جم شروع کرنی ہے، پیسے بھی بچانے ہیں، سگریٹ نوشی بھی ترک کرنی ہے اور اپنی شخصیت پر بھی کام کرنا ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی اہداف آج کل یقیناً آپ سب کے ذہنوں میں ہوں گے۔
نئے سال کی ابتدا ہو چکی ہے اور یوں تو نئے پراجیکٹس کا آغاز کرنے اور بری عادتوں کو پیچھے چھوڑنے کا کوئی اچھا، برا وقت نہیں ہوتا لیکن نئے سال کی ابتدا ایسا کرنے کے لیا موقع ضرور فراہم کرتا ہے۔
اکثر افراد کے لیے نئے سال کے آغاز پر کیے گئے عہد ایک ’تازہ آغاز‘ کی طرح ہوتے ہیں۔ نئے سال کی ’قراردادوں‘ کا مقصد دراصل خود کو بہتر بنانے کے لیے نئے اہداف کا تعین کرنا ہوتا ہے۔
شاید آپ اس سال بچت کرنے کا عہد کرنا چاہتے ہوں یا ہو سکتا ہے آپ کو ایک نئے شوق کو اپنانے کی جستجو ہو۔
آپ نے سال کے آغاز میں جو بھی عہد کر لیے ہیں، انھیں پورا کرنے کے لیے ایک چیز بہت ضروری ہے اور وہ حوصلہ افزائی کی مسلسل موجودگی ہے۔
تاہم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، یہ کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہے۔
سکرینٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق نئے سال کے آغاز پر اپنے لیے اہداف مقرر کرنے والے افراد میں سے صرف آٹھ فیصد ان پر قائم رہ سکے۔
تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ ان 92 فیصد افراد میں سے نہ ہوں۔
اس تحریر میں ہم اس ناکامی سے بچنے اور سال کے آخر تک ایک عہد کو نبھانے کے پانچ آسان طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں جن کے ذریعے آپ اپنے اہداف پورے کر سکتے ہیں۔
ہدف کو مزید چھوٹے اہداف میں توڑ لیں
حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کرنا کامیابی کے زیادہ امکانات کا باعث بن سکتا ہے۔
سائیکو تھیراپسٹ ریچل وائنسٹائن کہتی ہیں کہ مسئلے کا ایک حصہ یہ ہے کہ ہم اکثر اہداف اپنی استطاعات سے بڑھ کر رکھتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے ذہن میں یہ غلط تصور ہوتا ہے کہ ہم نئے سال میں بالکل مختلف انسان بن سکتے ہیں۔‘
ایک قابلِ عمل مقصد کے ساتھ سفر کا آغاز کرنے سے ہم ترقی بھی کر سکتے ہیں اور مزید مشکل مراحل بھی طے کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ میراتھان میں حصہ لینے سے پہلے کچھ جوتے خرید سکتے ہیں اور سپرنٹ کے لیے سائن اپ کر سکتے ہیں۔
چھوٹے اہداف مقرر کرنے کا مقصد دراصل طویل المدتی اہداف پانے کے عمل کو مرحلہ وار پورا کرنا ہے۔
’واضح‘ اہداف ہونا ضروری ہے
ہمارے اکثر اہداف واضح نہیں ہوتے اور ہم انھیں پورا کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ ان پر عمل کیسے کیا جائے گا۔
تاہم اس ضمن میں باریک بینی سے تفصیلات کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنا بہت ضروری ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر نیل لیوی کا خیال ہے کہ ’اگر آپ منگل کی دوپہر اور سنیچر کی صبح جم جاتے ہیں، تو آپ کے کامیاب ہونے کا زیادہ امکان ہے بجائے اس کے کہ آپ صرف یہ سوچیں کہ ’میں مسلسل جم جاؤں گا۔‘
یہ ٹھوس، قابلِ عمل اقدامات اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آپ کا نہ صرف ایسا کرنے کا ارادہ ہے بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے آپ نے پلان بھی بنا لیا ہے۔
سپورٹ نیٹ ورک کی ضرورت
اب جب کہ آپ کے اہداف واضح ہو گئے ہیں تو ان پر عمل کرنے کی شروعات کے بعد ایسے افراد کو تلاش کریں جن کے اہداف آپ جیسے ہیں تاکہ یہ آپ کا حوصلہ بڑھانے کا ذریعہ بن سکے۔
اگر آپ کسی دوست کے ساتھ کلاس میں جانے کا منصوبہ بناتے ہیں تو آپ پرعزم ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب آپ اپنے اہداف کی فہرست عام کرتے ہیں، تو انھیں پورا کرنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف واروک میں فلسفہ پڑھانے والے جان مائیکل اہداف مقرر کرنے اور انھیں پورا کرنے سے منسلک سماجی عوامل کا مطالعہ کرتے ہیں۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا اپنے عہد پر قائم رہنے کا زیادہ امکان اس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے لوگوں کے لیے بھی اہم ہے یا اگر ہم ناکام ہو جاتے ہیں تو ’دوسرے لوگوں کی فلاح و بہبود خطرے میں ہے۔‘
لہٰذا چاہے وہ کسی عہد کو پورا کرنا ہو یا اپنے آس پاس کے لوگوں سے اضافی تعاون حاصل کرنا ہو دوسرے لوگوں کو اپنے اہداف کی تکمیل میں شامل کرنا آپ کی مدد کر سکتا ہے۔
ناکامی پر قابو پانا
یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی جب آگے بڑھنا مشکل ہو جاتا ہے تو ماہرین ایک وقفہ لینے اور صورتِ حال کا دوبارہ جائزہ لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔
جائزہ لیں کہ آپ کو کن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ اس عمل میں کون سی حکمت عملی سب سے زیادہ مؤثر تھی؟ کون سی کم موثر تھی؟
اگر ضروری ہو تو زیادہ حقیقت پسند بنیں اور چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کا جشن منائیں۔
اگر صورتحال کا از سر نو جائزہ لینے کے بعد آپ اسی عزم کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو کیوں نہ کوئی دوسرا طریقہ آزمائیں جو آپ کی قوتِ ارادی کو بڑھا سکے۔
آپ کی روزمرہ زندگی میں معمولی تبدیلیاں آپ کو صحیح سمت میں جانے میں مدد دے سکتی ہیں۔
آپ کے نئے سال کے اہداف طویل المدتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہوں
رویوں پر کام کرنے والے ماہرِ نفسیات این سوئن بورن کے مطابق بہترین ریزولوشن وہ ہیں جو غیر واضح اور بہت زیادہ پرجوش نہ ہوں بلکہ آپ کے طویل المدتی اہداف سے ہم آہنگ ہوں۔
اگر آپ نے کبھی کسی کھیل میں دلچسپی نہیں دکھائی، تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ آپ اس میں بہترین ایتھلیٹ بن جائیں گے۔
سوئن بورن کہتے ہیں کہ ’جو لوگ قوت ارادی پر بھروسہ کرتے ہیں وہ زیادہ تر ناکام ہو جاتے ہیں۔‘
لہٰذا ایک بار جب آپ کے پاس کوئی ایسا ہدف ہو جس میں آپ کی دلچسپی ہو تو پہلے دن سے ہی ایک تفصیلی منصوبے کے ساتھ شروعات کریں۔
یہ راستہ طویل اور کٹھن ہو گا اور اس میں رکاوٹیں بھی آئیں گی، ان کا مقابلہ کرتے ہوئے مدد ضرور حال کریں۔