کرسمس کا تہوار،کہیں رعنائی تو کہیں تنہائی
سال 2022کا یہ میرا آخری کالم ہے۔پچھلے دس برسوں میں اب تک میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ میں ہر موضوع پر لکھوں اور مجھے اس بات کا یقین بھی ہے کہ میرے کالم پڑھنے والوں کو ہر ہفتے ایک نئے مو ضوع کو جاننے اور پڑھنے کا موقعہ مل رہا ہے۔
میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میرے مضامین کے ذریعہ لوگوں کے معلومات اور علم میں اضافہ ہوتا رہے اور اس کا ثبوت میرے چاہنے والوں کے فون، ای میل اور فیس بُک کے ذریعہ ان کے مفید مشورے اور حوصلہ افزائی سے ہوتا رہتا ہے۔آج میں نے سوچا کیوں نہ ہم آپ لوگوں سے برطانیہ میں کرسمس کے تہوار اور تنہائی کے موضوع پر گفتگو کریں۔میں سب سے پہلے لوگوں کو کرسمس کے تہوار کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور آج اسی مو ضوع پر آپ کو بتائیں گے کہ برطانیہ میں کرسمس کے تہوار کیسے مناتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس موقعہ پر لگ بھگ چار ملین لوگ تنہا ئی محسوس کرتے ہیں۔
بی بی سی ریڈیو کے سروے کے مطابق برطانیہ میں 28% فی صد لوگ کرسمس کے دن تنہا ہوتے ہیں۔ جن میں 7% فی صد نوجوان ہوتے ہیں اور 10%فی صد عمر دراز لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مرد ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی ہے۔ اس مطالعہ میں 28%فی صد لوگوں نے یہ بھی کہا کہ’وہ کرسمس میں بالکل تنہا ہوجاتے ہیں‘۔ وہیں 33%فی صد معمر لوگوں نے جدید تکنالوجی کو الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ان کی تنہائی کا ایک سبب جدید تکنالوجی ہے جس نے انہیں الگ تھلگ کر دیا ہے۔ جبکہ 85%فی صد لوگوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے جلنے اور آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کرنے کو ترجیح دیا ہے۔ 65%فی صد لوگوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انہیں کرسمس کے موقعہ پر تنہا رہنے والے رشتہ دار، دوست اور پڑوسیوں کی مدد کرنی چاہیے اور کرسمس کے موقعے پر ان سے ملنا جلناچاہیے۔
تنہائی کسی بھی عمر میں ہوسکتی ہے لیکن اس میں شدّت وقت کے ساتھ ساتھ عمر دررازلوگوں میں زیادہ ہو جاتی ہے۔ایک مطالعہ کے مطابق تنہائی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً خراب صحت، ٹرانسپورٹ کی کمی، چلنے پھرنے میں دشواریاں، کم آمدنی،کسی قریبی رشتہ دار کا انتقال ہوجانا، بلا وجہ خوف کھانا اور ریٹائرمینٹ وغیرہ عام ہیں۔ لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ برطانیہ کے سماجی زندگی میں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ یہاں پڑوس میں رہنے والوں سے بمشکل ہی ملاقات ہوپاتی ہے۔بہت سارے لوگوں کا کہنا ہے کہ میری زندگی ہے کسی سے کیا لینا دینا لیکن پھر ان لوگوں کی زندگی پر افسوس آتا ہے جن سے نہ کوئی ملنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی بات چیت کرنے والا ہوتا ہے۔
بی بی سی ریڈیو نے اس سروے کو مکمل کرنے کے لئے کئی لوگوں کا انٹرویو لیا تھا ور اس پر پروگرام بھی بنائے تھے۔ جس میں لوگوں سے کرسمس کے موقعہ پر ان کی تنہائی اور اور اس کے اسباب پوچھے گئے تھے۔کئی لوگوں نے اپنے اپنے طور پر اپنی تنہائی کو ایک خطرناک اور عجیب و غریب کیفیت بتایا ہے اور یہ بھی کہا کہ اس کی تلافی کرنا بے حد مشکل ہے۔ان میں کچھ لوگ اپنی بیماری، رشتہ داروں سے دوری، خاندان کا نہ ہونا، الگ تھلگ رہنے کی عادت،غربت وغیرہ جیسی وجوہات بتائی ہیں۔
ہر سال کرسمس کے موقعہ پر برطانیہ میں ” مسٹر بین”ایک کامیڈی پروگرام دکھایا جاتا ہے جسے میں بھی شوق سے دیکھتا ہوں۔ اس پروگرام میں مسٹر بین اپنی تنہائی کو کتنی خوش اسلوبی سے دکھاتے ہیں جسے ہم سب دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ دراصل پروگرام میں دِکھایا جاتا ہے کہ مسٹر بین کرسمس سے قبل ایک کرسمس کارڈ خرید کر اسے اپنے سے خود ہی لکھتے ہیں اور کرسمس کے دن اسے کھول کر اپنے نام کے پیغام کو پڑھتے ہوئے کافی خوش ہوجاتے ہیں۔تاہم مسٹر بین کی ہنسی کے پیچھے ایک ایسا پیغام ہوتا ہے جسے دیکھ کر تنہا رہنے والے لوگوں کو تھوڑے پل کیلئے تسلی مل جاتی ہے۔
گرم چاکلیٹ کی خوشبو، وائن، منس پائی،کیرول گلوکاروں کی سریلی آواز اور کھلی ہوا میں آئس رنکس پر ناچتے بھاگتے لوگوں کی موجودگی ہی دراصل برطانیہ اور یورپ میں کرسمس تہوار کی اصل چہل پہل ہے۔کرسمس کے بازار برطانیہ کے شہروں میں لوگوں اور بچوں میں خوشی لاتے ہیں۔ پورے برطانیہ میں نومبر، دسمبر اور جنوری کے درمیان کرسمس کی شاپنگ شروع ہوتے ہی آپ کو مخصوص چوراہے، ٹاؤن ہال اور کاسل جادوئی مناظر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف رنگ برنگے قمقموں سے سجے اسٹال لوگوں کو خوب لبھاتی ہیں۔یوں تو برطانیہ میں کئی کرسمس مارکیٹ مشہور ہیں لیکن ان میں ونچسٹر کیتھیڈرل کی کرسمس مارکیٹ یورپ کی بہترین مارکیٹوں میں سے ایک ہے، جو اپنے ہلچل سے بھرپورماھول اور ونچسٹر کیتھیڈرل کے سائے میں شاندار مقام کے لیے مشہور ہے۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ برطانیہ میں کرسمس کا تہوار لوگ مذہبی اعتبار سے کم بلکہ روایتی اعتبار سے زیادہ مناتے ہیں۔د سمبر کے مہینے میں دکانوں میں خرید و فروخت کافی بڑھ جاتی ہے۔ ان دکانوں میں (John Lewis,Selfridges,Harrods) ہیروڈس، سیلگ ریجیز اور جون لویس معروف نام ہیں جہاں بھاری تعداد میں لوگ شاپنگ کرتے ہیں۔تاہم برطانیہ میں آن لائن شاپنگ کے رحجان سے شاپنگ سینٹر کی بھیڑ میں اس بار کمی پائی جارہی ہے۔
کرسمس کے دن گھروں میں زیادہ تر لوگ(Turkey)تَرکی (جو مرغ کی نسل سے بڑا ہوتا ہے) پکاتے ہیں۔ اس کے ساتھ کئی قسم کی سبزیاں بھی ہوتی ہیں اور ساتھ میں شراب کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ اُس دن لوگ نئے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں اور زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹیلی ویژن پر مزاحیہ پروگرام یا فلم دیکھتے ہیں۔ اس دن پبلک ٹرانسپورٹ مکمل بند ہوتا ہے لیکن ائیر پورٹ کھلا رہتا ہے جہاں سے لاکھوں لوگ اپنے منزل و مقصود کے لئے پرواز کرتے ہیں۔
کرسمس میں لوگ اپنے گھروں کو رنگ برنگے بتیوں سے سجاتے ہیں اور کئی علاقوں میں گھروں کی بہترین سجاوٹ کے لئے انہیں انعام سے بھی نوازا جاتا ہے۔ گھروں میں کرسمس ٹری بھی لگا یا جاتا ہے جو کہ کرسمس تہوار کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔اس موقعہ پر بہت سارے لوگ فادر کرسمس کی بھیس میں بچوں کو تفریح کا سامان پیش کرتے ہیں اور مقامی چیریٹی کے لئے پیسہ بھی اکھٹا کرتے ہیں۔پورے دسمبر کے مہینے میں چیریٹی گروپ کیرول(کرسمس کے گیت) گا کر چیریٹی کے لئے پیسہ جمع کرتے ہیں۔ کرسمس کے دوسرے روز باکسنگ ڈے ہوتا ہے جس دن لوگ تحفہ کو کرسمس ٹری کے قریب رکھ دیتے ہیں جسے بچے صبح اٹھ کر کھولتے ہیں۔ اس دن زیادہ تر دکانوں میں باکسنگ ڈے سیل بھی لگتا ہے جہاں لوگ سستے داموں میں سامان خریدنے کے لئے جاتے ہیں۔
برطانیہ میں ہر سال کرسمس سے قبل ایک دلچپ بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا اس بار سفید کرسمس دیکھنے کو ملے گی۔ اگر آپ کرسمس کارڈ کو دیکھیں گے تو زیادہ تر کارڈ برف سے ڈھکے ہوئے ڈیزائن ہی مقبول ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے زیادہ تر لوگ اس بات سے پر جوش ہوتے ہیں کہ اس بار کرسمس کارڈ میں دکھنے والی تصاویر کی طرح ہو۔ لیکن یہ سردی اور برف باری بہت سے گھرانوں کے لیے انرجی بحران کی قیمت کو مزید خراب کر سکتی ہے۔تشویشناک بات یہ ہے کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ برطانیہ گیس سپلائی ایمرجنسی میں داخل ہوسکتا ہے۔یوکرین میں جنگ اور یورپ میں گیس کی قلت کی وجہ سے اس بات کا ایک اہم خطرہ ہے کہ برطانیہ میں گیس کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
میں نے کئی برسوں تک کرسمس کے دن بے گھر لوگوں کے ڈے سینٹر میں جا کر ان کی دیکھ بھال اور ان سے بات چیت کر کے ان کی تنہائی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے میں نے اپنی انسان دوستی کا نمونہ تو پیش کیا ہے لیکن مجھے ہمیشہ کسی بھی تہوار پر انسان کی تنہائی
اور بے بسی کا دُکھ کچھ پل کے لئے مایوس اور افسردہ بھی کردیتی ہے۔میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ معاشرے میں جس تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور جس سے لوگوں میں جہاں طرز ِزندگی میں بدلاؤ آیا ہے وہیں اس کے ساتھ معاشرے میں تنہائی کا بھی احساس بڑھا ہے۔ روز مرہ کے کام و کاج کا دباؤ اور دیگر حالات نے جہاں انسان کی زندگی کو مصروف کر رکھا ہے تو وہیں کرسمس جیسے تہوار نے چارملین لوگوں کوتنہا ئی کا احساس بھی دلاتا ہے۔ہمیں ایسے لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ میں آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آنے والا سال ہم سب کے لئے نیک ہو اورخوشیوں سے بھرا ہو۔
نیا سال مبارک ہو۔