Site icon DUNYA PAKISTAN

اسلام آباد ہائیکورٹ کا بچے پولش ماؤں کے حوالے کرنے کا حکم: ’کیا بچی کی والدہ نے نکاح سے پہلے اسلام قبول کیا؟‘

Share

اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا ہے کہ دو بچے، جن کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے گئے تھے، پولینڈ سے تعلق رکھنے والی اپنی ماؤں کے حوالے کیے جائیں۔

ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے حکم دیا کہ بچے جب چاہیں پاکستان آ کر اپنے والد سے مل سکتے ہیں اور دونوں خواتین یہ ملاقات یقینی بنائیں گی۔

گذشتہ سماعت پر بچوں کی حوالگی سے متعلق اس کیس میں پاکستانی شوہر محمد سلیم نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ ’مسجد گھر سے دور ہونے‘ کی وجہ سے بچوں کو پولینڈ سے پاکستان لے آئے تھے جس پر عدالت نے برہمی ظاہر کی تھی۔

کیس کی سماعت کے بعد صحافیوں نے بچوں سے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ آیا وہ اپنی ماؤں کے ساتھ پولینڈ جانے پر خوش ہیں۔ اس دوران والد بھی یہ کہتے رہے کہ ’سچ بولو بچوں‘ مگر بچے کوئی جواب نہ دے سکے۔

بچوں کو ماؤں کے حوالے کرنے سے قبل والد سے ملوایا بھی گیا۔

پاکستانی شوہر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان میں سے ایک خاتون سے ان کی طلاق ہو چکی ہے جبکہ ’صرف اور صرف مذہب کی وجہ سے‘ ان کے اپنی بیویوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تھے۔ 

’کیا بچی کی والدہ نے نکاح سے پہلے اسلام قبول کیا؟‘

بدھ کو سماعت کے دوران پولینڈ کے دونوں بچے اپنی ماؤں اور پولش سفارتی حکام کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر بچوں کے والد، وکلا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس مجسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ’کیا ایف آئی اے نے پاسپورٹ اپنے قبضے میں لے لیے ہیں؟‘ اس پر ایف آئی اے حکام نے ہاں میں جواب دیا۔

دوران سماعت بچوں کی والدہ کے وکیل بیرسٹر عقیل ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری استدعا ہے کہ عدالت بچوں کا انٹرویو چیمبر میں کر لیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بچوں کا والد محمد سلیم چھٹیاں گزارنے کے لیے بچوں کو پاکستان لے کر آیا لیکن واپس نہیں گیا۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ ’بچوں کے والد نے انھیں غیرقانونی طور پر 14 ماہ تک اغوا کیے رکھا اور بچوں کو 14 ماہ تک ان کی ماؤں کی محبت سے محروم رکھا گیا۔‘

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’ماؤں نے اپنے بچوں کی حوالگی کے لیے نہ صرف پولینڈ بلکہ پاکستان میں بھی تمام متعلقہ حکام سے رابطہ کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ دونوں بچے پولینڈ کے شہری ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی فیملی کورٹ کسٹڈی سے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتی۔‘ انھوں نے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس خواجہ شریف کے 2010 فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسی طرح کے کیس میں پولش بچے واپس بھیجے گئے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فیملی کورٹس کم عمر بچے ماؤں کے حوالہ کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ استدعا ہے بچوں کو ان کی ماؤں کے حوالہ کر دیا جائے۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے قانونی نکات سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔

دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے دونوں بچوں کو روسٹرم پر بلا لیا اور اپنے پاس کھڑا کرلیا۔ تھوڑی دیر ان سے بات کی اور دونوں بچوں کو لے کر چیمبر میں چلے گئے جہاں بچوں کا انٹرویو لیا۔

اس دوران کمرہ عدالت میں موجود بچوں کی مائیں آبدیدہ ہوگئیں اور ایک والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ چیمبر سے واپسی پر بچے اپنی ماؤں کے پاس چلے گئے۔

دوبارہ سماعت شروع ہونے پر عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا بچی کی والدہ نے نکاح سے پہلے اسلام قبول کیا؟‘ جس پر پولش خاتون نے اپنے وکیل کے ذریعے بتایا کہ ’میں نے 2005 میں نکاح کیا لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔‘

عدالت نے دوسری خاتون سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ کی سلیم کے ساتھ شادی تھی؟‘ جس پر خاتون نے بتایا کہ ’میرا سلیم کے ساتھ نکاح نہیں تھا اور نہ ہی اسلام قبول کیا۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا بچے پولینڈ کے سکول میں پڑھ رہے تھے؟‘ جس پر خاتون نے ہاں میں جواب دیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا بچے پاکستان میں بھی پڑھ رہے ہیں؟‘ جس پر وکیل نے بتایا کہ ’جی! بچے راولپنڈی کے ایک نجی سکول میں پڑھ رہے ہیں۔‘

شوہر سلیم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سات سے زیادہ عمر کے بچوں سے عدالت رائے لے سکتی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ آخری بار بچے کس کے پاس تھے۔ ’ماں یا باپ جو بھی قانونی گارڈین ہے، عدالت ان سے متعلق فیصلہ کر دے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں چھ سال کے بچوں کا مذہب کیسے تبدیل کرایا جا سکتا ہے۔‘ ایڈشنل اٹارنی جنرل کے مطابق ’ان دونوں نے خود کہا پولینڈ میں ان کا طے تھا کہ وہ چرچ میں، یہ مسجد میں بچے لے جایا کریں گے۔‘

’اس طرح پھر 18 سال کے بعد بچے خود طے کر لیں گے کہ انھوں نے کون سا مذہب اختیار کرنا ہے۔‘

عدالت نے شوہر سلیم سے استفسار کیا کہ ’اگر بچے آپ کو دیے جائیں تو مائیں ملاقات کیسے کریں گی۔‘ جس پر سلیم نے عدالت کو بتایا کہ ’مائیں جب چاہیں بچوں سے ملاقات کر سکتی ہیں اور وہ ان کو پاکستان کا ریٹرن ٹکٹ اور یہاں کے اخراجات بھی میں خود ادا کریں گے۔‘

عدالت کے استفسار پر دونوں ماؤں نے بھی کہا کہ ’اگر بچے ان کے پاس ہوں تو والد جب چاہیے جیسے چاہے بچوں سے ملاقات کر سکتا ہے۔‘

دلائل سننے کے بعد عدالت نے دونوں بچوں کو ان کی ماؤں کے حوالے کرنے اور بچوں کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے بچوں کے پاسپورٹ بھی ان کے حوالہ کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ بچے جب چاہیں اپنے والد کو پاکستان آ کر مل سکتے ہیں۔ ’بچوں کی مائیں بچوں کی والد سے پاکستان میں ملاقات یقینی بنائیں گی۔‘

’گھر کے پاس مسجد بنا لیں‘: منگل کے روز کی سماعت کا احوال

ہائیکورٹ نے بچوں کے والد کو اپنے اور بچوں کے پاسپورٹ بھی ایف آئی اے حکام کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

عدالت نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ بدھ کی پیشی تک ان بچوں کو ان کی ماؤں کے ساتھ پولینڈ کے سفارت خانے میں رکھا جائے۔

منگل کے روز سماعت کے دوران دونوں پولش خواتین، ان کے پاکستانی شوہر سلیم، اور  پولش سفارت خانے کے حکام جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں پیش ہوئے۔ 

سماعت کے دوران دونوں ماؤں کے دونوں بچوں کو بھی عدالت پیش کیا گیا جہاں مائیں اپنے بچوں سے ملنے کے بعد اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔

دوران سماعت پاکستانی شوہر سلیم نے عدالت کو بتایا کہ وہ رضامندی سے بچوں کو پاکستان لائے تھے۔ انھوں نے کہا کہ صرف اور صرف ’مذہب کی وجہ سے‘ ان کے اپنی بیویوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔ 

انھوں نے کہا کہ ان کی بیویاں ’بچوں کو چرچ لے جاتی تھیں۔‘

محمد سلیم نے عدالت کو بتایا کہ پولینڈ میں ان کا بہت بڑا کاروبار ہے اور وہ ان دونوں خواتین کی مالی طور پر بہت مدد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں بچوں کی خاطر شہریت بھی کینسل کروا سکتا ہوں۔‘

بینچ کے سربراہ نے محمد سلیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پولینڈ کی شہریت رکھ لیں، وہاں جا کر پھر بچوں کی تربیت کر لیں۔

محمد سلیم نے عدالت کو بتایا کہ وہاں مسجد ان کی رہائش سے 300 کلومیٹر دور ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ان کے اتنے ریسٹورنٹس ہیں تو وہ مسجد گھر کے قریب ہی بنوا لیں تو ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا دونوں خواتین پاکستانی شوہر کے ساتھ بات کرنا چاہتی ہیں، جس پر دونوں خواتین نے انکار کردیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے جب خواتین کی پاکستان آمد سے متعلق استفسار کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ دونوں خواتین منگل کی صبح اس سماعت کے لیے ہی پاکستان پہنچی ہیں۔ 

عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں مزید دلائل سن کر فیصلہ کیا جائے گا۔

عدالت نے دونوں بچوں کے پاسپورٹس اور پاکستانی شوہر کے پاسپورٹ ایف آئی اے میں جمع کروانے کا حکم بھی دیا اور کہا کہ عدالت نے دونوں بچوں کی اپنی ماؤں کو عارضی حوالگی کی ہے۔

اس موقع پر سلیم نے عدالت کو بتایا کہ ان کی سابق اہلیہ جوہانہ محمد پاکستان آتی رہی ہیں اور دونوں کی طلاق باہمی رضامندی سے ہوئی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا طلاق کے باوجود بھی آپ اکٹھے رہ رہے تھے، جس پر محمد سلیم نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم طلاق کے باوجود رہ رہے تھے اور ہم دونوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔‘

عدالت نے محمد سلیم کے جواب پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ طلاق کے باوجود اپنی بیوی کے ساتھ رہ رہے تھے تو آپ نے اپنے خلاف آرڈر کو چیلنج نہیں کیا۔

محمد سلیم نے بتایا کہ گذشتہ برس اگست میں وہ دونوں بچوں کی ماؤں سے 18 دن کی قانونی اجازت لے کر پاکستان آئے تھے۔ دوران سماعت انھوں نے بچوں کو پاکستان لانے سے متعلق اجازت نامہ عدالت کے سامنے پیش کیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پولینڈ میں دونوں بچے سکول میں پڑھ رہے تھے اور ان بچوں کے پاس پولینڈ کی شہریت ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پاکستان میں ان کا قیام مدت سے زیادہ ہو چکا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا محمد سلیم کی پاکستانی شہریت منسوخ ہو چکی ہے، جس پر سلیم نے بتایا کہ ان کی پاکستانی شہریت منسوخ نہیں ہوئی جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مطلب آپ کے پاس دوہری شہریت ہے اور یہ تو جرم ہے۔

سلیم نے عدالت کو بتایا کہ اُنھیں علم نہیں تھا کہ دوہری شہریت جرم ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کا پولینڈ کے ساتھ دوہری شہریت کا کوئئ معاہدہ نہیں۔

ایک موقعے پر جسٹس محسن اختر کیانی نے محمد سلیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہاں چلے جائیں اور پولینڈ میں ہی رہیں، جس پر سلیم نے کہا کہ پولینڈ میں مسجد دور ہے۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ’کوئی مسئلہ نہیں، آپ وہاں مسجد بنا لیجیے گا، آدھے پاکستان میں غیر قانونی مساجد بنی ہوئی ہیں، جب ریسٹورنٹ بن جاتے ہیں تو مسجد بھی بن جائے گی۔‘

Exit mobile version