Site icon DUNYA PAKISTAN

وہ ممالک جو 2023 میں خلا اور چاند کے لیے اپنے نئے مشن روانہ کریں گے

Share

سنہ 2023 میں روس، انڈیا اور یورپین سپیس ایجنسی چاند اور خلا میں دیگر سیاروں پر مشن روانہ کریں گے۔

یہ اعلان امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی طرف سے چاند کی سطح پر آرٹیمس ون مشن کے مکمل ہونے کے بعد کیا گیا۔ اس مشن کا مقصد انسانوں کو چاند پر لے جانا ہے۔

اس مقصد کے لیے ناسا نے فلوریڈا کے کیپ کینورل سے اپنا اب تک کا سب سے طاقتورخلائی جہاز خلا میں بھیجا تھا۔

چاند پر مشن بھیجنے کے لیے کون کون تیار

انڈیا کا آئندہ برس جون میں چاندریان 3 مشن، لینڈنگ ماڈیول اور روبوٹک روور کو چاند کی سطح پر بھیجنے کا پلان ہے۔ انڈیا پہلی بار چاندریان 1 کے ذریعے سنہ 2008 میں چاند پر پہنچا تھا۔

روس جولائی 2023 میں لونا 25 مشن چاند پر بھیجے گا۔ یہ مشن چاند کے جنوبی ریجن سے سیمپلز جمع کرے گا۔

سنہ 2023 کے آخری مہینوں میں جاپان کے ارب پتی یوساکو میزاوا اور آٹھ اور مسافروں کو ڈیئرمون سفر پر ’سپیس ایکس‘ لے کر روانہ ہو گا۔

یہ اس کی ’سٹار شپ‘ وہیکل (گاڑی) کا پہلا مشن ہو گا، جو 100 افراد کو لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

امریکی خلائی ایجنسی ناسا اب سنہ 2024 میں چاند پر اپنا اگلا مشن روانہ کرے گی۔ آرٹیمس II نامی مشن خلابازوں کو چاند کے مدار میں لے جائے گا۔

ناسا آرٹیمس III کو سنہ 2025 اور 2026 میں چاند پر بھیجنے کا منصوبہ رکھتا ہے، جس میں پہلی بار ایک خاتون اور ایک غیر سفید فارم کو چاند پر لے جائیں گے۔

ناسا کے سنہ 1972 میں اپولو مشن کے بعد یہ پہلی بار ہو گا کہ انسان چاند پر چہل قدمی کریں گے۔ ناسا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس مشن پر ’سپیس X سٹارشپ‘ کو روانہ کرے گا۔

چین نے روس سے مل کر سنہ 2035 تک چاند پر ایک مشترکہ ’بیس‘ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم اس منصوبے کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں بنائی گئی۔

دنیا چاند پر کیوں جانا چاہتی ہے؟

امریکہ کے ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹروفزکس میں کام کرنے والے ماہر فلکیات ڈاکٹر میکڈوول کا کہنا ہے کہ خلائی طاقتوں جیسے امریکہ، روس اور چین کا اس طرح کے مشن کا مقصد اپنے خلا بازوں کی رہائش کے لیے چاند پر اڈے قائم کرنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مریخ کی طرح چاند کو بھی قدم رکھنے کی جگہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق ڈیپ سپیس ٹیکنالوجی کے ٹیسٹ کے لیے یہ بہترین جگہیں ہیں۔

یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے سپیس پروجیکٹ کی منیجر ڈاکٹر لوسنڈا کنگ کہتی ہیں کہ چاند سے سپیس کرافٹ لانچ کرنے کے لیے زمین کے مقابلے میں کم فیول درکار ہو گا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ چاند پر فیول کا ذریعہ بھی تلاش کر لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر لوسنڈا کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اب ثابت ہو گئی ہے کہ چاند کے قطب جنوبی میں پانی دستیاب ہے۔ اس پانی سے آکسیجن اور ہائیڈروجن بھی حاصل کی جا سکتی ہے، جسے خلائی جہازوں میں فیول بھرنے کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے تا کہ وہ وہاں سے مریخ اور دیگر سیاروں کیا جانب پرواز بھر سکیں۔

ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ہر ملک اس کوشش میں ہے کہ واپس چاند پر جا کر پانی کے ذخائر اپنی ملکیت میں لے۔

سنہ 2023 کے دیگر خلائی مشن

ناسا سنہ 2023 کے موسم گرما میں اپنا سائیکی خلائی جہاز 16 سائیکی نامی سیارچے کی تلاش کے لیے لانچ کرے گا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام شمسی کے ابتدائی دنوں میں بنائے گئے سیارے کی باقیات ہے۔

یورپین سپیس ایجنسی (ای ایس اے)، ایک ایسی تنظیم ہے جو 22 یورپی ممالک کے اتحاد کی نمائندہ ہے، اپریل 2023 میں اپنا ’جوپِٹر آئی سی مون ایکسپلورر‘ (جے یو آئی سی ای) لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یہ تحقیقاتی مشن وہاں پہنچ کر ’واٹر آئس‘ (برفیلے پانی) میں زندگی کے آثار تلاش کرے گا تاہم یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف احتجاج میں، ای ایس اے آئندہ سال اپنی یوکلڈ خلائی دوربین کو مدار میں بھیجنے کے لیے روسی راکٹ کا استعمال نہیں کرے گا۔ اس کے بجائے یہ سپیس ایکس فالکن 9 راکٹ استعمال کرے گا۔

ای ایس اے نے مریخ پر روور بھیجنے کے اپنے ’ایرو مارس‘ مشن پر روس کے ساتھ کام کرنا بھی بند کر دیا ہے۔ انھوں نے اب اس مشن کو 2028 تک مؤخر کر دیا ہے۔

چین دسمبر 2023 میں ژونتیان (Xuntian) نامی دوربین کو زمین کے نچلے مدار میں بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ دُور دراز کے ستاروں اور ’بلیک ہولز‘ کا نقشہ بنایا جا سکے۔

چین پہلے ہی چاند اور مریخ پر تحقیقات کے لیے روبوٹک روور اتار چکا ہے اور بیجنگ نے خلا میں ایک سائنسی تحقیقی سٹیشن قائم کر رکھا ہے، جسے ’تیانگانگ‘ کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر میکڈوول نے کہا ہے کہ یہ بات حالیہ برسوں میں عیاں ہو چکی ہے کہ آج کا انسان اب مریخ اور اس کے آگے کی دنیا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ، روس اور یورپی ممالک کی طرز پر چین اور انڈیا جیسے ممالک اب خلائی طاقت بن کر ابھرے ہیں۔

ان ممالک کی حکومتیں سوچ رہی ہیں کہ اگر مستقبل خلا میں پنہاں ہے تو پھر ایسے میں ہمارا ملک اس کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔

Exit mobile version