چیئر مین ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ ایک نشست!
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق پالیسیوں کی تشکیل اوران کے نفاذ کی ذمہ داری وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے۔ عمومی طور پر کسی پالیسی کی تشکیل کے وقت متعلقہ شراکت داروں یعنی ا سٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ تاہم بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ ایسی پالیسیاں جن میں تمام اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ مشاورت کو یقینی نہیں بنایا جاتا، وہ تنازعات میں گھری رہتی ہیں۔ متنازعہ پالیسیوں اور فیصلوں کا خمیازہ شعبہ تعلیم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دور حکومت میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کے اختیارات اور مدت ملازمت کم کرنے کا فیصلہ تنازعات کا شکار رہا۔ یہ قصہ میڈیا میں زیر بحث آیا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ عدالت تک جا پہنچا۔ آج کل ایچ۔ ای۔ سی آرڈیننس میں ترمیم کی اطلاعات اسٹیک ہولڈروں کیلئے باعث تشویش ہیں۔ علاوہ ازیں ایچ۔ ای۔ سی کی کچھ نئی اور پرانی پالیسیاں ایسی ہیں، جن پر جامعات کے سربراہان اور اساتذہ کو شدید تحفظات ہیں۔ یہ پالیسیاں مختلف فورمز پرزیربحث آتی ہیں۔ کمیشن کو مراسلے ارسال کئے جاتے ہیں۔کبھی کبھار اساتذہ سڑکوں پر احتجاج کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان پالیسیوں کے تناظر میں جامعہ پنجاب کی اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ نشست کا مقصد یہ تھا کہ تعلیمی پالیسیوں کے حوالے سے اساتذہ کے تحفظات چیئرمین تک پہنچائے جا ئیں۔
نشست کے آغاز میں اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اظہر نعیم نے اساتذہ کے تحفظات کی ایک لمبی فہرست ڈاکٹر مختار احمد کے گوش گزار کی۔ ڈاکٹر مختار احمد گزشتہ چالیس برس سے شعبہ تعلیم کیساتھ منسلک ہیں۔وہ اس سے پہلے بھی ایچ۔ای۔سی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔وہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے جامعہ پنجاب کے اساتذہ کے سوالات، تحفظات اور تجاویزکو بغور سنا۔ باری باری ہر ایشو پر اپنا موقف بیان کیا۔ تاہم کچھ معاملات پر اساتذہ کے طرز عمل پر اظہار افسوس بھی کیا۔ ہماری جامعات میں بی پی ایس اور ٹی ٹی ایس کے نام سے دو نظام رائج ہیں۔عمومی طور پر دونوں نظاموں سے وابستہ اساتذہ بھرتیوں، ترقیوں، تنخواہوں اور مراعات کے حوالے سے شکوہ کناں دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی ٹی ایس کے بارے میں ڈاکٹر مختار نے تسلیم کیا کہ یہ سسٹم جن مقاصد کے تحت متعارف کروایا گیا تھا،ان کا حصول ممکن نہیں ہو سکا۔ بہترمعاوضے کی وجہ سے اساتذہ نے ٹی ٹی ایس کا رخ کیا۔ لیکن بعد ازاں اس نظام سے عدم اطمینان کا اظہار ہونے لگا۔ طنز ومزاح کے انداز میں انہوں نے کہا کہ اساتذہ کو میٹھا میٹھا ہپ ہپ کی پالیسی پر کاربند نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال اس نشست کے نتیجے میں یہ خبر سامنے آئی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اساتذہ کی تعیناتی کے لئے ایک نظام لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس ضمن میں قومی اور بین الاقوامی ماہرین تعلیم سے مشاورت جاری ہے۔ بہت جلد ایک مسودہ تیار کر لیا جائے گا۔یہ دستاویز جامعات کو ارسال کی جائے گی۔ موصول شدہ تجاویز کو اس دستاویز کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ مسودہ سرکاری اور نجی جامعات کے سربراہان کے سامنے رکھا جائے گا۔ متعلقہ اسٹیک ہولڈروں کی رضا مندی کے بعدایک نیا نظام متعارف کروا یا جائے گا۔اس نئے نظام میں ایک ٹیچنگ اور ایک ریسرچ ٹریک ہوگا۔ تعیناتی کے وقت اساتذہ اپنی پسند اور رجحان کے مطابق ایک ٹریک اختیار کرسکیں گے۔ انہیں اس طے شدہ ٹریک کے مطابق ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ تاہم ایک سسٹم سے چھلانگ لگا کر دوسرے سسٹم میں جانے کی اجازت نہیں ہو گی، جیسا کہ ٹی ٹی ایس کے معاملے میں ہوتا رہا۔بادی النظر میں یہ ایک اچھی خبر ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس مشق کے بعد جو نظام تشکیل پائے گا وہ اساتذہ کے لئے قابل قبول ہوگا۔
ایک اہم خبر میرے پاس بھی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹی میں جز وقتی اساتذہ یا وزیٹنگ فیکلٹی ممبرز کے لئے ایم۔فل ڈگری کی شرط عائد کی تھی۔اس پالیسی نے بہت سے مسائل کو جنم دیا۔ میرا تعلق شعبہ صحافت اور علوم ابلاغیات کی تدریس سے ہے۔ لہذا اس کی مثال بیا ن کرتی ہوں۔ شعبہ صحافت اور ابلاغیات میں کالم نگاری، ڈرامہ یا فلم پروڈکشن۔ ڈرامہ یا فلم ڈائریکشن۔ رپورٹنگ۔ ایڈیٹنگ۔ ڈیجیٹل میڈیا، وغیرہ کے کورسز پڑھانے لئے ٹی وی، فلم انڈسٹری یا شعبہ صحافت سے فیلڈ ایکسپرٹ بلائے جاتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ نامور کالم نگار، رپورٹر، فلم ساز، ڈرامہ رائٹر، ڈئریکٹر، موسیقار اور دیگر ماہرین ایم۔فل ڈگری کی شرط پر پورا نہیں اترتے۔ یعنی وہ جامعات میں پڑھانے کے اہل نہیں رہتے۔ یہ صرف شعبہ صحافت اور علوم ابلاغیات کا مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سے شعبہ جات میں یہی مشکل درپیش ہے۔ اس ضمن میں میری ڈاکٹر مختار احمد صاحب سے بات ہوئی۔ گزارش کی کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کیجئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ ڈگری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن آگاہ ہیں کہ ہر شعبے میں بہت سے قابل اور ہنر مند افراد ایسے ہیں جو اعلیٰ ڈگری نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر مختار ایسے قابل، تجربہ کار اور ہنر مند افراد کو “پروفیسر۔ ان۔ پریکٹس” کے نام سے جامعات میں تعینات کرنے کی اجازت دینے کارادہ رکھتے ہیں۔ یہ پالیسی متعارف ہوتی ہے تو اس سے ایم۔ فل ڈگری کی شرط کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔تاہم لازم ہے کہ تمام پہلووں کو مدنظر رکھ کر یہ نئی پالیسی متعارف کروائی جائے۔
جامعہ میں ہونے والی نشست میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کو ہدایت کی ہے کہ اپنے بنک اکاونٹ سٹیٹ بنک آف پاکستان میں کھلوائیں۔ یہ معاملہ جامعات کے لئے نہایت تشویش کا باعث ہے۔یونیورسٹیوں کا موقف ہے کہ سٹیٹ بنک میں اکاونٹ کھلوانے سے ان کی مالیاتی خود مختاری پر زد پڑے گی۔ اس اکاونٹ کا مطلب ہے کہ مالی سال کے اختتام پر(یعنی تیس جون کو) جامعات کے اکاونٹ میں جمع شدہ رقم سے دست بردار ہونا پڑے گی۔ جامعات کی تشویش بالکل بجا ہے کہ حکومت کی طرف سے انہیں بروقت فنڈز فراہم نہیں کیے جاتے۔ انہیں کئی کئی ماہ تک فنڈز کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ماہ جون میں جامعات کے بنک کھاتے صفر ہو جائیں گے تو جامعات کے مالی معاملات کس طرح چلیں گے؟ ادائیگیاں کیونکر ممکن ہو ں گی؟ یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ اینڈوومنٹ فنڈز سے جڑے معاملات کیسے طے ہوں گے؟ ڈاکٹر مختار نے واضح کیا کہ یہ پالیسی کمیشن نہیں، وفاقی حکومت کی وضع کردہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بطور ماہر تعلیم وہ اس پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ اس پالیسی کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاکہ انہیں اس پالیسی کے مضمرات سے آگاہ کر کے نظر ثانی کے لئے قائل کر سکیں۔
انڈر گریجویٹ پالیسی پر ہونے والی تنقید کے جواب میں ڈاکٹر مختار کا کہنا تھا کہ ماضی میں کئے گئے فیصلو ں اور فیصلہ سازوں کو ہدف تنقید بنانا اچھی روایت نہیں ہے۔ جانے والوں کو کوسنے کے بجائے ہمیں مسائل کا حل تلاشنے پر توجہ دینی چاہیے۔انڈر گریڈ پالیسی ہو یا پی ایچ ڈی پالیسی، لازم ہے کہ ان میں موجود خرابیاں دور کر کے انہیں قابل قبول بنانے کی کاوش کی جائے۔ڈاکٹر مختار احمد جامعات میں ایڈہاک ازم کے خلاف ہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ سمیت دیگر ارباب اختیار کو یہ تجویز دے چکے ہیں کہ جامعہ کے وائس چانسلر کی ریٹائرمنٹ سے پہلے نئے وائس چانسلر کی تعیناتی کا عمل مکمل ہو جانا چاہیے۔ تاکہ جامعات میں بے یقینی کی صورتحال سے بچا جا سکے۔اندھا دھند سینکڑوں کالجوں کا الحاق کرنے والی جامعات پر انہوں نے تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جامعات کے پاس الحاق شدہ کالجوں کی نگرانی کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ جامعات کا یہ طرز عمل ناقص معیار تعلیم کی ترویج کا باعث بن رہا ہے۔ یہ نشست ڈاکٹر مختار کے اس وعدے پر اختتام پذیر ہوئی کہ وہ جلد جامعہ پنجاب کے اساتذہ کیساتھ ایک نشست کریں گے اور ان کے سوالات کے جواب دیں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ نشست جلد ہو گی اور ڈاکٹر مختار فراخ دلی سے اساتذہ کے سوالات کا جواب دیں گے۔