ہماری قوم ایک عرصے سے سینہ کوبی کی عادی ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہم نے یہ سلسلہ شروع کر دیا جس کا نتیجہ ایوب خان کے مارشل لاء کی صورت میں نکلا، پھر یحییٰ خان ہمارا مقدر بنے، بھٹو کی حکومت آئی تو اس کے خلاف اتحاد بنے اور ایک دفعہ پھر سینہ کوبی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چنانچہ ضیاء الحق کا مارشل لاء ہمارے حصے میں آیا۔ آج کل پھر ایک جماعت فوج کو آوازیں دے رہی ہے، دیکھیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، ویسے آج تک یہی ہوتا آیاہے کہ خواب مدینے کا دیکھتے ہیں اور تعبیر کوفے کی صورت میں نکلتی ہے۔ ایک سردار جی ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے بہت نیک نام تھے، ایک سائل ان کے پاس ڈرتا ہواآیا اور عرض کی کہ اس کے اکلوتے بیٹے پر قتل کا الزام ہے اور مقدمہ آپ کی عدالت میں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اسے پھانسی کی بجائے عمر قید کی سزا سنا دیں۔ سردار جی کا دل پسیج گیا، انہوں نے کہا میرے ساتھ دو جج اور بھی ہیں۔ میں اکیلا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بہرحال میں کوشش کروں گا کہ تمہارا بیٹا پھانسی سے بچ جائے، چنانچہ جب مقدمے کا فیصلہ سنایا تو ملزم کو پھانسی کی بجائے عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ ملزم کا باپ شکریہ ادا کرنے کیلئے سردار جی کے پاس گیا تو سردار جی نے کہا میں نے بہت مشکل سے باقی دو ججوں کو عمر قید کی سزا پر راضی کیا ہے ورنہ وہ تو تمہارے بیٹے کو بری کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
ہمارے بعض سیاست دان بھی کچھ عرصے سے قوم کے ساتھ یہی ہاتھ کر رہے ہیں یعنی جب کبھی قوم کی نجات کی امید پیدا ہوتی ہے یہ اسے بڑی کوششوں سے کسی فوجی آمر کی قید میں دے دیتے ہیں لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ
پلٹنا ، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا
تو ہمارے یہ سیاستدان فوجی آمر کو کمزور پڑتے دیکھ کر لہو گرم رکھنے کے لئے بعد میں اس کے خلاف بھی اتحادی سیاست کا آغاز کر دیتے ہیں حالانکہ اسے لانے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔ افسوس ہمارے کسی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے انہیں اقبال کا یہ شعر نہیں سنایا
روز حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
لیکن جس طبقے کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ شرمسار ہونا نہیں جانتا۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ ہم سب لوگ شرمسار ہونا بھول چکے ہیں۔ ہم لوگوں کے قول و فعل میں اتنا شدید تضاد ہے کہ گلشن سے آنے والی ہوائیں بھی ہم تک پہنچتے پہنچتے بادِصرصر کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارے عشق میں کھوٹ ہے۔ ساری عمر ’میرے مولا بلالو مدینے مجھے‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں اور جب پیسے جمع ہوتے ہیں تو ہم اللہ کا گھر دیکھنے کی بجائے خدا کی شان دیکھنے کیلئے لندن چلے جاتے ہیں۔ بعض علماء کا یہ فتویٰ موجود ہے کہ انکم ٹیکس چوری کرنا جائز ہے۔ نیز یہ کہ سونے کی اسمگلنگ از روئے شریعت حرام نہیں ہے۔ گزشتہ چودہ سو برس میں صرف ان دو امور میں اجتہاد کیا گیا ہے جبکہ اس دورا ن سینکڑوں ایسے مسائل جنم لے چکے ہیں جن کے ضمن میں اجتہاد کی اشد ضرورت ہے۔
میرے نزدیک وہ تمام چیزیں جو حضور ﷺ کے زمانے میں موجود نہیں تھیں اور جن کے بارے میں کوئی واضح حکم بھی موجود نہیں، انہیں یک قلم مسترد کرنے کی بجائے ان پر غور و فکر اور اجتہاد کی ضرورت ہے۔ کوئی قانون اندھا دھند نافذ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس سے پہلے تمام معروضی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ ایک بدو حضور نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ’روزے کے دوران مجھ سے ایک ایسی حرکت سرزد ہو گئی ہے جس سے روزہ ساقط ہو گیا ہے۔ اب مجھے کیا کرنا چاہئے‘۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ایک غلام آزاد کر دو ‘‘ بدو نے کہا کہ ’’میرے پاس کوئی غلام ہے ہی نہیں‘‘ آپ نے فرمایا ’ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو‘، بدو نے عذر پیش کیا کہ اس میں اتنی استطاعت نہیں۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ’تیس روزے رکھ لو‘ بدو بولا حضور میں تو ایک روزہ نہیں سنبھال سکا، مزید تیس روزے کیسے سنبھال سکوں گا‘ اتنے میں ایک صحابیؓ حضور نبی اکرمؐ کے پاس کھجوروں کا تحفہ لے کر آئے۔ آپ نے بدو سے کہا کہ ’’یہ کھجوریں لے جائو اور مستحقین میں تقسیم کر دو‘‘ بدو کھڑا ہو گیا اور بولا ’’حضورؐ جس خدا نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ ان کھجوروں کا مجھ سے زیادہ کوئی مستحق نہیں‘‘، اس پر رحمتہ اللعالمین ؐ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور فرمایا ’’ٹھیک ہے تم یہ اپنے بچوں میں تقسیم کر دو‘‘ میرے خیال میں حضور نبی اکر مؐ کا یہ عمل ہمارے فقہا کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اسلام ایک محدود زمانے اور کسی مخصوص طبقے کیلئے نہیں تھا بلکہ یہ تمام زمانوں اور تمام طبقوں کیلئے ہے، اگر اسلام امن ہے، محبت ہے، رحمت ہے، خدا کیلئے لوگوں کے سامنے اس کی بھیانک تصویر پیش نہ کریں۔ اگر آپ یہ تسلیم نہیں کرتے تو کم از کم اتنا کرم ضرور کریں کہ جو آپ سے اختلاف کرے اسے منکرِ اسلام قرار نہ دیں کہ وہ منکرِ اسلام نہیں بلکہ اسے صرف آپ کی اسلام کی انٹرپٹیشن سے اختلاف ہے۔ اسلام کی جو انٹرپٹیشن آج کی جا رہی ہے اقبال اس کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ قانون سازی کا حق علماء کو نہیں پارلیمنٹ کو دیتے ہیں۔ ہماری قوم عاشقِ اقبال ہے۔ ان میں ہمارے علماء بھی شامل ہیں جو اقبال کے شعروں سے اپنی تقریر اور تحریریں مزین کرتے ہیں لیکن اقبال کا کہا نہ حکمران مانتے ہیں، نہ سیاستدان نہ عوام نہ علماء، اس کی جو بات ہمیں ’’سوٹ‘‘ کرتی ہے ہم اس کا گھوٹا لگانے میںلگے رہتے ہیں اور جو ہمارے مفادات سے ٹکراتی ہے، اسے ردی کے کاغذ کی طرح پرے پھینک دیتے ہیں۔ ایک شخص کا پہاڑی سے پائوں پھسلا مگر خوش قسمتی سے ایک درخت کی شاخ اس کے ہاتھ میں آ گئی۔ اب وہ درخت سے لٹکا ہوا تھا، اس نے اس جنگل میں بے بسی سے پکارا ’’کوئی ہے‘‘ غیب سے آواز آئی ’’میں تیرا خدا ہوں، بول کیا چاہتا ہے‘‘، درخت سے لٹکے ہوئے شخص نے کہا میری جان خطرے میں ہے، مجھے بچایئے۔ اللہ نے فرمایا ’’جو میں کہتا ہوں تم وہ کرو، جو شاخ تم نے پکڑی ہوئی ہے وہ چھوڑ دو‘‘، یہ سن کر اس شخص نے ایک دو لمحے توقف کیا اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر باآواز بلند پکارا، ’’کوئی اور ہے؟‘‘ یہی حال ہماری پوری قوم کا ہے۔ ہم خدا اور اسکے رسولؐ کے ماننے والے ہیں، عاشق اقبال بھی ہیں لیکن روایات کی وہ شاخ چھوڑنے کو تیار نہیں جو عارضی طور پر ہمارا سہارا بنی ہوئی ہے۔