کھا سکتے ہیں، میک اپ لگا سکتے ہیں، چابی گھما سکتے ہیں، پیسے لے دے سکتے ہیں اور کمپیوٹر پر ٹائپنگ کر سکتے ہیں۔

میلا کو اب کم دورے پڑ رہے ہیں لیکن وہ ابھی تک مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوئی ہیں۔

صرف ایک لڑکی کے لیے بننے والی نایاب دوا

میلا میکوویک کے ڈاکٹروں نے ایک ناممکن کام کر دکھایا۔ ایک مہلک اعصابی بیماری کی شکار میلا کو ایک نایاب دوا دی گئی جسے صرف ان کے لیے نئے سرے سے تخلیق کیا گیا اور وہ بھی ایک سال کے اندر اندر۔

ان میں مہلک اور لاعلاج بیٹن نامی بیماری کی تشخیص کی گئی۔

بوسٹن میں آٹھ سالہ لڑکی کی میڈیکل ٹیم نے جینوم سیکوئنسنگ یعنی میلا کے ڈی این اے اور جینیٹِک کوڈ کی گہرائی میں جانچ کی اور ڈی این اے میں ایک نایاب تبدیلی ڈھونڈ نکالی جو بیماری کا سبب بن رہی تھی۔

ڈی این اے میں یہ نقص دیکھ کر ریسرچرز نے سوچا کہ شاید اس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے ایک دوا تیار کی اور اسے لیبارٹری میں میلا کے خلیوں اور جانوروں پر ٹیسٹ کیا۔ امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے اسے منظور کر لیا۔

عام طور پر ادویات کو لیبارٹری سے نکل کر ٹرائل ہونے اور مریضوں تک پہنچنے میں دہائی سے زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

امریکی ٹیم نے ایسا ایک سال میں کر دکھایا۔

میلا کو اب کم دورے پڑ رہے ہیں لیکن وہ ابھی تک مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوئی ہیں۔

سُو بوریل کو وقفے وقفے سے ہونے والے پورفیریا کے باعث ہونے والی شدید درد سے نجات مل گئی ہے۔

جین سائلنسنگ ادویات کی آمد

جین سائلنسنگ کہلانے والی ادویات کی ایک نئی قسم نے ماضی میں لاعلاج امراض کو قابلِ علاج بنا دیا ہے۔

جین ہمارے ڈی این اے کا وہ حصہ ہے جس میں ہارمومز، انیزائمز وغیرہ کے پروٹین بنانے کا خاکہ موجود ہوتا ہے۔

لیکن ہمارا ڈی این اے خلیے کے نیوکلیئس کے اندر بند ہوتا ہے اور اسے خلیے کے پروٹین بنانے والے سسٹم سے الگ رکھا جاتا ہے۔

ہمارے جسم میسنجر آر این اے کہلانے والی جینیٹِک کوڈ کی چھوٹی لڑیوں کا استعمال کر کے احکامات کو آگے پہنچاتے ہیں۔

جین سائلنسنگ ادویات ان میسنجر آر این اے کو ختم کر دیتی ہیں۔

سُو بوریل کو وقفے وقفے سے ہونے والے پورفیریا کے باعث ہونے والی شدید درد سے نجات مل گئی ہے۔

ونسنٹ اور نیل نکولس امیلوئڈوسس نامی مرض کے لیے جین سائلنسنگ ادویات کا استعمال کر رہے ہیں۔

ونسنٹ اور نیل نکولس

وائرس کے ذریعے علاج

ازیبیل کارنیل ہولڈاوے کی زندگی مختلف وائرس کے تجرباتی آمیزے نے بچا لی۔

ایک مہلک اور لاعلاج بیکٹیریا ازیبیل کے جسم پر حملہ آور ہوا اور کہا گیا کہ ان کے بچنے کے امکانات ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔

جہاں جہاں ان کی جلد پر انفیکشن ہوا وہاں پر کالے رنگ کے بڑے بڑے زخم بن گئے۔

انھیں انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا جہاں ان کا جگر فیل ہونے لگا اور ان کے جسم میں بیکٹیریا پھیلنے لگا۔

ازیبیل کارنیل ہولڈاوے کی زندگی مختلف وائرس کے تجرباتی آمیزے نے بچا لی۔

لیکن ڈاکٹروں نے ان پر نئی فیج تھراپی کا تجربہ کیا جو وائرس کا استعمال کر کے بیکٹیریا کا خاتمہ کرتی ہے۔

فیج تھراپی کبھی مقبول نہیں ہوئی اور اینٹی بائیوٹِک کی دریافت نے اس علاج کے طریقے کو گرہن لگا دیا۔

اب فیج تھراپی کو استعمال کر کے ان خوردبین حشرات کا خاتمہ کیا جاتا ہے جن پر اینٹی بائیوٹِک ادویات اثرانداز نہیں ہوتیں۔

اس کے علاوہ۔۔۔

کینسر ایمیونوتھراپی ایک بڑے اہم سنگ میل تک جا پہنچی ہے۔

یہ دوا مریض کا مدافعتی نظام استعمال کر کے کینسر کا خاتمہ کرتی ہے۔

ایک دہائی پہلے میلانوما یا جلد کا کینسر لاعلاج تھا اور اب آدھے سے زیادہ مریض اس مہلک مرض سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔

دہائی پہلے آخری مراحل میں تشخیص ہونے پر 20 میں سے ایک مریض ہی بچ پاتا اور وہ بھی صرف پانچ سال کے لیے۔ بہت سے لوگ تو چند سال کے اندر اندر ہی موت کا شکار ہو جاتے تھے۔

ڈیمنشیا کی رفتار کم کرنے والی پہلی دوا

ایک امریکی دواساز کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے الزائمرز کے مرض کو کم کرنے والی دوا بنا لی ہے۔

ایڈوکانوماب نامی یہ دوا دماغ میں زہریلے پروٹین کے ذخیرے کو صاف کر دیتی ہے۔

بائیوجن نامی فرم نے دوا کے استعمال سے جڑے شواہد کا مطالعہ کیا۔ مریضوں میں دوا کی سب سے بڑی خوراک لینے سے افاقہ ہوا اور یاداشت اور بات چیت کرنے کی صلاحیت بہتر ہوئی اور صاف ستھرائی، شاپنگ اور کپڑے دھونے جیسے روزمرہ کے کام کرنے میں آسانی ہوئی۔

اگر یہ دوا منظور ہو گئی تو یہ جدید ادویات کی تاریخ میں کافی اہم لمحہ ہوگا۔

ڈیمنشیا کی نئی قسم

ماہرین نے ڈیمنشیا کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے اور کہا ہے کہ لاکھوں لوگوں میں غلط تشخیص کی گئی۔

ڈیمنشیا اعصاب کی کئی بیماریوں کی علامت ہوتا ہے اور یاداشت کھو جانا اس میں سب سے عام ہے۔

جڑواں بچوں کی سرجری

پیدائش سے پاکستانی بہنوں صفا اور مروہ کا دماغ جڑا ہوا تھا اور وہ کبھی ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ پائیں۔

اس بارے میں کوئی سرکاری اعدادوشمار نہیں کہ ایسا کتنی بار ہوتا ہے لیکن ایک تخمینے کے مطابق ہر 25 لاکھ پیدائشوں میں ایک جڑواں بچوں کا ایسا جوڑا پیدا ہوتا ہے۔

زیادہ تر بچے ایک دن سے زیادہ نہیں رہ پاتے۔

انھیں کئی سرجریوں، سینکڑوں ماہرین کی مدد اور مہینوں کی محنت کے بعد الگ کیا گیا۔

ٹیبل پر موجود دو بچیوں صفا اور مروہ کے سر آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

موت کے چار گھنٹوں بعد سور کا دماغ جزوی طور پر زندہ

زندگی اور موت کے درمیان کی لکیریں 2019 میں دھندلا گئیں۔

سور کو ذبح کرنے کے چار گھنٹے بعد اس کے دماغ کو جزوی طور پر زندہ کیا گیا۔

تحقیق کے مطابق اعصابی خلیوں کی موت کو روکا جا سکتا ہے اور دماغ کی کچھ تاروں کو بحال کیا جا سکتا ہے۔

ایسا مصنوعی خون کو دھڑ سے الگ ہوئے دماغ میں پہنچا کر کیا گیا۔

یہ تحقیق اس آئیڈیا کو چیلنج کرتی ہے کہ خون کی سپلائی دماغ تک نہ پہنچنے سے نا قابلِ تلافی نقصان ہو جاتا ہے اور یہ ذہنی امراض کے لیے نئے علاج کا سبب بن سکے گی۔

تاہم، دماغ سے ایسے کوئی سگنلز نہیں ملے جس سے دماغ کے ہوش میں ہونے کا ثبوت ملے۔

ڈی این اے کو تبدیل کرنے والا نیا طریقہ

ڈی این اے میں تبدیلی لانے کے نئے طریقے کی وجہ سے بیماری کا سبب بننے والے 89 فیصد نقائص دور ہو سکتے ہیں۔

پرائم ایڈیٹنگ نامی ٹیکنالوجی درست طریقے سے جینیٹِک کوڈ لکھ سکتی ہے۔

یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کمپیوٹر پر CTRL-F دبا کر وہ الفاظ تلاش کر لیں جنھیں آپ بدلنا چاہتے ہوں اور پھر CTRL-C اور CTRL-V دبا کر اس جگہ نئے الفاظ لکھ لیں۔

ڈی این اے میں تقریباً 75000 مختلف تبدیلیاں ایسی ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے بیماری لاحق ہو سکتی ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ پرائم ایڈیٹنگ 10 میں سے نو کو ٹھیک کر سکتی ہے۔

سب سے پہلے دماغ میں ایک الیکٹروڈ نصب کیا جاتا ہے جو ان الیکٹریکل سگنلز کو پکڑتا ہے جو ہونٹوں، زبان، وائس باکس اور جبڑے کو حرکت دیتے ہیں۔

لوگوں کو دوبارہ آواز دینا

سائنسدانوں نے دماغ کا ایک ایسا امپلانٹ تیار کیا ہے جو لوگوں کے دماغ پڑھ سکتا ہے اور ان کی سوچ کو الفاظ میں بدل سکتا ہے۔

سب سے پہلے دماغ میں ایک الیکٹروڈ نصب کیا جاتا ہے جو ان الیکٹریکل سگنلز کو پکڑتا ہے جو ہونٹوں، زبان، وائس باکس اور جبڑے کو حرکت دیتے ہیں۔

پھر کمپیوٹنگ کا استعمال کر کے منھ اور گلے سے نکلنے والی مختلف آوازوں کی حرکات کی نقل کی جاتی ہے۔

اس کے نتیجے میں ایک مصنوعی کمپیوٹرائزڈ آواز آتی ہے اور یہ نارمل آواز جیسی نہیں ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ایسے میں لوگوں کی مدد کر سکتی ہے جب کوئی بیماری ان کی بات کرنے کی صلاحیت چھین لے۔

ای سیگریٹ تمباکو نوشی سے چھٹکارے کا ذریعہ

ویپنگ کو اس سال شدید آزمائش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

امریکہ میں ‘پھیپھڑوں میں ای سیگریٹ یا ویپنگ مصنوعات کی وجہ سے ہونے والے زخم’ 50 اموات کا باعث بنے اور 2400 سے زیادہ افراد کو ہسپتال میں علاج کروانا پڑا۔

اسی دوران ایک نوجوان لڑکے کی موت پھیپھڑوں میں ویپنگ کی وجہ سے ہونے والے جان لیوا کیمیائی ردِعمل کی وجہ سے ہوئی۔

لیکن ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ویپنگ تمباکو نوشی سے زیادہ محفوظ ہے اور اس میں ثابت ہوا کہ ویپنگ سیگریٹ پینے کی عادت کو چھڑوا سکتی ہے۔

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نے پایا کہ ویپنگ کے لیے سیگریٹ نوشی ترک کرنے والے 18 فیصد لوگ ایک سال بعد بھی سیگریٹ سے دور رہے جبکہ روایتی نکوٹین والی مصنوعات استعمال کرنے والے 9.9 فیصد افراد ہی سیگریٹ سے دور رہے۔

دیگر چیزیں جنھوں نے ہمیں متاثر کیا:

Exit mobile version