ہیڈلائن

کورونا کی نئی اقسام سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی تیاری ناکافی

Share

بھارت، چین اور امریکا سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں کورونا وائرس کی نئی اقسام تیزی سے پھیل رہی ہیں، ان کی پاکستان میں ممکنہ آمد کو روکنے کے لیے محکمہ صحت کے حکام کی تیاری ناکافی سمجھی جارہی ہے۔

 رپورٹ کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے دعویٰ کیا ہے کہ صورت حال پر گہری نظر رکھی جارہی ہے، تاہم ہوائی اڈوں پر کورونا کے مثبت کیسز کی جانچ کے لیے مسافروں کی اسکریننگ کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔

این سی او سی کے رکن ڈاکٹر شہزاد علی خان نے کہا کہ ادارہ باقاعدگی سے اپنے اجلاس منعقد کر رہا ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ پاکستان میں کورونا کے نئے ویرینٹس کس طرح اثرانداز ہوں گے کیونکہ وائرس مختلف ماحول میں مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر شہزاد علی خان نے کہا کہ ’ہم صورتحال کا باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ چین میں کورونا کا اچانک پھیلاؤ دیکھا گیا ہے کیونکہ وہاں سخت پابندیاں اچانک ہٹائے جانے سے وائرس کو پھیلنے کا موقع ملا‘، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ویکسی نیشن کی وجہ سے پاکستان میں شہریوں کی قوت مدافعت بہتر ہے‘۔

تحریر جاری ہے‎

انہوں نے کہا کہ ’کورونا کے نئے ویرینٹس ان لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں جنہوں نے تاحال ویکسی نیشن نہیں کروائی ہے، لہٰذا میں لوگوں کو ویکسین اور بوسٹر شاٹس لازمی لگوانے کی درخواست کروں گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاحال این سی او سی نے کوئی گائیڈلائنز جاری نہیں کی ہیں لیکن میں لوگوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ چند روز کے لیے عوامی اجتماعات سے گریز کریں‘۔

نئے ایس او پیز کی ضرورت

دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ این سی او سی کو تازہ گائیڈ لائنز جاری کرنی چاہئیں اور واضح مؤقف دینا چاہیے، دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، وائرس کسی بھی وقت ملک میں داخل ہو سکتا ہے، مسافر نئی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سفر کو ترجیح دیں گے۔

مائیکرو بائیولوجسٹ پروفیسر جاوید عثمان نے کہا کہ چین میں اچانک پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد وائرس تیزی سے پھیلنا شروع ہوا، پاکستان میں اس وقت بارشوں کی کمی کی وجہ سے فضا آلودہ ہو چکی ہے، دھول آلودگی کے اہم عنصر کے طور پر کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کے ماحول میں انفلوئنزا، سوائن فلو، نان-کوویڈ 19 کورونا وائرس، پیرا انفلوئنزا وائرس اور سانس کے سنسیٹیئل وائرس (آر ایس وی) ہوتے ہیں، ان تمام دیگر جراثیموں کی موجودگی کی وجہ سے یہ بتانا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا کوئی شخص کورونا یا کسی اور وائرس میں مبتلا ہے۔

ڈاکٹر جاوید عثمان نے کہا کہ لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ ماسک پہنیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

معروف جنرل فزیشن پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ ’چند مہینوں کے دوران کورونا وائرس کی منتقلی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اب تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ویکسینز کورونا کے خلاف کارآمد ہیں یا نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میری تجویز ہے کہ این سی او سی کو باقاعدگی سے گائیڈ لائنز جاری کرنی چاہیے کیونکہ اس سے عوام اور محکمہ صحت کے حکام چوکنا رہتے ہیں، عالمی ادارے ان اقدامات کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں، سفر کے خواہاں افراد بھی ایڈوائزری کے مطابق سفر کا فیصلہ کرتے ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ’امیونائزیشن کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کی وجہ سے پاکستانیوں کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوا ہے، علاوہ ازیں ہمیں حفظان صحت اور دیگر مسائل کی وجہ سے مختلف وائرسز سے نمٹنے کا زیادہ تجربہ ہے، اگرچہ یہ ہماری صحت کے لیے اچھا نہیں ہے لیکن کورونا کے معاملے میں یہ فائدہ مند ثابت ہوا‘۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایک دستاویز کے مطابق گزشتہ روز ملک بھر میں کورونا کے 15 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، مثبت کیسز کی شرح 0.4 فیصد رہی جبکہ 16 مریضوں کی حالت تشویشناک تھی۔

ملک بھر میں تقریباً 3 ہزار 749 ٹیسٹ کیے گئے، اسلام آباد میں تقریباً 406، فیصل آباد میں 107، لاہور میں 920، اور پشاور میں 321 ٹیسٹ کیے گئے۔

’سی بی ایس نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق چین میں کورونا کے تازہ پھیلاؤ کا سبب کورونا کی انتہائی متعدی قسم ’اومیکرون‘ کی ذیلی قسم ’بی ایف-7‘ ہے۔

وسیع پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد چین نے رواں ماہ ’زیرو کووڈ پالیسی‘ ختم کردی تھی جس کے بڑے پیمانے پر معاشی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہو رہے تھے، تاہم اس نے 3 برسوں تک بڑی حد تک کورونا کو قابو میں رکھا۔

چین کا نظام صحت پالیسی کی اس اچانک تبدیلی کے لیے تیار نہیں تھا، تازہ پھیلاؤ کے بعد ہسپتالوں میں بستر اور خون اور میڈیکل اسٹورز میں ادویات کی طلب بڑھ گئی ہے جبکہ حکام صحت خصوصی کلینکس بنانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔