منتخب تحریریں

 سیف سٹی اسلام آباد کے ناکارہ سی سی ٹی وی کیمرے 

Share

قابل ا عتماد ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف صاحب ’’نوائے وقت‘‘ کے دیرینہ اور باقاعدہ قاری ہیں۔اگر یہ دعویٰ درست ہے تو امید باندھنے میں کوئی حرج نہیں کہ آج کے لکھے میرے کالم پر بھی ان کی نگاہ پڑ جائے گی۔ اس کے ذریعے کسی ذاتی مسئلہ پر ا ن کی توجہ دلانا مقصود نہیں۔ منگل کی رات ایک واقعہ ہوا ۔اتفاقاََ اس کا عینی شاہد بن گیا۔جو حقائق میرے مشاہدے میں آئے 1990ء کی دہائی تک پورے ملک کے لئے ’’مثالی‘‘ تصور ہوتے اسلام آباد میں ان دنوں انتظامی بندوبست کے مکمل فقدان کی نشاندہی کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اس شہر کا رہائشی ہونے سے گھبرا گیا ہوں۔

منگل کی شام ایک مہربان دوست نے پائے کھلانے اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ سورج ڈھلنے کے بعد مختلف طبی وجوہات کی بنا پر میں گاڑی چلانے کے قابل نہیں رہا۔ مشترکہ دوست کھانے کی دعوت کریں میری شرکت یقینی بنانے کے لئے چنددوست محبت میں میرے ’’ڈرائیور‘‘ بن جاتے ہیں۔بہرحال منگل کی رات بارہ بجے کے بعد اسلام آباد کی معروف شاہراہ مارگلہ روڈ سے ایف 8کی جانب رواں تھے تو فیصل مسجد کے قریب دو گاڑیاں سڑک کے عین درمیان کھڑی نظر آئیں۔محسوس ہوا کوئی حادثہ ہوگیا ہے۔میرے جو دوست گاڑی چلارہے تھے شیشہ اتار کر دس کے قریب جمع ہوئے افراد سے معلوم کرنے کو مجبور ہوئے کہ معاملہ کیا ہے۔خبر ملی کہ موٹرسائیکل پر سوار ایک نوجوان کو کسی تیز رفتار کارنے ٹکرمارکر اچھال دیا ہے۔ وہ سڑک کو تقسیم کرنے والے حصے میں زخموں سے چور کراہ رہا تھا۔

اس کی خاطر رکنے والے لوگوں کا اصرار تھا کہ وہ گزشتہ کئی منٹوں سے پولیس اور ایمبولینس سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کی داد فریاد کی مگر شنوائی نہیں ہورہی۔ زخمی نوجوان کی ٹانگ سے خون مسلسل بہہ رہا تھا۔ میر ے دوست نے فیصلہ کیا کہ ایمبولینس کا مزید انتظارکرنے کے بجائے اسے اپنی جیپ کی پچھلی سیٹ پر لاد کر فوری طبی امداد کے لئے اسلام آباد کے مرکزی ہسپتال کی ایمرجنسی تک پہنچادیا جائے۔ وہاں موجود ایک نیک دل شخص نے اس ضمن میں معاونت فراہم کی۔ زخمی نوجوان اگرچہ اس کے لئے اجنبی تھا۔ زخموں سے کراہتے نوجوان کو بالآخر ہم پمز ہسپتال کی ایمرجنسی تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس وارڈ کے مرکزی دروازے کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے کے بعد سٹریچر کے لئے پکارتے رہے۔بالآخر صندوق نما بند ڈبہ دکھتا ایک ’’سٹریچر‘‘نمودار ہوا۔اس پر چڑھایا ’’گدا‘‘ مختلف جگہوں سے پھٹ چکا تھا۔ اس میں موجود روئی گدے پر بکھری ہوئی تھی۔ ایمرجنسی وارڈ میں بھی صرف ایک ڈاکٹر موجود تھا۔ جو ’’وارڈ بوائے‘‘ کو مدد کے لئے ڈھونڈنے میں مصروف ہوگیا۔ بالآخر ہمیں اطمینان ہوا کہ زخمی نوجوان کو ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ کے سپرد کردیا گیا ہے۔

گھر لوٹنے کے بعد لیکن میں پوری رات سو نہیں سکا۔ سنا تھا کہ اسلام آباد بھاری بھر کم سرمایے سے لگائے cctvکیمروں کی بدولت آج سے دس سال قبل ’’سیف سٹی‘‘ بن گیا ہے۔اس کی شاہراہوں پر رواں ٹریفک پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔رات کے اندھیرے میں بھی کسی گاڑی کے ڈرائیور اور دیگر سواریوں کی صورتیں ریکارڈ ہوجاتی ہیں۔حتیٰ کہ گاڑی کا نمبر بھی رجسٹرہوجاتا ہے۔

مارگلہ روڈ اسلام آباد کی مصروف ترین اور مرکزی شاہراہ ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ اگر واقعتا اس کی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے مسلسل مانیٹرنگ ہورہی ہے تو منگل کی رات ہوا حادثہ بھی ’’کنٹرول روم‘‘کی نظر میں آگیا ہوگا۔اس کے بعد اسی کنٹرول روم سے پولیس اور ایمبولینس کو جائے حادثہ کی طرف منٹوں میں بھیجا جاسکتا تھا۔ زخمی نوجوان کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رضا کارانہ مدد کو آمادہ دس کے قریب لوگ مگر موبائل فونوں کے مسلسل استعمال کے باوجود مذکورہ سہولتوں کے حصول میں ناکام رہے۔

تقریباََ چار ماہ قبل مارگلہ روڈ ہی پر میرا ایک دوست فضائیہ یونیورسٹی کے سامنے لگے سگنل پر کھڑا تھا تو پیچھے سے آئی ایک کار اس کے پچھلے حصے سے ٹکراگئی۔چند نوجوان صحافیوں کی پرخلوص تڑپ کے باوجود پولیس کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں 20سے زیادہ منٹ لگے۔

ہمیں مسلسل بتایا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں نقل وحرکت پر کڑی نگاہ رکھنے کے لئے سی سی ٹی وی کے علاوہ پولیس بھی مرکزی شاہراہوں پر گاڑیوں میں مسلسل پٹرولنگ یقینی بنارہی ہے۔دو واقعات کے ذاتی مشاہدے کے بعد مگر ایسا بندوبست مجھے ہرگز نظر نہیں آیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نگرانی اور پولیس پٹرولنگ کے باوجود حادثوں کا نشانہ بنے شہریوں کو ریاست کی جانب سے کوئی والی وارث میسر ہی نہ ہو تو مذکورہ بندوبست محض خطیر سرمایہ کاری کے زیاں سے تیار ہوا فروعی تام جھام ہی محسوس ہوگا۔چند شہریوں کی نیک دلی اور رضاکارانہ امداد ہی ’’ہنگامی‘‘ صورتحال سے بے سروسامانی کے عالم میں نبردآزما ہونے کی راہ تلاش کرتی رہے گی۔

شہباز شریف 2008ء سے 2018ء تک اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے سلطانی اختیارات والے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ان دنوں ان کا اقتدار ’’27کلومیٹر‘‘ تک محدود ہوا نظر آرہا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں وہ میڈیا میں ہمہ وقت شہریوں کی خدمت کو بے چین دکھائے جاتے تھے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ’’27کلومیٹر‘‘ پر حکمرانی کے دوران انتظامی معاملات کے حوالے سے ان کی ’’خادم اعلیٰ‘‘ والی شہرت بالآخر محض اشتہاری کمپنیوں کی بنائی داستان ہی ثابت ہونا شروع ہوجائے گی۔ ’’سیف سٹی‘‘ کا کنٹرول روم اگر حادثوں کا شکار ہوئے بدنصیبوں کے لئے ہنگامی مدد فراہم نہیں کرپارہا تو اس کا واحد مقصد شہریوں کا تحفظ نہیں بلکہ ان کی نقل وحرکت پر ’’جاسوسوں والی‘‘ نگاہ رکھنا ہی محسوس ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم اس پہلو کی جانب توجہ دینے کو آمادہ ہوں گے یا نہیں۔