اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی سینیٹر اعظم خان سواتی کی جانب سے متنازع ٹوئٹس سے متعلق کیس میں ان کی رہائی کے لیے دائر درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران ریاست اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو نوٹسز جاری کر دیے۔
27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، ٹرائل کورٹ نے 21 دسمبر کو اعظم سواتی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی، اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے متنازع ٹوئٹ کیس میں گرفتار اعظم سواتی کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی، سماعت کے دوران اعظم سواتی کی جانب سے بابر اعوان ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست ضمانت میں مؤقف اختیار کیاگیا کہ مبینہ ٹوئٹس پوسٹ نہیں کیں، اعظم سواتی کا کسی ادارے کو بدنام کرنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں تھا، تفتیش مکمل ہونے کے بعد بھی پروسیکیوشن کے پاس اعظم سواتی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ پٹیشنر کی عمر 75 سال ہے اور وہ عارضہ قلب میں بھی مبتلا ہیں، اعظم سواتی کی تمام کیس دستاویزی الزامات پر مبنی ہیں، جیل میں رکھنا ٹرائل سے قبل سزا کے مترادف ہو گا، درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 2 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی۔
سینئر قانون دان بابر اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران اعظم سواتی کی جانب سے اپنے ٹوئٹس سے لاتعلقی کا اظہار کرنے سے متعلق سوال پر کہا میڈیا مینجرز کو یہ نظر نہیں آرہا کہ خزانے میں 6 ارب رہ چکا ہے، یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ وہ 6 ارب لیا کہاں سے گیا ہے، 1992 کے بعد پہلی دفعہ لوگوں کے کمرشل بینکوں میں ڈالر اکاؤنٹس سے پیسے نکالے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے اور یہ سارا زور لگا رہے ہیں، اس ہائی کورٹ کے جسٹس بار ستار نے کہا ہوا ہے کہ ٹوئٹ سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں، یہ انہوں نے ثابت کرنا ہے کہ کس اکاؤنٹ سے کیا ٹوئٹ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اب تک پہلی ایف آئی آر پر چالان نہ بنا سکے، 17 دن میں چالان بنانا قانونی ذمہ داری ہے، وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھے لیکس کے ماہر پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری
27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے سابق وفاقی وزیر کے خلاف پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔