منتخب تحریریں

مسلم لیگ (ن) حکومت کیا کر رہی ہے؟

Share

اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے بہی خواہوں کو اپنے ساتھ رکھنا ہے تو اپنی جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف سےعجز و انکسار، ملنساری اور اپنے لوگوں سے محبت کے تعلقات برقرار رکھنے کا گُر سیکھیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی تقریباً تمام قیادت قید و بند کی شدید مشکلات برداشت کر چکی ہے مگر پارٹی سے ان کی کمٹمنٹ میں کوئی کمی نہیں آئی مگر یہ سب پڑھے لکھے لوگ ہیں جنہیں یہ بات سمجھ آنا چاہیے کہ صرف قید و بند سے پارٹی کے ساتھ کمٹمنٹ کے تقاضے پورے نہیں ہوتے کیونکہ پارٹی نے الیکشن بھی لڑنا ہوتا ہے جس کے دوران آپ کو ان سب لوگوں کی کسی نہ کسی سطح پر ضرورت پڑتی ہے، جو آپ کے حلقے کے لوگ ہیں یا حلقے سے باہر، آپ کے جو بہی خواہ ہیں ان کے دل بھی جیتنا ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک عاشق جو پارٹی کی خاطر اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر چکے ہیں وہ گزشتہ روز مجھ سے ملنے آئے اور آتے ہی انہوں نے شکایات کا ڈھیر لگا دیا۔ ان شکایات میں سرفہرست مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا معاشی بحران پر قابو نہ پاسکنے کا مسئلہ تھا، اس حوالے سے انہوں نے جو بات کہی اس کا بیان آگے چل کر کرتے ہیں، ان کی ایک بہت جائز شکایت یہ تھی کہ ان کے وزرا اب کسی کا فون تک نہیں سنتے، کسی میسج کا جواب نہیں دیتے، اگر ان کا کوئی چھوٹا موٹا کام ہے تو نہ کرنا تو الگ بات ہے اس کا ذکر ہی گول کردیتے ہیں، اپنے نمایاں بہی خواہوں کی خوش غمی میں شریک ہونا تو دور کی بات ہے اس حوالے سے رسمی غم کا میسج اور خوشی کے موقع پر مبارک باد تک کا میسج کرتے ان کے ہاتھ دُکھتے ہیں۔

میرے اس دوست کی یہ کتھا بہت طویل تھی، میں نے انہیں کہا پارٹی اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے، ان کی اس فروگزاشت سے درگزر کرنا چاہیے مگر میرے یہ انتہائی مخلص دوست میری بات سے مطمئن نہیں ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی اتحادی پارٹیاں اس معاملے کی اہمیت کو سمجھتی ہیں، وہ اپنے حلقے یا حلقے سے باہر کے دوستوں کے ٹرانسفر، تقرری اور تھانے کچہری کے کاموں میں دن رات مشغول ہیں، چنانچہ آپ تحقیق کرکے دیکھ لیں میری بات غلط ثابت نہیں ہوگی۔ گزشتہ حکومتوں کی ہر طرح کی تقرریاں بھی برقرار ہیں اور ان سے بہتر افراد کو اس لئے اہمیت نہیں دی جارہی کہ یہ پارٹی کے ساتھ پوری طرح کمیٹڈ ہیں، یہ کسی بھی حال میں کہیں نہیں جائیں گے، میں نے ذاتی حوالے سے ان کی تردید کی مگر ان کا کہنا تھاکہ کسی استثنا کو مثال نہیں بنایا جاسکتا۔

ان باتوں کے علاوہ میرے یہ دوست اس حوالے سے بھی سخت پریشان تھے کہ عمران خان کے دور میں معیشت بہت تیزی سے ڈھلوان کی طرف رواں تھی، مسلم لیگ (ن) حکومت کا دعویٰ تھا کہ ان کے حکومت میں آتے ہی معاشی صورتحال بہت جلد بہتری کی طرف جاتی محسوس ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا، معیشت کا ڈھلوان کی طرف سفر جاری و ساری ہے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ ٹکے ٹوکری ہوگیا ہے۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے، غریب عوام کے لئے دال روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ وہ بازار میں جاتے ہیں تو ان کے بچے ان کی واپسی کی راہ تک رہے ہوتے ہیں کہ آج وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں گے لیکن ان کے حصے میں وہی اور اتنا ہی ہوتا ہے جو ان کا مقدر بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا سفید پوشوں کی سسکیاں ہر صاحب دل کو سنائی دیتی ہیں سوائے ان کے جن کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں، دوسری طرف شاپنگ مالز میں جائیں تو لگتا ہے کہ ہم کسی اورہی ملک میں آگئے ہیں، لوگ ہزاروں اور لاکھوں کی خریداری کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں کے پورچ میں دو دو کروڑ مالیت کی گاڑیاں کھڑی ہیں، میرے دوست بتارہے تھے کہ لوگوں کی زندگیوں میں زمین آسمان کے اس فرق کی وجہ سے ذہنی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب مرد اور عورتیں سڑکوں پر کسی قدرے پردے والی جگہ میں بیٹھ کرنشہ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے علاوہ ہر سڑک کی کراسنگ پر فقیروں کی ڈاریں کی ڈاریں نظر آتی ہیں ، فقیروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آتی تھی، انہیں تو اب بھی نظر نہیں آتی ہوگی جو حالات کی سنگینی کو نہیں سمجھ رہے۔

میں نے دوست کی یہ باتیں سنیں تو میں نے کہا میں آپ کی سب باتوں سے اتفاق کرتا ہوں مگر کیا ہم لوگ صرف باتیں ہی کرتے رہیں گے اور غریبوں کے مرثیے پڑھتے رہیں گے، لوگ کسی مؤثر طریقے سے اپنا احتجاج مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت تک کیوں نہیں پہنچاتے، لکھنے والوں اور ٹی وی اینکرز کی ایک تعداد آئینی اور قانونی نکتہ آفرنیوں میں مگن رہتی ہے، یہ دو انتہائی مؤثر ذریعے ہیں جن کے ذریعے حکومت کو ’’آواز‘‘دی جاسکتی ہے۔ میرے دوست نے مجھ سے اتفاق کیا اور کہا کچھ مخلص لوگ جن میں سے وہ ندیم اشرف صاحب کو بھی جانتےہیں، اپنی استعداد سے زیاہ سفید پوشوں کے گھروں تک پہنچ رہے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بہت معقول مدد کرتے ہوئے، نہ اپنی تصویر اور نہ اس کی تصویر شائع کرتے ہیں جس کی مدد کی جا رہی ہوتی ہے، ہم دونوں کی اس ملاقات کا اختتام دونوں ہاتھ فضا میں پھیلاتے ہوئے اس دعا پر ہوا کہ اگر موجودہ حکومت سے اپنے فرائض کماحقہ پورے نہیں ہو رہے تو اے خدا تو ہی اس سلسلے میں کچھ کر! ہم لوگ اپنے مسائل کا حل بالآخر دعا ہی میں تلاش کرتے ہیں۔