یادیں جلا ڈالیں – نظم
بس اک پل میں جلا ڈالی ہیں
ہم نے ساری یادیں
یہ مجبوری تھی یا کوئی ضرورت تھی
پتہ کچھ بھی نہیں ہے
عجیب سی ایک الجھن تھی
یا شاید کوئی مجبوری
ضروری بھی تھا
جینا اپنا دو بھر ہوگیا تھا
کہ یادیں میرا پیچھا چھوڑتی کب تھیں
سوالوں پر سوال ایک ایک کر کے پوچھتی تھیں
رلاتی تھیں، ہنساتی تھیں
کبھی زخموں کو سہلاتیں
مگر ان یادوں نے اکثر
مجھے بے چین ہی رکھا
میں کمرے کے کسی کونے میں سمٹا بیٹھا
سردی سے ٹھٹھرتا جا رہا تھا
عجب سی ایک بے چینی تھی
یادیں پھر پریشاں کرنے آئی تھیں
مرے اندر عجب سا شور برپا تھا
عجب بکھراؤ تھا مجھ میں
اور میرے سامنے ہی آگ آتش دان میں روشن تھی
سو مجبور تھا میں بھی
پھر اک پل میں وہ سب یادیں جلا ڈالیں
جو تم سے دور ہونے پر
مجھے تکلیف دیتی تھیں
وہ سب یادیں جلا ڈالیں