Site icon DUNYA PAKISTAN

طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا خاتمہ ہوتے ہی سکیورٹی صورتحال مخدوش: حکومت کیا کرتی رہی؟

Share

رواں برس مئی میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد ملک میں سکیورٹی کی صورتحال میں آنے والی بہتری کا کریڈٹ تو سب لیتے دکھائی دیے تھے لیکن نومبر کے آخر سے اس جنگ بندی کے خاتمے کے بعد جس تیزی سے حالات بگڑے ہیں، اس کی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومت مسلسل ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں۔

حکومت پاکستان اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کی معطلی اور پھر جنگ بندی کے خاتمے کے بعد شدت پسندوں کی جانب سے گذشتہ ایک ماہ میں 60 سے زیادہ حملے کیے گئے، جن میں 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ان میں سے بیشتر پولیس اور سکیورٹی اہلکار تھے۔

مئی 2022 میں جب تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی کا اعلان کیا تو اس کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائل اضلاع ہوں یا ملک کے دیگر علاقے سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور عام شہریوں پر حملے لگ بھگ رک گئے اور ایسے چند ہی واقعات رونما ہوئے اور ان کے بارے میں بھی کہا گیا کہ ان کارروائیوں میں ٹی ٹی پی نہیں بلکہ دیگر شدت پسند گروہ ملوث ہو سکتے ہیں۔

تاہم جنگ بندی کے خاتمے کے بعد بڑے پیمانے پر شدت پسندوں نے ایک نئی شدت سے حملے شروع کیے۔ ان حملوں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ایک دن میں چار سے پانچ یا اس سے بھی زیادہ حملے کیے گئے جن میں سے بیشتر کا نشانہ تھانے اور پولیس کی گاڑیاں، سکیورٹی فورسز کے قافلے اور چوکیاں بنیں۔

اگرچہ تشدد کے یہ واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہوتے رہے ہیں لیکن اسلام آباد میں خودکش دھماکے کے بعد لوگوں میں اب خوف مزید بڑھ گیا ہے۔

ان حملوں سے بظاہر ایسا تاثر بھی سامنے آیا کہ جیسے ملک میں امن کا قیام تحریکِ طالبان کی مرضی پر منحصر ہو اور وہ جب چاہیں ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کو درہم برہم کر سکتے ہیں اور ان کارروائیوں کی روک تھام کے لیے پولیس اور سکیورٹی اداروں کے پاس کوئی منظم منصوبہ نہیں۔

اپریل میں جب وفاق میں تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو وہ تمام شدت پسند تنظیموں سے مذاکرات کی پالیسی کا اعلان کر چکی تھی لیکن موجودہ اتحادی حکومت بظاہر مذاکرات کے حق میں نہیں تھی۔ تاہم جولائی میں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی نے عسکری قیادت کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ عسکری قیادت مذاکرات سے متعلق ہونے والی پیشرفت کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کو آگاہ کرے گی اور اس کے بعد اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے گی۔

تاہم پارلیمانی سطح پر ایک کمیٹی تو قائم کی گئی لیکن اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ اس دوران ریاست کا لائحہ عمل کیا ہو گا اور آیا ان شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے ہیں یا ان کے خلاف ایک مرتبہ پھر آپریشن کیے جائیں گے۔

خیبرپختونخوا میں بڑھتی دہشتگردی کے حوالے سے وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی جانب سے ایک دوسرے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے وفاق پر فنڈز نہ دینے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔

ادھر آئی ایس پی آر کی جانب سے دو روز قبل جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ کور کمانڈر کانفرنس میں ٹی ٹی پی کے حملوں اور سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اورکہا گیا کہ دہشتگروں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید کہا گیا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عوامی امنگوں کے مطابق جنگ جاری رہے گی۔

،تصویر کا کیپشناسلام آباد میں ایک پولیس چیک پوائنٹ پر خودکش دھماکے میں ایک پولیس اہلکار اور حملہ آور سمیت تین افراد ہلاک جبکہ چھ افراد زخمی ہوئے تھے

جب ٹی ٹی پی منظم ہو رہی تھے تو حکومت کیا کر رہی تھی؟

اس وقت یہ سوال خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ایک طرف وفاق اور صوبائی حکومت میں بیانیے کا ٹکراؤ ہے اور دوسری طرف ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے ابہام موجود رہا تو ایسے میں ٹی ٹی پی کو ملک میں کیوں منظم ہونے دیا گیا اور اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمتِ عملی کیا تھی۔

اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئےوزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ ’خیبرپختونخوا کی پولیس کے پاس تیاری اپنی جگہ پر پوری ہے لیکن دہشتگردی کی لہر جب آتی ہے تو وہ ہم تو نہیں لے کر آئے، جو کرنے والے ہیں ان کی اپنی حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی ہے۔

’حملے انھوں نے کیے ہیں لیکن ہم بہت سے حملوں کو پہلے ہی ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اگر کوئی حملے ہو رہے ہیں تو ہم ان کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں اور بھرپور جواب بھی دے رہے ہیں۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تیاری میں خامیاں تھیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ نقطہ نظر ہو سکتا ہے، لیکن ان کی تیاری کے ساتھ ہماری تیاری بھی جاری تھی، ہم نے گذشتہ بجٹ میں سی ٹی ڈی اور پولیس کے لیے اربوں روپے مختص کیے تھے، اور اس کے علاوہ سی ٹی ڈی کے کئی ڈویژنل ہیڈکوارٹرز بھی بنائے گئے۔

اس بارے تجزیہ کار عامر رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے اور انھیں پاکستان میں جگہ ملی۔

’انھیں کاؤنٹر کرنے کے لیے ریاست نے کسی قسم کی حکمتِ عملی بنائی ہی نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ابتدا میں یہی گمان تھا کہ جو لوگ افغانستان سے آئیں گے واپس وہ پرامن طریقے سے رہیں گے، لیکن جب وہ آئے تو ان کی اپنی قبائلی دشمنیاں تھیں، اور لوگ کھڑے ہو گئے ان کے خلاف جو ایک وجہ بنی۔

’شاید ریاست ٹیسٹ کرنا چاہ رہی تھی کہ جب یہ واپس آئیں گے تو ردِ عمل کیا ہو گا، اور وہ ردِ عمل بہت سخت تھا جس کے بعد ریاست کو بھی اپنی پالیسی کا جائزہ لینا پڑا اور سیز فائر بالآخر ختم کیا گیا۔‘

’افغان طالبان سے جرگوں اور مولویوں کے ذریعے نہیں ریاستی سطح پر بات کرنی چاہیے‘

اب جبکہ صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے تو تجزیہ کار عامر رانا کے مطابق ٹی ٹی پی سے مذاکرت کرنے کی بجائے افغان طالبان سے ریاستی سطح پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے آپشن بے شمار ہو سکتے ہیں اور لیکن جرگے اور مولویوں کے ذریعے نہیں ریاست کی سطح پر بات کرنی چاہیے۔‘

دوسری جانب بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشتگردی کی کارروائیاں سنہ 2014 میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کی جائیں گی لیکن اس حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کو وفاق سے جو تعاون چاہیے وہ اسے نہیں مل رہا۔

انھوں نے کہا کہ ’ریاستی سطح پر افغان حکومت کے ساتھ خیبرپختونخوا کی حکومت تو بات نہیں کر سکتی ہے، یہ کام تو وفاق کا ہے لیکن اب تک اس ضمن میں کتنے دورے کیے گئے ہیں۔

’یہ بڑی سطح پر کیا جانے والا کام ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت بھی اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے لیکن وہ تعاون نہیں کر رہی۔‘

عوام میں خوف

عوامی سطح پراس صورتحال میں خوف کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع بنوں میں سی ٹی ڈی کے تھانے میں پیش آنے والے واقعے کے بعد مقامی آبادی میں سے کوئی شخص سامنے آ کر بات کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن آف کیمرہ سب ایک بات پرمتفق تھے کہ حالات ٹھیک نہیں۔

بنوں میں انسداد دہشت گردی کے دفتر میں حملے کے واقعے سے چند ہفتے پہلے بھی بنوں کے مقامی تاجروں اور دیگر حلقوں نے احتجاجی دھرنے دیے تھے اور علاقے میں امن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔

بنوں چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ناصر بنگش نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ شہر میں بد امنی ایسی ہے کہ آئے روز لاشیں ملتی رہتی ہیں لیکن حکومت، انتظامیہ اور سکیورٹی ادارے اس بارے میں عوام سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے۔

اسی طرح لکی مروت میں کچھ صحافیوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو نا معلوم نمبر سے فون کال آجائے تو کوئی فون نہیں اٹھاتا۔ اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ شام کے بعد لکی مروت شہر میں پولیس اہلکار نظر ہی نہیں آتے۔

اس علاقے میں امن کمیٹی کے قیام کی باتیں بھی ہو رہی ہیں جس پر طالبان نے بھی مقامی لوگوں سے کہا ہے کہ امن کمیٹی کے نام پر مقامی لوگ درمیان میں نہ آئیں۔ مقامی لوگوں نے یہ سوال کیے ہیں کہ کیا حکومت ایک مرتبہ پھر امن کمیٹیوں کا تجربہ کرنے جا رہی ہے۔

قومی سطح پر قائم انسداد دہشت گردی اتھارٹی کے جانب سے 8 دسمبر کو سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوران کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کو پھیلنے کا موقع ملا اور اس نے مختلف علاقوں میں مضبوط قدم جما لیے ہیں جس کے بعد حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان شدت پسندوں کی افغانستان میں اپنی بنیادیں اب بھی قائم ہیں۔

افغانستان میں اتحادی افواج کے انخلا اور کابل میں افغان طالبان کے آنے سے ٹی ٹی پی کو بھی تقویت ملی تھی لیکن افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستان حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور اس کے لیے سیاسی سطح پر ، قبائلی سطح پر اور علما کی سطح پر وفود افغانستان بھیجے گئے اور ایک ایسا تاثر دیا گیا کہ مذاکرات کامیاب ہو رہے ہیں لیکن اندرون خانہ صورتحال مختلف رہی ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار اور عسکری امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیم سے مذاکرات ایک غیر آئینی کوشش تھی جو چند لوگوں کی مدد سے شروع کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ ’جو چند وفود لے کر لوگ گئے انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر مذاکرات کرنا تھے تو وہ افغانستان سے ہو سکتے ہیں اور ان سے ان شدت پسندوں کو طلب کیا جا سکتا تھا اور انھیں یہاں پاکستان کی عدالتوں میں پیش کرنا ضروری ہے۔

’حکومت اب تک اس بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکی کہ آیا شدت پسندوں کے ساتھ مذکرات کا جو سلسلہ رک گیا یا معطل تھا، اسے بحال کیا جائے گا یا اب ایک مرتبہ پھر ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘

بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں کسی بھی جرائم پیشہ گروہ سے مذاکرات کی گنجائش نہیں اور یہ جو کوشش کی گئی وہ سراسرغلط تھا۔

دوسری جانب تجزیہ کار محمد عامر رانا کے مطابق بھی مذاکرات کی کوشش سرکاری سطح پر ایک سنگین غلطی تھی اور اس سے طالبان کو اپنے ٹھکانے بنانے کے مواقع ملے اور اب شدت پسند مختلف علاقوں میں پھیل چکے ہیں۔

عامر رانا نے پولیس پر حملوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسندوں کی جانب سے پولیس پر حملے بڑھے ہیں کیونکہ یہ آسان نشانہ ہے اور اس سے ریاست پر دباؤ بڑھتا ہے اور اس وقت ٹی ٹی پی یہی کر رہی ہے اور اس کے لیے حکومت اور سکیورٹی اداروں کو کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو گا۔

Exit mobile version