Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستانی نوجوانوں میں بڑھتی ذیابیطس: شوگر کے باوجود نارمل زندگی کیسے ممکن؟

Share

ان کی عمر صرف 31 برس تھی جب انھیں ایسی علامت کا سامنا کرنا پڑا جو ان کی جان بھی لے سکتی تھی۔ ایک روز کام کے دوران ہی حافظ ابوبکر اچانک ڈائیبیٹک کیٹو ایسڈوسس یا ڈی کے اے میں مبتلا ہو گئے۔

انھیں بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کے ہوش و حواس لوٹنے میں 10 دن لگے۔ ہوش آتے ہی لاہور کے رہائشی حافظ ابوبکر کو معلوم ہوا کہ وہ ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا ہیں اور ان کی بے ہوشی کی وجہ ڈی کے اے بتائی گئی۔

ڈی کے اے عام طور پر ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں میں نمودار ہوتی ہے اور وہ لوگ جن میں ذیابیطس کی تشخیص نہ ہوئی ہو ان میں یہ پہلی علامت کے طور پر سامنے آتی ہے۔

اس علامت میں ہوتا یوں ہے کہ متاثرہ شخص کے جسم میں انسولین ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جب جسم میں موزوں مقدار میں انسولین نہ رہے تو بلڈ شوگر یعنی خون میں موجود گلوکوز جسم کے خلیوں میں داخل نہیں ہو پاتی۔

انسولین وہ ہارمون یا مادہ ہے جو لبلبے سے خارج ہو کر خون میں شامل ہوتا ہے۔ یہ شوگر کو خلیوں میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔  

اور خلیوں کو کام کرنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسی بلڈ شوگر سے حاصل کرتے ہیں۔ انسولین کی غیر موجودگی یا کمی کی صورت میں جسم میں ایندھن پیدا کرنے کے لیے اس شخص کا جگر چربی کو توڑنا شروع کر دیتا ہے۔

اس عمل کے دوران بہت سارے تیزاب بھی پیدا ہوتے ہیں۔ انھیں کیٹونز کہا جاتا ہے۔ جب کیٹونز بہت زیادہ مقدار میں بہت تیزی سے پیدا ہونا شروع ہو جائیں تو وہ جسم میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ساتھ ہی انسولین کی غیر موجودگی میں خون میں بلڈ شوگر کی مقدار بہت زیادہ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایک خطرناک عمل ہے جو ڈی کے اے کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔

ڈی کے اے کو میڈیکل ایمرجنسی تصور کیا جاتا ہے اور ڈاکٹرز متاثرہ شخص کو فوری ہسپتال منتقل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

جسم کے اندر انسولین کی کمی اور نتیجے میں ہونے والی شوگر میں اضافے کا عمل بعض اوقات خاموشی سے ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اس سے لاعلم رہتے ہیں اور ایسی علامات کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں جیسا کہ پیاس کی شدت اور بار بار پیشاب کرنے کی حاجت محسوس کرنا۔

بات اچانک نڈھال ہو کر گر جانے تک پہنچ جاتی ہے۔ جیسا کہ حافظ ابوبکر کے ساتھ ہوا۔ انھیں یاد نہیں کہ اس سے قبل کبھی انھیں کوئی علامات محسوس ہوئی ہوں جن سے انھیں پتہ چل سکتا کہ انھیں ذیابیطس ہو سکتی ہے۔

’میری روزانہ کی روٹین شاید بہت زیادہ سخت تھی۔ میں کام میں بہت مگن رہتا تھا اور اس کی وجہ سے میری خوراک کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔ لیکن مجھے اس سے پہلے کوئی علامات بھی نہیں نظر آئیں۔ اچانک ہی ایک دو ماہ میں یہ سب کچھ میرے ساتھ ہوا۔‘

حافظ ابوبکر کو اب باقاعدگی کے ساتھ مصنوعی طور پر انسولین لینا پڑتی ہے تاہم وہ ایک نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن یہ زندگی حاصل کرنے کے لیے انھیں بہت سی تبدیلیاں کرنی پڑی ہیں۔

ذیابیطس کیا ہے اور خطرناک کیوں ہے؟

حافظ ابوبکر جس ذیابیطس کی قسم کا شکار ہیں یعنی ٹائپ ون، اس کے بارے میں زیادہ تر خیال یہی کیا جاتا ہے کہ یہ جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہے یا خاندانی ہسٹری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس میں متاثرہ شخص کو انسولین مصنوعی طور پر لینا ضروری ہوتا ہے۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس میں یا تو متاثرہ شخص کا لبلبلہ انسولین مطلوبہ مقدار میں بناتا ہی نہیں ہے یا پھر اس کے خلیے انسولین کے خلاف مزاحمت شروع کر دیتے ہیں اور شوگر خلیوں میں داخل نہیں ہو پاتی۔ یوں خون میں شوگر کی مقدار بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس کے ہونے کی حقیقی وجہ کا علم تاحال نہیں ہو پایا تاہم زیادہ تر خیال یہی کیا جاتا ہے کہ وزن کی زیادتی، جسم کو حرکت نہ دینا یا ورزش کی کمی اور کھانے پینے میں بے قاعدگی ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔

ذیابیطس بنیادی طور پر وہ طبی حالت ہے جس میں متاثرہ شخص کے خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے یا اس میں بے قاعدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں اگر ذیابیطس کو کنٹرول نہ کیا جائے تو انسانی جسم کے مخلتف نظام اس سے متاثر ہونا شروع جاتے ہیں۔

اگر وقت پر اس کا علاج شروع نہ کیا جائے تو ذیابیطس متاثرہ شخص کے دل، خون کی نالیوں، نسوں، بینائی اور گردوں کو تیزی سے متاثر کرتی ہے۔ یوں وہ ان اعضا کی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ان میں کئی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔

عبدالرحمان فکرمند کیوں ہیں؟

لاہور کے رہائشی عبدالرحمان کی عمر محض 18 برس ہے لیکن انھوں نے ابھی سے ایسے تمام کاموں کو ترک کرنا شروع کر دیا ہے جو ان میں ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔

وہ پہلے گاڑی پر سکول جاتے تھے، اب پیدل چل کر گھر سے بس سٹاپ تک جاتے ہیں اور اسی طرح واپس آتے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے وہ باقاعدگی کے ساتھ جم جا کر ورزش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ خود کو جسمانی مشقت والے کاموں میں مصروف رکھتے ہیں۔

یہ سب کچھ کرنے کی ان کے پاس مضبوط وجہ ہے۔ ان کے والد ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ ان کی عمر 50 سال کے قریب ہے اور وہ خود بھی ڈاکٹر ہیں۔ ذیابیطس نے کم عمری میں انھیں آن لیا تھا اور اب ان کے گردے اس حد تک متاثر ہو چکے ہیں کہ انھیں ہفتے میں تین بار ڈائلیسز کروانا پڑتا ہے۔

’میں یہ سب کچھ دیکھتا آیا ہوں کہ کیسے ابا کو ذیابیطس ہوئی۔ ان کی روٹین بہت خراب تھی۔ وہ اتنا زیادہ کام کرتے تھے کہ راتوں کو جاگتے اور دن میں تھوڑی دیر کے لیے سوتے تھے، ان کے کھانے پینے کا کوئی وقت نہیں تھا اور ورزش بالکل نہیں تھی۔‘

عبدالرحمان نہیں چاہتے کہ وہ بھی ان افراد میں شامل ہو جائیں جو پاکستان میں تیزی سے ذیابیطس کا شکار ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں کتنے افراد ذیابیطس کا شکار ہیں؟

انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن یعنی آئی ڈی ایف کی سنہ 2021 کی رپورٹ کے مطابق چین اور انڈیا کے بعد پاکستان کا ان ممالک میں تیسرا نمبر ہے جن میں ذیابیطس میں مبتلا بالغ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے یعنی تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔

گذشتہ چند سالوں میں نوجوان یا کم عمر افراد میں بھی ذیابیطس کی شرح تیزی سے بڑھی ہے۔ پہلے یہ تصور کیا جاتا تھا کہ ذیابیطس زیادہ تر 40 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو متاثر کرتی ہے تاہم اب ایسا نہیں ہے۔

آئی ڈی ایف کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ ایک کروڑ سے زائد ایسے افراد ہیں جن میں ذیابیطس کا خطرہ انتہائی زیادہ ہے۔ جبکہ 26 فیصد سے زیادہ بالغ افراد ایسے ہیں جن میں ذیابیطس موجود ہے لیکن اس کی تشخیص نہیں ہو پائی۔

پاکستان ہی میں ذیابیطس کی وجہ سے ہونے والی طبی پیچیدگیوں کے باعث 60 سال سے کم عمر کے افراد میں ہونے والی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

تاہم ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ان تمام نمبرز سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر ذیابیطس میں مبتلا افراد اپنے خون میں بلڈ شوگر کو کنٹرول کر کے ذیابیطس کو سنبھال لیں تو وہ بالکل ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔

تاہم اس کے لیے آپ کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ آپ کو ذیابیطس ہے یا نہیں، کس قسم کی ہے اور اس کے لیے کس قسم کی ادویات یا طریقہ علاج کی ضرورت ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ذیابیطس میں کیا کچھ نہیں ہوتا یا پھر اس کے طریقہ علاج کے بارے میں کیا غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

نوجوانوں میں ذیابیطس زیادہ کیوں ہو رہی ہے؟

لاہور میں سروسز ہسپتال سے منسلک سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز میں اینڈوکرینولوجی کے شعبے کی پروفیسر ڈاکٹر خدیجہ عرفان کہتی ہیں کہ اس کی وجہ طرزِ زندگی میں تبدیلیاں ہیں۔

‘اب ہم سفر کے لیے گاڑیاں استعمال کرتے ہیں، کام زیادہ تر بیٹھ کر کرتے ہیں، خوراک میں باہر کے کھانے بہت زیادہ ہو گئے ہیں، سبزیاں کم ہو گئی ہیں، اب بچے باہر جا کر کھیلنے کے بجائے کمپیوٹر یا فون پر بیٹھ کر گیمز کھیلنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔’

ساتھ ہی ڈاکٹر خدیجہ سمجھتی ہیں کہ نوجوانوں میں کم سونے اور وقت پر نہ سونے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جو ذیابیطس کے خطرے کو کہیں زیادہ بڑھا رہا ہے۔

’اب ہم دیکھتے ہیں کہ بچے راتوں کو دو تین بجے تک جاگ رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ سوشل میڈیا پر بات چیت کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیکل ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو لوگ آٹھ گھنٹے سے کم نیند کرتے ہیں ان میں موٹاپا بڑھ جاتا ہے اور موٹاپے کا پھل ذیابیطس ہے۔‘

تاہم ڈاکڑ خدیجہ سمجھتی ہیں کہ طرزِ زندگی میں تبدیلیوں اور ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ ذیابیطس کو کنٹرول کر کے ایک اچھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

’کوئی کہتا ہے کریلا استعمال کرو‘

ڈاکٹر خدیجہ عرفان کہتی ہیں ان کے مشاہدے میں بہت سی ایسی وہمی باتیں آئی ہیں جو ذیابیطس کے حوالے سے لوگوں میں پائی جاتی ہیں اور غلط ہیں۔

’کوئی کہتا ہے کریلا یا لہسن استعمال کرو، ذیابیطس ٹھیک ہو جائے گی۔ اگر آپ کو یہ چیزیں پسند ہیں تو آپ ضرور کھائیں لیکن اس سے ذیابیطس ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس کے لیے آپ کو مستند علاج چاہیے۔‘

ان کے خیال میں کچھ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایک مرتبہ ذیابیطس میں مبتلا ہو گئے تو ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔

’ایسا بھی نہیں ہے۔ اگر آپ ذیابیطس کو کنٹرول کر لیں تو آپ ہر وہ کام کر سکتے ہیں جو آپ کرنا چاہیں۔ آپ چاہیں تو پہاڑ چڑھ جائیں، سوئمنگ کریں، گیمز کھیلیں، آپ ہر ایسا کام کر سکتے ہیں۔‘

اس کے ساتھ ہی بہت سے افراد میں مصنوعی طریقے سے انسولین لینے کے حوالے سے بھی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

’کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ آخری علاج ہے‘

اینڈوکرینالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر خدیجہ عرفان کہتی ہیں کہ بہت سے افراد میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ انسولین بس آخری سٹیج ہے یا آخری علاج ہے۔

’ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگر آپ کے جسم کو انسولین کی ضرورت ہے جو کہ آپ کے ڈاکٹر آپ کو بتائیں گے تو انسولین لینا آپ کے لیے بہتر ہے، یہ نہیں ہے کہ وہ آخری علاج ہے۔‘

ڈاکٹر خدیجہ کہتی ہیں ان کے مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ کئی مرتبہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسولین کے استعمال سے ان کے گردے خراب ہو جائیں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تاثر بھی غلط ہے۔

’انسولین تو ایک قدرتی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے جسم میں آ رہی ہے۔ ایک قدرتی چیز سے کیسے آپ کے گردے خراب ہو سکتے ہیں۔‘

لاہور کے رہائشی حافظ ابوبکر بھی گذشتہ لگ بھگ سات برس سے باقاعدگی سے انسولین لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں انھیں اس کی ضرورت ہے اور وہ ڈاکٹر کے مشورے سے اس کو طرزِ زندگی میں دیگر تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انسولین استعمال کرتے ہیں۔

’یہ تاثر غلط ہے کہ انسولین لینے سے آپ کے گردے خراب ہوتے ہیں یا اس کو آپ کو کوئی نقصان ہوتا ہے۔ انسولین لینے کا عمل بہت سادہ سا ہے جو میں خود بڑے آرام سے کر لیتا ہوں۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ انسولین کے ساتھ طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیوں کے ساتھ پہلے سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔

’اب کی زندگی پہلے کی زندگی سے بہتر ہے‘

عبدالرحمان ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہیں۔ ذیابیطس کی اس قسم میں انسولین لینا ہی پڑتی ہے اس کو کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اس لیے وہ تشخیص ہونے کے بعد سے ہر روز مسلسل انسولین لے رہے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذیابیطس اور انسولین کے بعد کی زندگی ان کی پہلے کی زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔

’پہلے میرے سونے جاگنے کا کوئی ٹائم نہیں تھا، میں کھانے کا خیال نہیں کرتا تھا، ورزش نام کی کوئی چیز میری زندگی میں نہیں تھی۔‘ ذیابیطس ہونے کے بعد عبدالرحمان کہتے ہیں انھوں نے وہ تمام چیزیں چھوڑ دی ہیں جن کی انھیں ضرورت نہیں تھی۔

’جنک فوڈ کی مجھے ضرورت نہیں تھی وہ میں نے چھوڑ دیا ہے، سونے جاگنے میں بی ترتیبی کی مجھے ضرورت نہیں تھی وہ میں نے چھوڑ دیا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں اس سے ان کے کاروبار پر بھی بہت اچھا اثر پڑا ہے۔ اس میں باقاعدگی آئی ہے اور وہ پہلے سے بہتر ہو گیا ہے۔

’اب میں سورج نکلنے سے پہلے اٹھتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں، اس کے بعد ورزش کرتا ہوں، پھر صحت مند ناشتہ کر کے، انسولین لے کر اپنے دن کا آغاز کر دیتا ہوں۔ میرے خیال میں میری اب کی زندگی پہلے کی زندگی سے بہتر ہے۔‘

عبدالرحمان سمجھتے ہیں کہ انسولین اور ادویات کے ساتھ ساتھ طرزِ زندگی اور کھانے پینے کے اوقات وغیرہ میں باقاعدگی لانا بھی ضروری ہے جو زیادہ مشکل نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں اس پر عمل کر کے وہ ایک نارمل زندگی گزار رہے ہیں اور ذیابیطس میں مبتلا باقی لوگ بھی گزار سکتے ہیں۔

Exit mobile version