گندی باتیں، صاف لوگ
ذہن بنا کر بیٹھا تھا کہ سال کی آخری بکواس لکھنی ہے تو کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر صالح باتیں لکھوں گا، ان تنگدستوں کا ذکر کروں گا، جنھوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر سیلاب زدگان کی مدد کی، ان سیاستدانوں کا ذکر کروں گا جو گالیاں کھاتے جاتے ہیں پھر بھی ملک کی خدمت سے باز نہیں آتے، ان سپاہیوں کا تذکرہ جو شہادتیں پائے جاتے ہیں اور اپنے جرنیلوں کی وجہ سے پھر بھی عزت وہ نہیں پاتے جو ان کا حق بنتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کھولا تو ہر طرف ٹوٹے ہی ٹوٹے پائے۔
پہلے دل باغ باغ ہوا کہ جس چیز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے گندے بدبودار سنیما میں جانا پڑتا تھا، پولیس کا خوف رہتا تھا وہ آپ کے فون پر دستیاب ہے۔
لاہور کے مون لائٹ سنیما میں ایک دفعہ چھاپا پڑا تھا تو سنیما کے باہر گنڈیریاں بیچنے والے کو بھی کوڑے پڑے تھے۔ اب آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں ٹوٹے تو نہیں سن رہا (ہر دل سے آواز ہی نکل رہی ہے کہ ویڈیو کب دکھاؤ گے)۔
میں تو اس ملک کے سیاسی حالات پر تجزیہ نگاری ہی سن رہا ہوں اور بیچ میں کسی نے یاد بھی دلا دیا کہ کیا تمھیں سیاست کرنی ہے یا نہیں۔
پھر ٹوٹوں پر تجزیہ نگاروں کے تجزیے سنے جس میں وہ کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر کہہ رہے تھے کہ ایسی پرسنل اور پرائیویٹ گفتگو ریکارڈ کرنا بھی گناہ، نشر کرنا بھی گناہ، لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں نا۔۔۔
اس کے بعد جو ہمیں دکھاتے ہیں وہ بھی ایک طرح سے سیاسی ٹوٹے ہی ہیں۔ کوئی ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ شیطان صالح لوگوں کو ہی بہکاتا ہے۔ وہ خونی لبرلوں پر اپنا وقت کیوں برباد کرے کیونکہ ان کے دل تو وہ پہلے ہی جیت چکا۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آپ نے جتنا نیک بننے کی کوشش کی ہے کیا آپ کے دل میں اتنے ہی زیادہ شیطانی خیالات نہیں آتے۔
بچے ہوتے ہیں تو تراویح پڑھتے حساب کرتے ہیں کہ میٹرک کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ کتنے اور کم از کم کتنے نمبر آئیں گے۔
تھوڑے بڑے ہو جائیں تو سجدے میں بھی گلی کی نکڑ والی لڑکی یا لڑکے کا خیال آجاتا ہے۔ میں نے تو عمرہ کرنے والوں اور حاجیوں سے بھی سنا ہے کہ حرمین میں بھی شیطان اپنے کام سے باز نہیں آتے۔
بھولے بسرے معشوق اور ان کی ہوئی اچھی گندی باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔ ایک دوست نے تو یہ بھی کہا کہ میں شیطان کو کنکریاں مار رہا تھا اور دل میں گنگنا رہا تھا کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو۔
میں خود بھی جمعہ کا خطبہ سن رہا تھا، مولانا طارق جمیل کی یاد آ گئی۔ (اللہ ان کو صحت دے کیونکہ ہماری آنے والی نسلوں کی آخرت کی جنسی تعلیم ان کے ذمے ہے۔)
میرا پاک دل ستر گز لمبی حوروں کو سیاسی تجزیہ سنا رہا تھا پھر شیطان نے بہکایا اور میں جمعہ کی نماز میں یہی سوچتا رہا کہ پتہ نہیں جنت میں ایک صدی تک جاری رہنے والے احتلام کے بعد سگریٹ پینے کی اجازت ہو گی یا اس کے لیے جہنم جانا پڑے گا۔
تو بھائیو اور بہنو اگر مجھ جیسے گناہگار کے جمعہ کو شیطان اتنا خراب کر سکتا ہے تو سوچو دور حاضر کے صلاح الدین ایوبی کے لیے وہ کیسے جال بچھاتا ہوگا۔
ابھی ٹوٹوں بھرے اس سال سے اپنے ذہن کو صاف کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ جنرل باجوہ کے گھر کی صفائی کے احوال پڑھے۔ اردگرد دیکھا اپنا گھر مجھے تو صاف ہی لگا مگر بتایا گیا کہ ہمارے گھر کے فرش صاف کرنے والا پوچا پرانا ہو گیا ہے نیا لا دیں۔
میں باجوہ صاحب کے گھر کی صفائی کے ذکر سے حیران تھا اور سوچتا تھا کہ شاید اب ریٹائرمنٹ کے بعد گھر کے پوچے کی ذمہ داری انھوں نے خود سنبھال لی ہے، جیسے سپہ سالار ہوتے ہوئے انھوں نے ملک کے وہ کام بھی سنبھال رکھے تھے جو ان کے ذمے نہ تھے۔
دکاندار نے پوچھا کہ پوچا کیسا چاہیے، ڈنڈے والا یا بغیر ڈنڈے والا۔ مجھے یقین ہے باجوہ صاحب کا ڈنڈا چھن گیا مگر گھر میں پوچا تو ڈنڈے والا ہی لگاتے ہوں گے۔ میں نے بھی ڈنڈے والا چنا۔ قیمت 595 روپے دے کر میرے چہرے پر جو تاثرات آئے وہ دکاندار نے پڑھ لیے اور مجھے 550 روپے کا دے دیا۔
اب سوچتا ہوں اس سے پہلے دماغ کا گند صاف کروں یا گھر کا فرش۔ ایک دوست سے ذہنی پراگندگی کا ذکر کیا تو اس نے کہا چھوڑو بھائی آج غالب کی سالگرہ ہے۔ یہ غزل پڑھو، ایک شعر یاد رہ گیا سو پیش خدمت ہے۔
اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستان کیے ہوئے
نیا سال مبارک
بشکریہ بی بی سی اردو