Site icon DUNYA PAKISTAN

خان صاحب کا باجوہ ڈاکٹرائن

Share

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا

وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا

(انور شعور)

خان صاحب کو جو خوبی دیگر سیاست گروں سے منفرد کرتی ہے وہ ہے ان کی یک رخی۔ بندہ پسند ہے تو ضرورت سے زیادہ پسند ہے اور وہی بندہ ناپسند ہے تو بے پناہ ناپسند ہے۔

خان صاحب بیک وقت بہت سے محاذ کھولنے کا جھاکا ضرور دیتے ہیں مگر عملاً ایک وقت میں کسی ایک کو ہی ہدف بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو دوسرے کھلونے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یا پھر ٹائم پاسی کے لیے پرانے کھلونے کو توڑ کے ہی ریورس انجینئرنگ کا آنند لیتے ہیں۔

مثلاً نوے کی دہائی میں نواز شریف ان کی گڈ بک میں جب تک تھے، تب تک تھے۔ پھر اسی نواز شریف کے پیچھے پڑے تو ’گو نواز گو‘ کے سوا فضا میں کوئی نعرہ نہیں گونجا۔

اس ون ڈش حکمتِ عملی سے بیزار ہوئے تو مینیو میں زرداری کو بھی بطور سلاد رکھ لیا اور اس سلاد پر مولانا فضل الرحمان کی گارنش بھی پھیر دی۔

جب برسرِاقتدار آئے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی فراست کے ایسے اسیر ہوئے کہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے تمام گھوڑے کھول لیے اور پوری پارلیمنٹ کو ایکسٹینشن کے رتھ میں جوت دیا اور جب جنرل فیض حمید پسند آئے تو یوں پسند آئے کہ ان کی خاطر قمرجاوید باجوہ سے بھی بھڑ گئے۔

فوج میں اگرچہ سپاہ سالار بااختیار ہوتا ہے مگر وہ حکمتِ عملی سمیت تمام اہم فیصلے پرنسپل سٹاف آفیسرز اور کور کمانڈرز کو اعتماد میں لے کر ضروری مشاورت کے زریعے کرتا ہے۔ فوج اور پی ٹی آئی میں یہی بنیادی فرق ہے۔

مگر خان صاحب اس بابت حق الیقین کی سطح پر ہیں کہ مارشل لا نہ لگانے والا سادہ سپاہ سالار بھی پوری سپاہ کو اپنی من مرضی کے مطابق جیسے چاہے چلا سکتا ہے اور آئی ایس آئی کا سربراہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات اپنی بھی نہیں سنتا۔ چنانچہ خان صاحب کا نیا ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ بھی اسی سوچ کی پیداوار ہے۔

اس وقت نہ عمران خان وزیرِ اعظم ہیں، نہ فیض حمید جنرل ہیں اور نہ ہی قمر جاوید باجوہ سپاہ سالار مگر خانِ اعظم جب تک دوبارہ وزیرِ اعظم نہیں بن جاتے تب تک ان پر باجوائیت طاری رہے گی اور ہر جلسے، انٹرویو اور قوم سے ہفتہ وار خصوصی خطاب میں باجوہ کا نام لے لے کر ہاتھ پھیلا پھیلا کے تبرائی کوسنے جاری رہیں گے۔ تاوقتیکہ توپ دم کرنے کے لیے کوئی نیا حاضر یا غائب ہدف ہتھے نہ چڑھ جائے۔

بھرے سٹیڈیم کی تالی پیٹ توجہ مسلسل خود پر رکھنے کے لیے باجوائی وکٹ پر نیٹ پریکٹس جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اپنی اقتداری ناکامیوں کی ٹاکیاں سابقین کے سینگوں سے باندھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ بھی قابلِ قبول ہوگا کہ میری گلی میں پچھلے چار برس سے اس لیے پانی کھڑا ہے کیونکہ باجوہ نے سولنگ نہیں لگانے دی۔

خان صاحب کی کچیچیاں اپنی جگہ، پر انتخابات تب ہی ہوں گے جب اطمینان ہو جائے کہ کسی کو اتنی اکثریت حاصل نہ ہو جائے کہ وہ آئین و قواعد و ضوابط کو من مرضی سے موڑنے یا بدلنے کی کوشش کرے اور روایتی توازنِ طاقت کو گڑبڑا دے اور ویٹو پاور بھی قبضا لے۔

خان صاحب چاہیں نہ چاہیں انھیں بادشاہ گروں کی با اعتماد مسلم لیگ ق اور اسی قماش و خمیر سے اٹھی کچھ دیگر ضروری جماعتوں کو ساتھ لے کر ہی چلنا پڑے گا۔

خان صاحب کو دوبارہ اقتدار کی قیمت حسبِ سابق دل پر پتھر رکھتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں ادا کرنا پڑے گی اور قطعی اکثریت کی خواہشاتی گولی کو سادہ اکثریت کے پانی سے نگلنا پڑے گا۔ وہ جتنے چاہیں نئے گیت گا لیں مگر آرکسٹرا نہیں بدلے گا۔

اس کوچے میں بیساکھیاں نہ بیچی جا سکتی ہیں نہ خریدی جا سکتی ہیں۔ کرائے پر طے شدہ مدت کے لیے ضرور فراہم کی جا سکتی ہیں۔

مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی وغیرہ وغیرہ تو کھیل کے قوانین ہضم کرنے کی مشق سیکھ چکے ہیں۔ خان صاحب کو اسی دائرے میں رکھنے اور اس کا عادی بنانے کا کام گجرات کے چوہدریوں کے ذمے ہے۔ جب تک چوہدری پہرے دار ہیں تب تک اسٹیبلشمنٹ کو کوئی غم نہیں۔ ایسے ماہر سائیسوں کے ہوتے غیرجانبداری کے چسکے لینے میں بھی کیا حرج ہے۔

ایک سینیئر چینی سفارتکار نے پاک چین قربت پر ناک بھوں چڑھانے والے اپنے ہم منصب امریکی سفارتکار سے کہا تھا کہ پاکستان اس خطے میں چین کا اسرائیل ہے۔ اسی کسوٹی پر پاکستان بالخصوص پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ق اسٹیبلشمنٹ کا اسرائیل ہے۔

پی ٹی آئی کو اگر طاقت کی منڈی میں اپنی فصل کے اچھے دام چاہئیں تو ق کو آڑھت دیے بغیر کوئی راستہ نہیں۔ ورنہ تو فصل ارزاں تر بیچنے کے خواہش مندوں کی قطار بندھی ہے۔

ق سے صرف قائدِ اعظم نہیں ہوتے۔ ق سے قینچی بھی ہوتی ہے۔

Exit mobile version