Site icon DUNYA PAKISTAN

ختنے کی رسم یہودیوں میں کیوں باقی رہی اور مسیحیوں نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟

Share

اپنی پیدائش کے آٹھویں دن حضرت عیسیٰ کے بھی ختنے کیے گئے مگر ان کے بعد آنے والوں نے اس رسم کو ترک کر دیا۔ حالانکہ یہودیوں اور مسیحیوں میں کئی روایات اب بھی مشترکہ ہیں مثلاً اہم دنوں پر اجتماعی عبادات۔ 

مسیحی لوگ کیوں اپنے نومولود بچوں کے ختنے نہیں کرتے، اس کا جواب بائبل میں موجود ہے۔ 

بائبل کے عہد نامہ جدید یا نیو ٹیسٹامینٹ کے مطابق یہودیت اور مسیحیت میں ختنوں کے بارے میں تضاد سنہ 50 عیسوی میں آیا اور سینٹ پال (پولُس) اور سینٹ پیٹر (پِطرس) کے درمیان اس موضوع پر سخت بحث ہوئی۔ 

کیتھولک یونیورسٹی آف یوراگوئے میں مذہبی فلسفے کے پروفیسر میگیل پاستورینو نے بی بی سی مُنڈو سروس کو بتایا: ’یہ کلیسا کا پہلا ادارہ جاتی اختلاف تھا۔‘ 

سینٹ پال کو اس وقت تک سینٹ یا بزرگ کا درجہ نہیں دیا گیا تھا اور وہ صرف پال آف طرسوس کے نام سے جانے جاتے تھے۔ پال شروع میں شریعتِ موسوی کے فقیہ یعنی فریسی تھے اور حضرت عیسیٰ کے حواریوں کو ستایا کرتے تھے مگر پھر بائبل کے مطابق وہ بدل گئے اور اُنھوں نے پوری دنیا میں یسوع مسیح کا پیغام پھیلایا۔ 

گلیل یا الجلیل شہر سے تعلق رکھنے والے پیٹر، نذرتھ یا الناصرۃ شہر سے تعلق رکھنے والے یسوع مسیح کی طرح پال بھی یہودی مسیحی تھی اور اس لیے ان کے ختنے ہوئے تھے۔ 

اس وقت تک یہودی مذہب وہ واحد مذہب تھا جو ایک خدا کی عبادت کی ترویج کیا کرتا تھا جبکہ یونانی، رومی اور مصری اس وقت کئی خداؤں پر یقین رکھتے تھے۔ 

یہودیوں کے نزدیک خدا نے ابراہیم سے کہا ’تمہیں میرے اور تمہارے اور تمہاری نسلوں کے درمیان اس عہد کی پاسداری کرنی ہو گی کہ تم میں سے ہر مرد کا ختنہ کیا جائے۔‘ 

یہودیوں کے علاوہ مسلمان بھی آج تک ختنے کی روایت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ 

ختنے کی تاریخی حیثیت

عضوِ تناسل پر سے باریک جھلی کو اتار دینے کی روایت کو ختنہ کہا جاتا ہے اور اس کی شروعات مذاہب سے بھی پہلے ہوئی تھی۔ 

یہ دنیا کا قدیم ترین عملِ جرّاحی ہے اور حالانکہ اس حوالے سے مکمل ثبوت دستیاب نہیں مگر پیڈیاٹرک سرجن احمد السلیم کی کتاب این السٹریٹڈ گائیڈ ٹو پیڈیاٹرک یورولوجی کے مطابق مانا جاتا ہے کہ یہ عمل 15 ہزار برس قبل مصر میں شروع ہوا تھا۔ 

السلیم بتاتے ہیں کہ کیسے کئی معاشروں نے صفائی سے لے کر بلوغت کو پہنچنے کی رسومات جیسی مختلف وجوہات کی بنا پر ختنے کی رسم جاری رکھی جس کا مقصد خدا کو خوش کرنا یا اپنی ثقافتی پہچان کا اظہار کرنا ہوتا تھا۔ 

میگیل پاستورینو کہتے ہیں کہ ’مذہب کی حکمرانی ہر چیز پر تھی، صفائی ستھرائی سے لے کر خوراک، سیکس، سیاست، ہر چیز پر۔ کسی ثقافت میں جنم لینے والی ہر چیز کی طرح مذہبی نظام بھی ان کے ساتھ ہی جنم لیتے ہیں اور قدیم زمانوں میں انھیں علیحدہ کرنا مشکل تھا۔ جب اُنھیں صفائی کے کسی عمل پر قانون سازی کرنی ہوتی تو اس کے لیے بھی مذہب کا استعمال کیا جاتا کیونکہ قانون خدا کا قانون تھا، اس کے علاوہ کوئی قانون نہیں تھا۔‘ 

یہودیت میں اس مؤقف کی نفی نہیں کی جاتی تاہم یہ کچھ فرق کے ساتھ موجود ہے۔ 

ربی ڈینیئل ڈولینسکی کہتے ہیں کہ ’کچھ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مذہبی تصور کے علاوہ صفائی ستھرائی میں اس کے کردار کی وجہ سے لوگ زیادہ تر اس پر عمل کرنے لگے۔ پر اگر ہم یہ نہ بھی جان پائیں کہ یہ مذہبی وجوہات کی بنا پر شروع ہوا یا صرف صفائی کی غرض سے، ختنوں اور صحت و صفائی کے درمیان ایک ناقابلِ تردید تعلق ہے۔‘ 

قدیم زمانوں میں سمیری اور سامی معاشروں میں ختنے کیے جاتے تھے مگر سنہ 2007 میں اقوامِ متحدہ کے ایڈز پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق ان ثقافتوں سے دور مایا اور ایزٹیک معاشروں میں بھی اس پر عمل کیا جا رہا تھا۔ 

لیکن وسیع پیمانے پر موجود ہونے کے باوجود اس طرزِ عمل کو ہر کسی نے قبول نہیں کیا تھا۔ 

قدیم یونان میں ورزش کی بہت اہمیت تھی اور مردانہ برہنگی کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ اس معاشرے میں عضوِ تناسل کی کھال کو خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا اور ختنے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ 

امریکہ کی ایسوسی ایشن فار ہسٹری آف میڈیسن اور جانز ہوپکنز انسٹیٹیوٹ فار ہسٹری آف میڈیسن کے ایک جریدے بلیٹن آف ہسٹری آف میڈیسن کے لیے سنہ 2001 میں ایک مضمون میں فریڈرک ایم ہوجز نے لکھا: ’لمبی اور بتدریج باریک ہوتی کھال کی پسندیدگی درحقیقت ثقافتی شناخت، اخلاقیات، قابلِ قبول رویوں، نیکی، خوبصورتی اور صحت کے لیے پسندیدگی کی عکاس تھی۔‘ 

چنانچہ ختنہ نہ کیے گئے عضوِ تناسل کی جھلی اگر چھوٹی ہوتی اور پورے عضوِ تناسل پر نہ ہوتی تو اسے خامی تصور کیا جاتا تھا۔ 

کینیڈا کے میکماسٹر ڈیوینیٹی کالج میں عہد نامہ جدید کی پروفیسر سنتھیا لانگ ویسٹ فال اپنی کتاب ’پال اینڈ جینڈر‘ میں لکھتی ہیں کہ ’یونانی دور میں یہودیوں کے لیے ختنے کی روایت پر عمل پیرا رہنا مسئلہ بن گیا تھا کیونکہ یہودی غالب ثقافت سے ہم آہنگ ہونا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا دور بھی تھا جب ختنہ کرنا غیر قانونی قرار پایا۔‘

سینٹ پال اور سینٹ پیٹر کا اختلاف 

یہودی اپنے مذہب کی تبلیغ کر کے دوسرے لوگوں کو یہودی نہیں بنایا کرتے تھے مگر حضرت عیسیٰ نے اپنے حواریوں کو اپنی تعلیمات کو جس قدر ممکن ہو آگے پھیلانے کے لیے کہا۔ 

پال جو ممکنہ طور پر اپنی بلوغت کے ابتدائی برسوں میں یروشلم آئے تھے اور اُنھوں نے اپنا بچپن یونانیوں کے گرد گزارا تھا، وہ یسوع مسیح کے بعد صفِ اول کے مبلغین میں شامل ہوئے۔ 

اُنھوں نے ان علاقوں کا دورہ کیا جو اب اسرائیل، لبنان، شام، ترکی، یونان اور مصر ہیں اور کبھی سکندرِ اعظم کی سلطنت کا حصہ رہ چکے تھے۔ اُنھوں نے حضرت عیسیٰ کا پیغام ان لوگوں میں پھیلایا جو غیر یہودی تھے۔ 

پروفیسر سنتھیا لانگ ویسٹ فال کہتی ہیں کہ غیر یہودی لوگوں کے نزدیک ختنہ کرنا جنسی عضوؤں کا مثلہ کرنے کے مترادف تھا۔ ’چنانچہ یونانی رومی دنیا میں ختنوں کے ساتھ ایک بہت سخت بدنامی جڑی ہوئی تھی اور بلوغت کو پہنچ چکے مردوں کے لیے یہ ایک دردناک مرحلہ ہوتا تھا۔‘ 

اپنی تعلیمات میں پال نے لوگوں کو بتایا کہ اُنھیں ختنے نہیں کروانے چاہیے بلکہ اُنھوں نے کہا کہ نجات حاصل کرنے کے لیے صرف ایمان کا ہونا ضروری ہے۔ 

اُنھوں نے کرنتھیوں کو اپنے پہلے خط میں لکھا: ’میں تمام کلیساؤں میں اس روایت کی بنیاد ڈالتا ہوں۔ کیا کسی کے ختنے ہو چکے ہیں؟ وہ انھیں نہ چھپائے۔ کیا کسی کے ختنے نہیں ہوئے ہیں؟ وہ ختنے نہ کروائیں۔ ختنے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو چیز اہم ہے وہ خدا کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔‘ 

میگیل پاستورینو نے کہا: ’طرسوس کے پال ایک یہودی تھے۔ وہ ایک رومی شہری تھی، ان کی ثقافت یونانی تھی اور وہ انتہائی تعلیم یافتہ شخص تھے اور تینوں ثقافتوں یعنی عبرانی، یونانی اور رومی پر عبور رکھتے تھے اور ان کا ترجمہ کرنا بھی جانتے تھے۔‘ 

پال نے گلتیوں کے نام اپنے خط میں شریعتِ موسوی کا حوالہ دیا جس میں ختنے کے احکامات تھے اور کہا کہ ’یسوع نے ہمیں قانون کی پکڑ سے نجات دلوا دی ہے۔‘ 

مگر دیگر حواریوں نے ان کا یہ مؤقف تسلیم نہیں کیا۔ 

،تصویر کا کیپشنشریعتِ موسوی کے مطابق پیدائش کے آٹھویں دن لڑکوں کا ختنہ کیا جانا چاہیے

مسیحی بائبل میں موجود اپنے خط میں پال نے لکھا: ’کئی باغی، شرپسند اور دھوکے باز ہیں، خاص طور پر جو ختنے کی حمایت کرتے ہیں۔ تمہیں ان کا منھ بند کرنا پڑے گا۔‘ 

گلتیوں کے نام اپنے خط میں اُنھوں نے لکھا کہ کیسے ایک روز ان کی موجودہ ترکی کے شہر انطاکیہ میں پیٹر کے ساتھ لڑائی ہو گئی تھی جہاں حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں کی ایک خاصی بڑی آبادی تھی۔ 

پال کے مطابق پیٹر غیر یہودیوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے مگر جب حواری جیمز یعنی یعقوب کا ایک وفد شہر میں آیا تو وہ ان سے الگ ہونے لگ گئے ’کیونکہ اُنھیں ختنے کے حامیوں کا خوف تھا۔‘ 

اُنھوں نے گلتیوں کو بتایا: ’میں نے اس قابلِ مذمت رویے پر اسے ٹوکا۔‘ 

’میں نے پیٹر کو سب کے سامنے کہا: ’اگر تم، ایک یہودی، ایسے رہ رہے ہو جیسے کہ یہودی نہیں ہو، تو پھر تم غیر یہودیوں کو یہودیت پر عمل کرنے کے لیے کیوں مجبور کرتے ہو؟‘

جب اس معاملے پر اتفاق پیدا ہوا 

عہد نامہ جدید کے مطابق کچھ یہودی مسیحی جو اس روایت اور شریعتِ موسوی پر عمل پیرا رہے، وہ انطاکیہ گئے اور وہاں ابتدائی مسیحیت کی جانب راغب ہونے والے غیر یہودیوں سے کہا کہ اگر اُنھوں نے ختنے نہیں کروائے تو وہ نجات نہیں پا سکیں گے۔ 

اس لیے پال واپس یروشلم آئے اور اس مسئلے کے حل کے لیے حواریوں کا ایک اجلاس ہوا جسے کونسل آف یروشلم بھی کہا جاتا ہے۔ 

وہاں پال نے یہوداہ صوبے سے باہر اپنے ہاتھ پر مسیحیت قبول کرنے والوں کی تعداد سے آگاہ کیا اور ان کی رائے کو مقدم مانا گیا۔ 

حواری جیمز ابتدائی طور پر اس کے مخالف تھے مگر بعد میں وہ اس کے حامی ہو گئے جنھوں نے کہا کہ ’ہمیں غیر یہودیوں کو خدا کی جانب راغب ہونے سے روکنا نہیں چاہیے۔‘ 

پیٹر نے بھی یہ مؤقف تسلیم کر لیا۔ ’وہ کیوں ان عقیدت مندوں کی گردن پر یہ بوجھ ڈال کر خدا کو ناراض کرنا چاہتے ہیں جو نہ ہم اور نہ ہمارے آبا و اجداد اٹھا سکیں گے۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘ 

،تصویر کا کیپشندائیں سے بائیں: سینٹ پال (پولُس) اور سینٹ پیٹر (پِطرس)، نشاۃِ ثانیہ دور کی پینٹنگ

اس کے بعد یہ تنازع حواریوں کے درمیان معاہدے پر ختم ہوا۔ پاستورینو بتاتے ہیں کہ پال نے بت پرستوں کو تبلیغ جاری رکھی اور پیٹر اور سینٹیاگو یہودیوں کو تبلیغ کرتے رہے۔ 

بائبل کے مطابق حواریوں نے اس کے بعد انطاکیہ، شام اور سیلیسیہ (قیلیقیہ، موجودہ ترکی) کے غیر یہودیوں کے نام ایک خط لکھا جس میں اُنھوں نے لوگوں کو بتایا کہ اُنھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ’بتوں کو دی گئی قربانی، خون، گلا گھونٹ کر مارے گئے جانوروں اور جنسی بے راہ روی کے علاوہ کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔‘ 

جب یہ خط انطاکیہ پہنچا تو ایمان رکھنے والے افراد نے اسے پڑھا اور خوشی منائی کہ اُنھیں اب ختنے نہیں کروانے ہوں گے۔ 

پروفیسر سنتھیا ویسٹ فال کہتی ہیں کہ ’پال غیر یہودی مردوں میں ایک ہیرو بن گئے اور اُنھوں نے انجیل کی تعلیمات کے پھیلاؤ میں ایک بڑی رکاوٹ دور کر دی تھی۔‘ 

ختنہ شدہ مسیحی 

مسیحی کلیسا کی جانب سے شریعتِ موسوی کی پابندیاں ختم کیے جانے کے باوجود افریقہ میں کئی علاقے ہیں جہاں ختنہ ایک رسم ہے۔ مصر میں قبطی مسیحی، ایتھیوپیا میں قدامت پسند مسیحی اور کینیا میں نومیا چرچ اس کی چند مثالیں ہیں۔ 

اور مذہبی وجوہات کے علاوہ بھی دنیا میں پانچ ایسے ممالک ہیں جہاں مسیحی ثقافت ہونے کے باوجود لڑکوں کی اکثریت ختنہ شدہ ہے۔ 

ان میں سے ایک امریکہ ہے۔ سنہ 1870 میں امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے بانی ارکان میں سے ایک ڈاکٹر لوئس سائر کچھ امراض کی روک تھام یا علاج کے لیے ختنے کرنے لگے۔ 

احمد السلیم کہتے ہیں کہ ان کے سائنسی مقالوں اور ختنوں کے لیے ان کی حمایت کے باعث تقریباً تمام نومولود بچوں کے ختنے کیے جانے لگے۔ 

امریکہ سے یہ روایت کینیڈا اور برطانیہ پہنچی اور اس کے بعد نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بھی پھیل گئی۔ 

پھر کئی ممالک میں ختنے کے فوائد اور نقصانات پر ہونے والے سائنسی اختلافات کے باعث نومولود بچوں کے ختنے بند کر دیے گئے مگر امریکہ میں اب بھی زیادہ تر مرد ختنہ شدہ ہوتے ہیں۔ 

Exit mobile version